کتاب
:
مغرب کے تنقیدی اصول
مصنف
:
ڈاکٹر سجاد باقر رضوی
صفحات
:
270 قیمت:600 روپے
ناشر
:
ڈاکٹر رئوف پاریکھ، ڈائریکٹر جنرل ادارہ فروغِ قومی زبان، قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن، ایوانِ اردو، پطرس بخاری روڈ
ایچ ۔4/8،اسلام آباد، پاکستان
فون
:
051-9269760-61-62
فیکس
:
051-9269759
ای میل
:
matboaatnidisd@gmail.com
ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کی کتاب ’’مغرب کے تنقیدی اصول‘‘ کی یہ آٹھویں اشاعت ہے۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر سجاد باقر رضوی صاحب (1992ء۔ 1928ء) پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج (لاہور) کے شعبۂ اردو میں استاد تو تھے ہی، بنیادی طور پر وسیع المطالعہ اور فکرِ رسا رکھنے والے اہلِ قلم اور اہلِ علم بھی تھے۔ دراصل رضوی صاحب کی انگریزی ادب اور تنقید پر بھی گہری نظر تھی، اور انہیں اس امر کا احساس بھی تھا کہ ہمارے ہاں مغربی تنقیدی نظریات پر اردو میں ایسے منابع و مصادر موجود نہیں ہیں جن کی مدد سے طلبہ مغربی تنقید کے بنیادی مباحث سے کماحقہٗ واقف ہوجائیں اور اس کے پرچے کی تیاری کرسکیں۔ اسی لیے انہوں نے اس کتاب میں طلبہ کی نصابی ضروریات کا بھی خیال رکھا ہے، جیسا کہ انہوں نے خود بھی اپنے پیش لفظ میں نشان دہی کی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ کتاب محض مغربی نقادوں اور ادبی نظریہ سازوں کے افکار کا ترجمہ یا خلاصہ نہیں ہے، بلکہ سجاد باقر رضوی نے اس میں ایک نہایت اہم اور بنیادی فکری مبحث کو مدنظر رکھا ہے اور وہ یہ کہ مغرب کے ادبی تنقیدی اصول بظاہر کتنے ہی عمدہ یا آفاقی کیوں نہ ہوں، مشرقی ادبیات کو مغرب کے پیمانوں سے ناپنا درست نہ ہوگا، کیونکہ ہر زبان کا ادب اپنے سماجی، تہذیبی اور فلسفیانہ نظام کا تابع ہوتا ہے اور اس کے تنقیدی اصول بھی اسی سے نمو پذیر ہوتے ہیں۔
یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جسے ہمارے بعض نقادوں مثلاً کلیم الدین احمد نے یک سر نظرانداز کردیا اور مغربی پیمانوں سے اردو ادب کو جانچتے رہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اردو ادب کے شہ پاروں کی صحیح قدر پیمائی نہ کرسکے جو تنقید کے بنیادی وظائف میں سے ایک ہے۔ طلبہ کے ادبی ذوق اور تنقیدی شعور کو نکھارنے میں یہ کتاب اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس کا ساتواں ایڈیشن بھی عرصۂ دراز سے ناپید تھا، اور اسی لیے اس نئی اشاعت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ امید ہے اسے بنظر استحسان دیکھا جائے گا‘‘۔
ڈاکٹر سجاد باقر رضوی لکھتے ہیں:
’’بنیادی طور پر میں نے یہ کتاب طالب علموں کی ضروریات کے پیش نظر تالیف کی ہے۔ اردو میں اس موضوع پر پہلے بھی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ میری یہ کاوش پہلی کاوش نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہ کتاب سب سے پہلی تفصیلی کتاب ضرور ہے۔ لیکن میں نے جن ناقدوں کو چنا ہے اور ان کے جو خیالات و تصورات اس کتاب میں پیش کیے ہیں، انہیں زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ محض اس اعتبار سے یہ کتاب اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے‘‘۔
’’اس کتاب کی ترتیب میں، میں نے جن چند انگریزی کتابوں سے استفادہ کیا ہے وہ حسبِ ذیل ہیں:
1.The Making of Literture by Scool Jamesy.
2. Critical approaches to Literature by David Daiches.
3.Literary Criticism in antiquit by J.W.Athins
4.The literary Critics by George Watson.
5. Literary Criticism by William K.Wimsatt. Jr.and cleanth books.
ان کتابوں کے علاوہ میں نے مختلف ناقدوں کی اصل تحریروں پر بھی نظر ڈالی ہے۔‘‘
’’افکار و نظریات کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا جان جوکھوں کا کام ہے، بالخصوص ایسی زبان سے جس سے ہمارا کوئی تہذیبی اور فکری تعلق نہ ہو۔ میرا مطلب یہ ہے کہ عربی اور فارسی کے خیالات کو اردو کا قالب دینا انگریزی کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔ اس سلسلے میں مجھے کئی اصطلاحیں خود وضع کرنی پڑی ہیں جن کے ساتھ ان کے انگریزی مترادفات بھی دیئے گئے ہیں۔ انگریزی ناقدوں کے تصورات کو اردو میں وضاحت سے بیان کرنے میں میری کامیابی میرے قارئین کے ذہنِ رسا کے باعث ہے، اور جہاں جہاں میں ناکامیاب ہوا ہوں، اسے میری اپنی معذوری سمجھیے۔
یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور کے طلبہ اور طالبات میرے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہیں پڑھانے کے لیے میں نے مغرب کے تنقیدی تصورات کو اردو میں منتقل کرنا شروع کیا جو بالآخر ایک کتاب کی صورت اختیار کرگئے۔ میں نے مغربی ناقدین کو اردو میں پڑھانا شروع کیا تو ناقدین کی تعداد زیادہ اور وقت کم تھا، مگر جتنی محنت اور عرق ریزی مجھے کرنی پڑی اس کا حاصل یہ کتاب ہے‘‘۔
کتاب میں ان عنوانات کے تحت معلومات درج کی گئی ہیں:
تخلیق اور تنقید، تنقید افلاطون سے پہلے، افلاطون، ارسطو، عہدِ روما کی تنقید، لانجائلنس، دانتے، سر فلپس سڈنی، ڈرائیڈن، ڈاکٹر جانس، کلاسیکی اقدار کے خلاف ردعمل اور جدید طرزِ احساس کی ابتدا، ورڈز ورتھ، کولرج، ایڈگر ایلن پو، لمین اورساں بو، میتھیو آرنلڈ، والٹر پیٹر کروچے، ٹی ایس ایلیٹ
کتاب مجلّد ہے۔