جماعت اسلامی کیا چاہتی ہے؟

کتاب
:
جماعت اسلامی کیا چاہتی ہے؟
مصنف
:
میر افسر امان
صفحات
:
268 قیمت:500 روپے
پبلشر
:
اقبال، قائد، مودودی فکر فورم
فون
:
051-4443686
موبائل
:
0321-3897328
ای میل
:
mirafsaraman@gmail.com
اہتمام
:
اسلامک پبلی کیشنز
فون
:
042-35252501-2
واٹس ایپ
:
0321-4942120
موبائل
:
0322-4673731
ویب سائٹ
:
www.islamicpublications.pk
ای میل
:
islamicpak@gmail.com

میر افسر امان مجاہدِ اسلام ہیں، بہت متحرک اور جواں ہمت تحریکی فرد ہیں، اللہ پاک ان کو ایمان کے ساتھ صحت و تندرستی سے نوازے۔ انہوں نے یہ کتاب لکھ کر ایک بہت بڑے فکری خلا کو پُر کیا ہے۔ اللہ پاک قبول فرمائے، آمین۔
کتاب تین حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں امرائے جماعت کا تعارف ہے، دوسرے حصے میں جماعت اسلامی کی تنظیم اور دستور، حصہ سوم میں جماعت کی کارکردگی اور اس کے متعلقات کا بیان ہے۔
مصنف صفحہ 19 پر لکھتے ہیں:
’’سید مودودیؒ اپنی کتاب ’’جماعت اسلامی کے 29 سال‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’دراصل یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں کہ کسی شخص کے دل میں یکایک یہ شوق چرایا ہو کہ وہ اپنی ایک جماعت بنا ڈالے، اور اس نے چند لوگوں کو جمع کرکے ایک جماعت بنا ڈالی ہو، بلکہ وہ میرے 22 سال کے مسلسل تجربات، مشاہدات، مطالعے اور غور و خوض کا نچوڑ تھا جس نے ایک اسکیم کی شکل اختیار کی تھی اور اسی اسکیم کے مطابق جماعت اسلامی بنائی گئی‘‘۔
میاں طفیل محمدؒ 1972ء تا 1988ئکے بارے میں مصنف صفحہ 27پر لکھتے ہیں کہ ’’خاندان کی مخالفت کے باوجود امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے لاہور میں ہونے والے تاسیسی اجتماع میں کوٹ پتلون پہنے ہوئے شریک تھے۔ جب حلف اٹھانے کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا تو شرکا نے اعتراض کیا کہ یہ تو شکل و صورت سے مسلمان نہیں لگ رہے۔ مولانا مودودیؒ نے کہاکہ اسے حلف اٹھانے دو۔ اسے کچھ وقت دو، اپنی شکل و صورت بھی اسلام کے مطابق بنائے گا۔ میاں صاحب نے شکل و صورت کیا بنائی، ساری زندگی ہی اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے وقف کردی‘‘۔
قاضی حسین احمدؒ 1988ء تا 2008ء کے متعلق مصنف صفحہ 31 پر لکھتے ہیں کہ ’’قاضی صاحب جماعتی اور غیر جماعتی حلقوں میں یکساں مقبولیت کے حامل ہیں۔ جماعت اسلامی کے اندرونی اور بیرونی حلقوں کی متفقہ رائے ہے کہ جماعت کے بنیادی دستور پر عمل کرتے ہوئے جماعت اسلامی کو عوامی جماعت بنانے میں قاضی صاحب کی سیمابی طبیعت کا بڑا دخل ہے‘‘۔
سید منور حسن 2008ء تا 2014ء کے لیے مصنف صفحہ 37 پر لکھتے ہیں کہ ’’سید منور حسن جب امیر جماعت اسلامی کی ذمہ داری سے فارغ ہوئے تو ایک بیگ میں اپنے کپڑے ڈال کر خاموشی سے جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ لاہور سے کراچی اپنے گھر منتقل ہوگئے۔ ان کا یہی اثاثہ تھا جو ایک بیگ میں سما گیا۔ اگر تقویٰ کی بات کی جائے تو جب ان کی بیٹی کی شادی ہوئی تو لوگوں نے لاکھوں کے تحائف دیئے۔ سید منور حسن نے سارے تحائف بیت المال میں یہ کہہ کر جمع کروا دیئے کہ یہ تحائف میرے جماعت اسلامی کا امیر ہونے کی وجہ سے میری بیٹی کو ملے ہیں، لہٰذا یہ جماعت اسلامی کے ہیں، میری بیٹی کے نہیں۔ کیا اس فعل سے لوگوں کو جماعت اسلامی کے کلچر میں مدینہ کی اسلامی ریاست کی ایک جھلک نظر نہیں آتی؟‘‘
سراج الحق 2014ء و تا حال کے لیے مصنف صفحہ 46 پر لکھتے ہیں کہ ’’جماعت اسلامی پاکستان کو اب سراج الحق کی شکل میں نوجوان قیادت بھی مل گئی ہے۔ لہٰذا پاکستان کے عوام کا کام ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت کو انتخابات میں منتخب کریں تاکہ ملک کے حالات درست سمت میں چلائے جاسکیں۔ اس ملک میں کرپشن سے پاک بابرکت اسلامی نظام نافذ کیا جاسکے‘‘۔
حصہ دوم کے مضامین درج ذیل ہیں:
جماعت اسلامی کی تنظیم، جماعت اسلامی میں قیادت، جماعت اسلامی کا دستور، جماعت اسلامی کا شورائی نظام، جماعت اسلامی کا مالیاتی نظام، جماعت اسلامی چلانے والوں کے اوصاف، جماعت اسلامی کا گھرانہ اور مثالی کارکن، جماعت اسلامی کا تربیتی پروگرام، کتاب انقلاب: تفہیم القرآن
حصہ سوم کے مضامین یہ ہیں:
جماعت اسلامی کیا چاہتی ہے؟، اسلامی انقلاب جمہوریت سے ہی آسکتا ہے!، پروفیسر غفور احمدؒ کی کتابوں میں پاکستانی سیاست کی چشم دید کہانی اور جماعت اسلامی کا کردار!، سید منور حسن کی عملی سیاست کی کچھ یادیں، جماعت اسلامی کی اتحادی سیاست، جماعت اسلامی نظریاتی دینی جماعت، جمہوریت اسلام کی مرہونِ منت ہے، جماعت اسلامی: سندھ کی سیاست اور سندھ کے حالات، جماعت اسلامی پر ایک سیکولر صحافی کے اعتراضات اور ان کا جواب، جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں دیں؟، جماعت اسلامی کا اصلاحِ معاشرہ پروگرام، جماعت اسلامی کی پاکستان میں کرپشن کے خلاف مہم، جماعت اسلامی دنیا کے مسلمانوں کی پشتی بان، جماعت اسلامی، جماعت اسلامی کی کامیابیاں، جماعت اسلامی نے فاٹا کو خیبرپختون خوا میں شامل کردیا، جماعت اسلامی بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت، مقبوضہ کشمیر، آزاد جموں کشمیر، جماعت اسلامی سے اور کتنی قربانیاں مطلوب ہیں؟، جماعت اسلامی کے بغیر سیاسی اتحاد کامیاب نہیں ہوتے، جماعت اسلامی اور پاکستان میں دوسری سیاسی جماعتوں کا تقابلی جائزہ۔
جناب امیر العظیم قیم جماعت اسلامی پاکستان کتاب کے بارے میںتحریر فرماتے ہیں:
’’آپ کی تصنیف ’’جماعت اسلامی کیا چاہتی ہے؟‘‘ دیکھ کر نہایت مسرت ہوئی۔ آپ نے جماعت اسلامی کی تشکیل سے لے کر آج کے دن تک کی سرگرمیوں اور آنے والے حالات میں جماعت کے کردار پر روشنی ڈالی ہے، اور جس طرح بانیِ جماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے لے کر موجودہ امیر سراج الحق تک امرائے جماعت کا تعارف، جماعت اسلامی کے دعوتی، تربیتی، تنظیمی اور شورائی نظام کا ایک مکمل خاکہ پیش کیا ہے وہ نہ صرف ہمارے بلکہ جماعت کے ہر کارکن کے لیے باعثِ مسرت و افتخار ہے۔ عامۃ الناس کو جماعت اسلامی سے متعارف کروانے کے لیے بلاشبہ یہ بہت بڑی خدمت اور صدقۂ جاریہ ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی رائے ہے:
’’جماعت اسلامی کیا چاہتی ہے‘‘ کے خوب صورت عنوان سے میر افسر امان کالمسٹ، تجزیہ کار اور مصنف کی کتاب موصول ہوئی۔ میرے لیے یہ نہایت مسرت اور طمانیت کا باعث ہے کہ کتاب میں جماعت اسلامی کی تشکیل کے مقاصد سے لے کر آج تک کے دن تک کے حالات و واقعات اور مستقبل میں جماعت کے کردار پر مفصل طور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بانیِ جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، سید منور حسنؒ اور راقم سمیت امرائے جماعت کا تعارف جس محبت و عقیدت اور انسیت سے لکھا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ آپ نے جماعت اسلامی کے دعوتی، تربیتی، تنظیمی، مالیاتی اور شورائی نظام کا ایک مکمل معلوماتی خاکہ پیش کردیا ہے۔ عام آدمی تک جماعت اسلامی کی دعوت کو پہنچانے اور عوام کو جماعت اسلامی سے متعارف کروانے کے لیے یہ نہایت کامیاب کوشش ہے ۔
آپ نے اپنی تصنیف کے ذریعے کارکنوں میں حوصلہ اور امید پیدا کرنے اور انہیں اپنے شاندار ماضی سے جوڑ کر روشن مستقبل میں لے جانے کی جو فکری کوشش کی ہے وہ آنے والی نسلوں پر ایک احسانِ عظیم ہے۔ کارکن کو تحریک کے دامن سے وابستہ رکھنے اور اس دعوت و فکر کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے کے لیے آپ کی یہ کتاب بہترین ذریعہ ثابت ہوگی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اس کاوش کو شرفِ قبولیت بخشے اور آپ کو دنیا و آخرت کی کامیابیوں سے نوازے، آمین۔‘‘