سانحۂ مری بحیثیت انسان ہماری سفاکی کی انتہا، بطور قوم ناکامی و نامرادی کی المناک داستان اور حکمران اشرافیہ کی بے حسی و غیر ذمے داری کا نوحہ ہے۔ اس سانحے میں دو درجن افراد بظاہر شدید برف باری کی نذر ہوکر لقمۂ اجل بن گئے، مگر موسم کی یہ شدت اور غیر معمولی برف باری غیر متوقع اور اچانک قطعی نہیں تھی، متعلقہ اداروں کی جانب سے قبل از وقت اس کا انتباہ کیا جا چکا تھا اور ذرائع ابلاغ سے بھی اس کی اطلاع دی جا چکی تھی، مگر کسی نے متوقع خطرے کا ادراک کیا اور نہ حفاظتی اقدامات کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ورنہ سرکاری سطح پر ہنگامی اقدامات کیے جاتے اور مقامی انتظامیہ بروقت بچائو کی تدابیر کرتی تو اس سانحے سے بچا جا سکتا تھا۔ تاہم جانی و مالی نقصان کے علاوہ اس سانحے کا انتہائی تکلیف دہ پہلو علاقے کے لوگوں میں انسانیت کا فقدان تھا جس نے پوری قوم کے دل چھلنی کردیئے اور سر شرم سے جھکا دیئے ہیں۔ ملک بھر سے سیر و سیاحت کے لیے مری پہنچنے والے لوگ ایک اجنبی اور غیر مانوس ماحول میں مصیبت و اذیت سے دوچار تھے، ان کی جان پر بنی تھی، مگر مقامی آبادی اورکاروباری طبقے کی زر پرستی اور طمع و لالچ اس موقع پر سفاکی کی حدوں کو چھوتے محسوس ہوئے، انسانی ہمدردی کے بجائے ان کی اخلاقی گراوٹ اور انسانیت سوز طرزِعمل نمایاں ہوکر سامنے آیا، مجبور سیاحوں کی بے کسی اور بے بسی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوٹل مالکان نے ایک رات کے لیے ایک کمرے کا کرایہ بیس سے پچاس ہزار روپے تک طلب کیا، ایک انڈے کے پانچ سو روپے اور چائے کے ایک کپ کے ایک ہزار روپے تک وصول کرنے کی اطلاعات ہیں، حد تو یہ ہے کہ راستے میں پھنسی ہوئی گاڑیوں کو دھکا لگا کر نکالنے کا بھی بھاری معاوضہ لیا جاتا رہا۔ اب مضحکہ خیز توضیحات پیش کرکے شرمندگی و شرمساری کے بجائے اس غیر انسانی رویّے کے لیے جواز تراشے جا رہے ہیں۔ تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ اہلِ مری اور وہاں کے کاروباری طبقے کا یہ رویہ پہلی بار دیکھنے میں نہیں آیا، بلکہ گزرے برسوں میں بھی اس کی شکایات عام رہی ہیں، جس کی اصلاح کی کوئی کوشش سرکاری سطح پر کی گئی نہ ہی عوامی سطح پر اس کا کوئی احساس دیکھنے میں آیا۔
سانحے کی ابتدائی رپورٹ منظرعام پر آ گئی ہے، قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف نے اس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے سانحے کے ذمے داران کے تعین کے لیے پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جسے سات روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جاں بحق افراد کے لیے آٹھ لاکھ روپے فی کس امداد کا اعلان بھی کیا گیا ہے، جب کہ مری کو ضلع بناکر کہسار کا نام دینے، رابطہ سڑکیں، دو پارکنگ پلازے اور دو نئے تھانے بنانے کے اعلانات بھی کیے گئے ہیں۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق 7 جنوری کو سولہ گھنٹے کے دوران چار فٹ برف پڑی، اس برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لیے 3 سے 7 جنوری کے دوران ایک لاکھ 62 ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں، سانحے کے روز سولہ مقامات پر درخت گرنے سے راستے بند ہوئے، گزشتہ دو برس سے مری اور گرد و نواح کی سڑکوں کی مرمت نہیں کی گئی تھی چنانچہ سڑکوں کے گڑھوں میں پڑنے والی برف سخت ہونے کے باعث بھی ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ برف ہٹانے کے لیے ہائی وے کی مشینری موجود نہیں تھی، ہوٹلوں کے کرائے اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں دکان داروں نے کئی گنا بڑھا دیں، برفانی طوفان کے دوران مری کے مختلف علاقوں میں بجلی کی بندش کے سبب بھی لوگ ہوٹل چھوڑ کر گاڑیوں میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق گاڑیوں میں بیٹھے بائیس افراد مونو آکسائیڈ گیس کے باعث جاں بحق ہوگئے۔ یوں دیکھا جائے تو کوئی ایک محکمہ نہیں بلکہ مجموعی طور پر حکومتی نظام ناکامی سے دوچار ہوا۔ ضلعی انتظامیہ، پولیس، جنگلات، مواصلات، سیاحت اور بجلی کی فراہمی کے ذمے دار افسران اور اہلکار اپنے فرائض کی ادائیگی میں سنگین غفلت اور کوتاہی کے مرتکب ہوئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کس کس کے خلاف کب اور کیا کارروائی ہوتی ہے، تاہم غالب گمان یہی ہے کہ کچھ دن بعد شور تھم جائے گا اور سارے معاملہ حسبِ سابق مٹی ڈال کر دبا دیا جائے گا۔
حکومت اور سیاست دانوں کا طرزِعمل بھی اس نازک موقع پر شرمناک رہا جنہوں نے منتخب ایوانوں کے اندر اور باہر ایک دوسرے پر الزام تراشی اور سانحے کی ذمے داری ایک دوسرے پر منتقل کرنے کا سلسلہ حسبِ روایت جاری رکھا۔ جماعت اسلامی کے سوا، جس نے فوری طور پر متاثرین کے لیے امدادی کیمپ قائم کرکے مصیبت زدگان کی مدد کا اہتمام کیا، کسی دوسری سیاسی جماعت کو یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ وہ زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر کوئی عملی قدم متاثرین کو مشکل صورتِ حال سے نکالنے کے لیے اٹھاتی۔ ضرورت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے طرزعمل پر سنجیدگی سے غور کریں اور اللہ تعالیٰ توفیق دے تو توبہ و استغفار کے ذریعے اس سنگ دلانہ رویّے میں تبدیلی کا اہتمام بھی کریں ورنہع تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)