ماہنامہ تعمیر افکار کراچی

مجلہ
:
ماہنامہ تعمیر افکار کراچی
اشاعت ِخاص جلد دوم
بیاد ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
مدیر
:
ڈاکٹر سید عزیز الرحمن
صفحات
:
464 قیمت:850 روپے
ناشر
:
زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے 18/4
ناظم آباد نمبر4، کراچی۔ 74600
فون
:
36684790
ویب
سائٹ
:
info@rahet.org
www.rahet.org
فیس بک
:
zawwar academy publication
research academy for higher education & technology

اسلامی افکار کے ترجمان علمی، ادبی اور تحقیقی مجلے ماہنامہ تعمیر افکار کراچی کی یہ اشاعتِ خاص جلد دوم ہے جو ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں مرتب کی گئی ہے۔ گراں قدر مقالات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن تحریر فرماتے ہیں:
’’الحمدللہ تعمیر افکار کی ایک اور اشاعتِ خاص، جو اس کی سابقہ اشاعتِ خاص کا تسلسل ہے، پیشِ خدمت ہے۔ یہ اشاعت معروف عالمِ دین، محقق اور مفکر، عالمِ اسلام کی اہم ترین شخصیت ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی حیات و خدمات کے حوالے سے ہے۔ یہ اس سلسلۂ اشاعت کی دوسری جلد ہے، جلد اوّل میں ڈاکٹر صاحب کے تحریری سرمائے پر مشتمل مفصل کتابیات کے علاوہ ڈاکٹر صاحب پر مشاہیر کے تاثراتی مضامین، ڈاکٹر صاحب کا فارسی کلام اور اس پر تبصرہ، نیز آپ کے ایک سفرنامے کا کچھ حصہ، کتب پر تبصرے، مقدمے، دیباچے اور آپ کے خطوط شامل تھے۔ اس حصے میں دو ابواب قائم کیے گئے ہیں۔ باب اوّل میں آپ کی متنوع خدمات کا جائزہ شامل ہے، اس میں آپ کے محاضرات سمیت آپ کی کتب کے تعارف کے ساتھ ساتھ آپ کی خدمات کی مختلف جہات پر اہلِ علم نے اپنی نگارشات پیش کی ہیں، نیز مختلف اداروں کے ساتھ آپ کا جو انسلاک اور تعلق رہا اس کے حوالے سے بھی مضامین شامل ہیں۔ اس باب میں البتہ چند پہلوئوں سے تشنگی کا احساس باقی ہے، مثلاً علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے حوالے سے آپ کی خدمات کا احاطہ نہیں ہوسکا۔ خاص دعوہ اکیڈمی، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اور شریعت کورٹ و شریعت اپیلٹ بینچ کے حوالے سے بھی مضامین میسر نہیں آسکے۔ ہندوستان سے کسی بھی شخص کا مضمون حاصل نہیں کیا جاسکا۔ صرف جلد اوّل میں ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقیؒ کا مضمون شاملِ اشاعت ہے۔ خیر یہ سلسلہ جاری رہے گا اور مزید استفادے کے در وا ہوں گے۔
دوسرے باب میں آپ کے تین غیر مطبوعہ خطبات تدوین کے بعد پیش کیے جارہے ہیں، ایک مختصر سا غیر مطبوعہ مضمون بھی اس باب کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے کئی ایک غیر مطبوعہ محاضرات تیار ہونے کے باوجود شامل نہیں ہوسکے، ضخامت کا چیلنج ہمیشہ کی طرح درپیش رہا۔ انہیں ڈاکٹر صاحب کے سلسلۂ محاضرات ’’ محاضراتِ علمی‘‘ کا حصہ بناکر جلد پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ محاضراتِ علمی کے سلسلے میں الحمدللہ چار جلدیں پیش کی جاچکی ہیں۔
اس اشاعت کے ضمن میں ہمیشہ کی طرح مضامین کے حصول اور خطبات وغیرہ کی تدوین کے حوالے سے آپ کے اہلِ خانہ کے ساتھ بہت سے حضرات کا تعاون شامل رہا، سب کے نام لینے میں دقت یہ ہے کہ کسی ایک کا نام بھی حافظے سے محو ہوجائے تو ہماری شرمندگی کا باعث ہوگا، پھر ان حضرات نے ڈاکٹر صاحب سے اپنی عقیدت کے اظہار کے ساتھ یہ خدمت انجام دی، ان میں سے کسی کا بھی مقصد ذاتی تشہیر نہیں تھا، اس لیے ہم سب کے لیے دعاگو ہیں اور ممنون بھی۔ البتہ اس اشاعت کے بڑے حصے کی تصحیح کا فریضہ مولانا بخت برشوری نے پورے اہتمام سے انجام دیا۔ ان کا شکریہ ہم پر بہر صورت لازم ہے۔
ڈاکٹر صاحب پر ہماری اشاعتِ اوّل سے قبل دو اہم اور ضخیم اشاعتیں سامنے آچکی ہیں، ایک ’’الشریعہ‘‘ گجرانوالہ کی اشاعتِ خاص، اور دوسری ’’معارفِ اسلامیہ‘‘ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی اشاعتِ خاص۔ ’’تعمیر افکار‘‘ کی دونوں جلدیں ان میں شائع شدہ مضامین کے علاوہ ہیں۔ ان اشاعتوں کے علاوہ جو کچھ مختلف جگہوں پر چھپتا رہا اس کی ان دو جلدوں میں احاطے کی کوشش کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہم سب کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے، آمین‘‘۔
حافظ نقیب اللہ فرماتے ہیں: ’’ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے ایک متحرک علمی اور عملی زندگی گزاری۔ آپ علومِ اسلامیہ کے محقق، عالم، مصنف، مترجم، ماہرِ قانون و تعلیم، اعلیٰ پائے کے خطیب، منتظم اور ماہر لسانیات ہونے کے ساتھ ایک معتدل فکری رہنما بھی تھے۔ آپ نے تدریس و تحقیق، خطابت، انتظامی و عدالتی شعبوں میں خدمات کے ساتھ عصرِ حاضر میں امتِ مسلمہ کو درپیش مشکلات و مسائل کے حل کے لیے بھی فکری و علمی رہنمائی کا فریضہ ادا کیا‘‘۔
مجلہ درج ذیل محتویات کا حامل ہے:
٭ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی علمی، تدریسی، انتظامی و دعوتی خدمات۔ ایک جائزہ… حافظ نقیب اللہ
٭ ڈاکٹر محمود احمد غازی کی فکر قرآن خصوصی حوالہ: محاضراتِ قرآنی… پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان
٭ اسلامی نظریاتی کونسل میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی خدمات… ڈاکٹر اکرام الحق یاسین
٭ڈاکٹر محمود احمد غازی اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز… خالد رحمٰن
٭ڈاکٹر محمود احمد غازی کا تصورِ فقہ اور عہدِ حاضر میں اس کی معنویت… ڈاکٹر محمد طاہر منصوری
٭ سنوسی تحریک ڈاکٹر غازی کے افکار، ایک مطالعہ… احمد حماد ہاشمی
٭کتاب السیر الصغیر: تحقیق ڈاکٹر محمود احمد غازی: ایک تحقیقی مطالعہ… پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالشہید نعمانی
٭خطبات و محاضرات کی علمی خصوصیات، ایک تحقیقی جائزہ… حافظ نقیب اللہ
٭ ڈاکٹر محمود احمد غازی، مقاصدِ شریعہ کے شارح و ترجمان… ڈاکٹر محمودالحسن عارف
٭ اسلام اور مغرب، ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے افکار کا خصوصی مطالعہ… محمد انس حسان
٭اسلام اور جدید معاشی مسائل، ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے افکار کا خصوصی مطالعہ… محمد رشید
٭ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی کتاب Islamic Renaissance in South Asia (1707-1867) The Role of Shah Waliullah and His Successors، تعارفی مطالعہ… محمد حفیظ الرحمٰن
٭قادیانی مسئلہ، جنوبی افریقہ اور ڈاکٹر غازیؒ… ڈاکٹر عبدالفرید بروہی
٭اسلام اور بین الاقوامی تعلقات… محمد رشید
٭ دل نواز شخصیت… ڈاکٹر محمد طاہر منصوری
٭تربیتِ اولاد کے غازی اصول… ماریہ غازی
محاضرات:
٭ عصرِ حاضر کا تہذیبی و فکری چیلنج، خطاب: ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
٭ فقہ اسلامی، تاریخ ، روایت، چیلنج: ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
٭مسلم صحافت کی ذمے داریاں: ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
٭ خواتین کا حقِ رائے دہی: ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
بطور تبرک ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا تحریری اقتباس ہم یہاں درج کرتے ہیں:
’’یہ بات کہ شریعت نے اس چیز کو مستحب کہا ہے، اس کو حرام، اس کو مکروہ تحریمی اور اس کو مکروہ تنزیہی… یہ ایک بہت غیر معمولی قانونی تصور ہے۔ یہ ایک انتہائی اہمیت رکھنے والا قانونی تصور ہے، جس تک ابھی مغربی دنیا نہیں پہنچی، اور اس تک نہ پہنچنے کی وجہ سے ان کے ہاں عدالتوں میں ہزاروں مسائل روزانہ پیدا ہورہے ہیں، ہمارے ہاں بھی اسی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں۔ ان کے ہاں قانون دو چیزوں کو جانتا ہے: یا فلاں کام کو لازمی کرنا ہے یا فلاں کام کو نہیں کرنا۔ جس کام کو نہیں کرنا اس پر قانون سزا دیتا ہے، اب سزا دی جاتی ہے تو بعض اوقات جج محسوس کرتا ہے یہ تو چھوٹی سی چیز ہے اس پر سزا دیں تو یہ بڑی غلط بات ہے۔ لہٰذا وہ کبھی سزا دیتا ہے اور کبھی نہیں دیتا۔ ایک جج کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ سزا نہیں دیتا۔ دوسرا سمجھتا ہے کہ نہیں، قانون میں لکھا ہے تو میں تو سزا دوں گا۔ ایک ہی جرم میں ایک جج سزا دے رہا ہے جب کہ دوسرا جج سزا نہیں دے رہا۔ اس لیے کہ تصور ایک ہی ہے قانون میں۔ اگر یہ تصور ہوکہ ناپسندیدہ چیزوں کے بھی درجات ہیں، کچھ درجات ایسے ہیں جس میں قانون مداخلت کرے گا، کچھ درجات ایسے ہیں جس میں قانون جزوی مداخلت کرے گا، کچھ درجات ایسے ہیں جس میں قانون اور عدالت تو مداخلت نہیں کرے گی، لیکن ریاست جزوی مداخلت کرے گی، کچھ میں معاشرہ مداخلت کرے گا، کچھ میں افرادِ خاندان مداخلت کریں گے۔ یہ سارے درجے ایک ایک کرکے جب ہی آسکتے ہیں جب انسانی اعمال کی یہ ترتیب ہمارے سامنے ہو۔ یہ ترتیب شریعت کے توازن کے انتہائی ادنیٰ مظاہر میں سے ایک مظہر ہے‘‘۔
’’پہلے ایک غزالی کافی تھا، ایک رازی کافی تھا۔ ایک غزالی ہوئے، ایک رازی ہوئے، ایک ابن تیمیہ ہوئے، کام چل گیا۔ لیکن آج تو ہزاروں غزالیوں اور ہزاروں رازیوں کی ضرورت ہے۔ یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ نے امام غزالی کو کوئی خاص دماغ دیا تھا جو مجھے اور آپ کو نہیں دیا گیا، غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ رئوف و رحیم ہے، وہ اپنے سب بندوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے، اس نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ کسی کو زیادہ دے دیا ہو، کسی کو کم دیا ہو۔ ہاں انہوں نے اپنے دماغ اور صلاحیت سے کام لیا، ہم نے نہیں لیا۔ کام لینا چاہیں تو اس طرح کا کام اگر ایک آدمی نہیں تو دس مل کر کرسکتے ہیں۔ دس نہیں تو سو مل کرسکتے ہیں، سو مل کر تو ایک غزالی جیسا کام کرسکتے ہیں۔ سو نہ کریں، ہزار لوگ مل کر کرلیں، لیکن جب تک کام کریں گے نہیں اُس وقت تک ہوگا بھی نہیں‘‘۔