فرہنگ ِسیرت مطالعہ سیرت النبیﷺ کی کلید

استاد ذوق کا بہت مشہور شعر ہے:
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
ایک ذی روح کا دنیا میں آنا اور دنیا سے جانا، عین مشیتِ ایزدی ہے۔ اس ترتیب میں انسان کلی طور پر بے اختیار اور مجبورِ محض ہے۔ لیکن اس دنیا میں قیام کے دوران اپنی کارگزاری کے معاملے میں کلی طور پر خودمختار اور آزاد ہے، اور یہی اس کا امتحان اور آزمائش ہے۔ ارضی دنیا میں بسنے والے لوگوں کی غالب اکثریت کی ساری تگ و دو ان کی اپنی ذات ہی تک محدود رہتی ہے۔ ان کی ساری جدوجہد کا مرکز و محور ان کی اپنی ذات ہوتی ہے، اور تو اور دینی اعمال کا دائرہ بھی بالعموم ذاتی زندگی تک محدود رہتا ہے۔ البتہ ایک انتہائی قلیل تعداد ہر زمانے میں ایسی ہوتی ہے جو ایک واضح اور متعین مقصد کو سامنے رکھ کر زندگی گزارتی، اور مقصد کو اپنی ذات پر ترجیح دیتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دم سے کائنات کا حسن قائم ہے۔ تمام تر ایجادات اور خلقِ خدا کی منفعت کے کام انہی کے ہاتھوں سرانجام پاتے ہیں۔یہ لوگ خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے دائرے میں کسی صلے اور ستائش کی تمنا کے بغیرہمہ وقت اپنےمقصد کی تکمیل میں مصروف رہتے ہیں۔ کائنات کا حسن اوراس کی بقاءاسی طبقے کی مرہونِ منت ہے۔
ہمارے اردگرد آج بھی بہت سی ایسی شخصیات موجود ہیں، جن سے عوام تو کجا خواص بھی پوری طرح واقف نہیں۔ یہ لوگ نہ تو کسی تقریب میں نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان کا نام اور تصویر کسی اخبار کی زینت بنتے ہیں۔ ان کا کام ہی ان کا اصل تعارف ہوتا ہے، اور ان کی بے لوث ریاضت ہی میدانِ تحقیق میں ان کا اصل مقام ہے۔ ہمارےممدوح جناب حافظ سید فضل الرحمٰن بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں۔ حافظ صاحب کا شخصی تعارف تو یہ ہے کہ وہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں۔ ایک اہم نیم سرکاری ادارے کے ذمے دار منصب سے ریٹائر ہیں۔ سید زوار حسین شاہ صاحبؒ کے فرزند ہیں۔ زوار حسین شاہ صاحب ؒ ایسے بزرگ تھے جنہیں دیکھ کر اسلاف کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔ علم کے کوہِ گراں اور صوفی باصفا۔ عبدالرشید نعمانی ؒ جو حدیث روایت کرتے تھے، تو اس کی سند نبیﷺ تک جاتی تھی۔ وہ بھی شاہ صاحب ؒ کی ارادت کا دم بھرتے تھے۔ کراچی یونیورسٹی کے سابق صدر، شعبہ اسلامیات اور بعد میں مکہ مکرمہ کی ام القریٰ یونیورسٹی کے پروفیسر مظہر بقا صاحبؒ، کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی،ؒ اور اس طرح کی بیسیوں قدآور علمی شخصیات شاہ صاحب کے حلقہ ارادت میں شمار ہوتی تھیں۔ معروف بزرگ اور اسکالر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صاحب،شاہ صاحب کے خلفہش مجاز تھے۔ حافظ صاحب کے شخصی تعارف کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ پروفیسر سید محمد سلیم ؒ کے داماد ہیں۔ پروفیسر صاحب سیّد مودودی ؒ کے رفیقِ کار تھے۔ ماہر تعلیم، عربی، اردو اور تاریخ کے جید عالم تھے۔ دارالعلوم منصورہ سندھ کے بانی مہتمم تھے۔ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ علم کی ترویج اور دین کی اقامت میں صرف ہوا۔ مجھے ان کی زیارت کا شرف حاصل رہا ہے، آج بھی جب ان کی پاکیزہ صورت آنکھوں کے سامنے آتی ہے تو آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔
حافظ صاحب کا علمی تعارف یہ ہے کہ وہ گزشتہ چالیس برس سے علوم دینیہ کی ترویج واشاعت میں خاموشی سے مصروفِ عمل ہیں، اور اپنے والد کے نام سے موسوم مولانا سید زوار حسین اکیڈمی ٹرسٹ کے عنوان سے دینی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ آپ کا اولین علمی شاہکار ”معجم القرآن“ ہے۔ یہ قرآن کریم کی لغات اور اشاریہ ہے جسے قبولِ عام حاصل ہوا۔ اب تک اس کی درجنوں اشاعتیں سامنے آچکی ہیں۔ قرآنی لغات کے باب میں یہ ایک بالکل منفرد نوعیت کا اضافہ ہے۔ اس لغت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مادے کی ترتیب کے بجائے، جس شکل میں لفظ قرآن کریم میں اصلاً موجود ہے، اسی شکل میں درج کیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآنی عربی سیکھنے والوں کے لیے یہ ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔ ترجمہ قرآن سیکھنے کے لیے ایسی مفید اور سہل لغت اس سے پہلے موجود نہ تھی۔ قرآنی عربی سکھانے کے کورسز میں اس کتاب کو نصابی کتاب کا درجہ حاصل ہے۔ خود راقم نے جب قرآنی عربی کلاس میں داخلہ لیا تھا تو اسی لغت سے استفادہ کیا تھا۔ پھر ”ہادیِ اعظم“ کے نام سے سیرتِ طیبہﷺ پر تین جلدوں میں نہایت فاضلانہ کتابِ سیرت تحریر فرمائی۔ اسی دوران قرآن کریم کی تفسیر تحریر کرنا شروع کی، جس کا زمانہ تحریر اور پھر زمانہ نظرثانی کوئی پچیس سے اٹھائیس برس پر مشتمل ہے۔ اب یہ تفسیر 4 جلدوں میں دستیاب ہے، اس تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مسلکی بحثوں سے دور رہتے ہوئے عام فہم زبان اور انداز میں قرآن کا پیغام قاری تک منتقل کیا گیا ہے، اب اس کا خلاصہ ”جواہرالبیان“ کے عنوان سے ایک جلد میں شائع ہوچکا ہے، نیز قرآن پاک کا نہایت آسان ترجمہ، مختصر حواشی کے ساتھ ”زبدۃ البیان“ کے عنوان سے منظرعام پر آچکا ہے، اس کے علاوہ بھی آپ کی متعدد کتب موجود ہیں۔
مگر آپ کا منفرد ترین کارنامہ ”فرہنگِ سیرت“ کی ترتیب ہے۔ فواد عبدالباقی کا مرتبہ قرآنی متن کا Index تو ایک عرصے سے موجود ہے۔ اسی طرح حدیث کا، کئی جلدوں پر مشتملIndex مستشرقین کی ایک ٹیم کی شبانہ روز محنت اور عرق ریزی سے مرتب ہوا تھا۔ سیرتِ طیبہ پر اس طرح کی لغت Index کی مثال کم از کم اردو، انگریزی اور عربی میں تو کہیں موجود نہیں تھی۔ حافظ فضل الرحمٰن صاحب نے اس ضرورت کو بڑے احسن طریقے سے پورا کیا۔ یہ کتاب سیرتِ طیبہ میں ذکر ہونے والے تقریباً ساڑھے چار ہزار الفاظ پر مشتمل ہے، جس میں مقامات، شہر، شخصیات، پہاڑوں، چشموں اور قبائل وغیرہ کی ساری تفصیلات موجود ہیں۔ سیرتِ طیبہﷺ کے مطالعے کے لیے یہ فرہنگ کلید (Key) کا درجہ رکھتی ہے۔ سیرتِ طیبہﷺ کا مطالعہ کرنے والے عام قاری کے لیے جہاں یہ لازمی کتاب کا درجہ رکھتی ہے، وہیں محققین کی بھی ایک لازمی ضرورت ہے۔
یہ کتاب سیرت النبیﷺ کا ایک انسائیکلوپیڈیا ہے۔ نبی اکرمﷺ سے نسبت رکھنے والی ہرہر چیز کا اس میں ذکر موجود ہے۔ فرہنگ نویسی ازخود ایک مشکل فن ہے، جس میں مکمل صحت کے ساتھ تمام ضروری معلومات اختصار کے ساتھ بیان کرنی ہوتی ہے۔ مصنف نے اس کا بڑا مکمل اہتمام کیا ہے۔ ہر ضروری بات کو بہت نپے تلے انداز میں اس طرح بیان کیا ہے کہ بغیر کسی مبالغے کے کہا جا سکتا ہے کہ معلومات کے سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ کتاب کے مندرجات پر تبصرہ کرنا تو ممکن نہیں، البتہ مشتے از خروارے کے مصداق چند باتیں درج ذیل ہیں۔
سیرتِ طیبہ کا طالب علم بعض مقامات سے سرسری طور پر آگے بڑھ جاتا ہے۔ لیکن جب وہ فرہنگ سے استفادہ کرتا ہے، تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے کیسی عرق ریزی اور باریک بینی کا اہتمام کیا ہے۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ کعبہ کی تعمیرنو کے موقع پر جب حجر اسود کی تنصیب کا موقع آیا تو ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ اعزاز اس کے حصّے میں آئے۔ یہ قضیہ اتنا بڑھا کہ باہمی قتال کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔ چار دن بعد قریش کے سب سے معمر فرد نے یہ تجویز دی کہ اگلے دن جو شخص بھی سب سے پہلے کعبۃ اللہ میں داخل ہوگا وہ اس معاملے میں حکم قرار پائے گا۔ پانچویں روز آپﷺ سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہوئے۔ آپﷺ نے حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور چادر کے کونے موجود قبائل کے نمائندوں کو تھما دئیے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے حجر اسود کو نصب کردیا۔ تجویز کنندہ کا نام کیا تھا؟ اس کا جواب اچھے خاصے لوگوں کو معلوم نہیں۔ اس شخص کا نام ”ابو امّیہ بن مغِیرہ“تھا۔(ص۔64)
اس طرح سیرت کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ نجاشی حبشہ کے بادشاہ تھے۔ ہجرت کے موقع پر انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بہت اکرام کیا، انہیں تحفظ فراہم کیا اور قریش کے وفد کو کورا جواب دے کر ناکام لوٹا دیا۔ اب فرہنگ میں دی گئی تفصیل ملاحظہ ہو: ”نجّاشی“،حبشہ کے بادشاہ کا لقب۔ حبشی زبان میں بادشاہ کو نجوس کہتے ہیں۔ نجاشی اس نجوس کا معرب ہے۔ ہجرتِ حبشہ کے موقع پر جو بادشاہ تھا،اس کا نام ”اَصحِمَہ“تھا۔ اس نے مہاجرینِ حبشہ کے ساتھ خوب تعاون کیا۔ ہجرتِ حبشہ کے وقت یہ عیسائی تھا، پھر مسلمان ہوگیا تھا۔(ص 379)
حجر الکعبہ، یہ لفظ میرے لیے بھی نیا تھا، اس کی تفصیل ملاحظہ ہو: ”حجر الکعبہ: اس کو حطیم الکعبہ بھی کہتے ہیں۔ کعبہ کا وہ حصہ جو قریش نے کعبہ کی عمارت کو حضرت ابراہیم ؑکی بنیادوں پر تعمیر کرتے وقت حلال پیسے کم ہونے کی بناء پر خالی چھوڑ دیا تھا، اسی کو آج کل حطیم کہتے ہیں۔ چوں کہ یہ کعبہ کا حصہ ہے، اس لیے جب امام کے ساتھ نماز ادا کی جاتی ہے تو حطیم کے اندر صف بندی نہیں کی جاتی بلکہ حطیم کے باہر صف بندی کی جاتی ہے۔ میزاب کعبہ (کعبہ کا پرنالہ)بھی حطیم میں گرتا ہے۔“ (ص۔130)
یہ بات سب جانتے ہیں کہ اوّلین ایمان لانے والی خاتون سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں، لیکن یہ بات لوگ نہیں جانتے کہ حضرت لُبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت الحارث:حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی، خواتین میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بعد سب سے پہلے مسلمان ہوئیں۔ (ص۔327)
کتاب کے آخر میں 30عدد نقشے شامل کیے گئے ہیں جن میں غزوات (1۔احد،2۔ احزاب،3۔ بدر،4۔ تبوک، 5۔ فتح مکہ، 6۔غزوہ حمراء الاسد اور 7۔غزوہ خیبر) کے نقشے حدود و میقات، مسجد نبوی، عمرۃ الحدیبیہ، قریش کے بازار، تجارتی راستے، قبائل عرب وغیرہ شامل ہیں۔
مولف خود تحریر فرماتے ہیں:
”اس فرہنگ میں محدثین، مورخین، سیرت نگاروں، آپﷺ کی ازواج و اولاد، آپؐ کے غلام، گھوڑے، خچر، ہتھیار، غزوات، سرایا، وفود، قبائل اور ان کے شعوب و بطون، پہاڑ، وادیاں، گھاٹیاں، راستے، اعلام، اماکن، کنویں، چشمے، تالاب، قلعے، بت، ناپ تول کے پیمانے، عرب کے بازار وغیرہ کے بارے میں نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے“۔
کسی لفظ کی تشریح کے ضمن میں اگر کسی دیگر مقام یا مقامات کا حوالہ یا ذکر آیا ہے تو اس کو بھی اپنے مقام پر علیحدہ طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً
1۔ اثایۃ: ذوالحلیفہ کے بعد حجفہ کے راستے میں رویثہ اور عرج کے درمیان ہے۔ یہاں چار اضافی لفظوں ذوالحلیفہ، حجفہ، رویثہ اور عرج کا ذکر ہے۔ ان چاروں لفظوں کو باب الزا، باب الجیم، باب الرا اور باب العین میں علیٰ الترتیب علیحدہ علیحدہ بیان کیا گیا ہے۔
2۔ سنجار: عراق کا ایک مشہور شہر، جو شام کے راستے میں آتا ہے۔ موصل اور سنجار کے درمیان تین دن کی مسافت ہے۔ یہاں موصل کا لفظ اضافی ہے۔ اس کی تشریح باب المیم میں علیحدہ دی گئی ہے۔
3۔ لحیان (بنو): یہ لوگ امج کے مشرق میں عُسفان کی جانب آباد تھے، یہاں امج اور عسفان تشریح طلب ہیں۔ ان دونوں کی تفصیل باب الہمزہ اور باب العین میں دیکھی جاسکتی ہے۔ علی ہذالقیاس۔
تمام الفاظ پر اعراب لگائے گئے ہیں، تاکہ صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کرنے میں آسانی ہو۔ کتاب میں تیس نقشے دیے گئے ہیں جو غزوات و سرایا، قبائل، وفود، اماکن، مشہور بازاروں، قریش کے تجارتی اسفار، حدودِ میقات، مسجدِ نبوی اور عمرۃ الحدیبیہ وغیرہ سے متعلق ہیں۔ اکثر نقشوں میں جہاں ضروری ہوا تشریحی نوٹ بھی دیے گئے ہیں۔ (فرہنگِ سیرت۔ سید فضل الرحمٰن، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، کراچی۔ ص 23،24)
اس کتاب کو وزارت مذہبی امور حکومت پاکستان کی جانب سے قومی سیرت ایوارڈ بھی دیا گیا۔ یہ کتاب پہلی بار 2003ء میں، اور نظرثانی اور اضافوں کے ساتھ پھر 2013ء میں شائع ہوئی تھی۔ فاضل اجل ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاںؒ، ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ کے پروفیسر ڈاکٹر مفتی محمد مظہر بقاؒ، معروف محقق اور ادیب ڈاکٹر سید محمد ابوالخیرکشفیؒ اور معروف تاریخ داں اور عالم پروفیسر علی محسن صدیقیؒ نے غیر معمولی الفاظ میں اس کتاب کی تحسین فرمائی ہے۔
یہ کتاب دینی ذوق رکھنے والے ہر فرد اور ہر لائبریری کا حصہ ہونی چاہیے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس کتاب کا ترجمہ انگریزی اور عربی میں کیا جائے۔ اس بات پر حیرت سے زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ اتنی اہم کتاب کا دوسرا ایڈیشن 10سال بعد شائع ہوا، اور آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی دوسرا ایڈیشن ہی چل رہا ہے۔ اس دوران تو اِس کتاب کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوجانے چاہیے تھے۔ اب اسے ناقدری کا عنوان دیا جائے یا یہ کہا جائے کہ قارئین تک کتاب کا تعارف صحیح طور پر نہیں ہوسکا۔ حافظ فضل الرحمٰن صاحب اگر اور کوئی علمی خدمت انجام نہ بھی دیتے تو صرف اسی کتاب سے علمی دنیا میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہتا۔