عمران خان کا طور طریقہ

معروف کالم نگار دستگیر بھٹی نے بروز اتوار 2 جنوری 2022ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’سندھ ایکسپریس‘‘ حیدرآباد میں اپنے زیر نظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اُس کا ترجمہ قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔ کالم کے تمام مندرجات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔
’’جس جلد بازی اور عجلت میں اسلام آباد کے صدارتی محل سے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہر ہفتہ دس دن کے بعد آرڈیننس یا حکم نامہ جاری کرکے اور اسے دھونس دھاندلی کے ذریعے قومی اسمبلی سے قانونی شکل دلاکر عمران خان کی حکومت اپنا ٹائم پاس کررہی ہے، ایسا تماشا تو ہم نے کسی ڈکٹیٹر کے دور میں بھی نہیں دیکھا۔ پارلیمنٹ کی حیثیت کو ربڑ اسٹیمپ بناکر اگر وزیراعظم یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے وہ اپنی حکومت کے پانچ برس پورے کرلیں گے تو یہ دراصل ان کی بھول ہے، یا پھر وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اگر حزبِ مخالف یا پسِ پردہ رہ کر میری پشت پناہی کرنے والے طاقتور حلقے اگر مجھے میری مرضی کے مطابق کھیلنے نہیں دیں گے تو اس صورت میں مَیں بھی انہیں کھیلنے نہیں دوں گا۔ یہ طور طریقہ تو سراسر بچکانہ ہے۔ کسی بھی کھلاڑی کو دورانِ کھیل، خصوصاً کرکٹ میں اگر بالنگ کرتے ہوئے بال ٹیمپرنگ کرنے کی عادت ہے تو سیاست کو گیم گردان کر وہ اسے انگلیوں پر نہیں نچا سکتا۔ یہاں پر گیارہ کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کے بجائے بائیس کروڑ اہلِ وطن اور اُن کے بچوں کے مستقبل کو تاریک کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے وزیراعظم عمران خان کرکٹ کی طرح سیاست کو بھی ایک کھیل سمجھتے ہوئے منتخب پارلیمنٹ کے ساتھ جو کھیل کھیل رہے ہیں، اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں کوئی وزیراعظم اس نوع کا طرزعمل اختیار کرتا تو خود اُس کی اپنی پارٹی کے ممبرز ہی اس سے مسندِ اقتدار خالی کرا لیتے۔ لیکن چوں کہ ہمارے ہاں خفیہ ہاتھوں کی کارفرمائیوں کی وجہ سے جمہوری نظام اپاہج اور معذور ہوچکا ہے اس لیے عمران خان اپنی من مانیاں کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ پاکستان کے اسٹیٹ بینک کا گورنر (جسے آئی ایم ایف کے کرتا دھرتائوں نے مصر سے منگواکر ہمارے ملک پر مسلط کیا ہے) ہمارے حکمرانوں کو احکامات صادر کرتا رہے کہ عوام پر مزید ٹیکسز عائد کرنے کے لیے پیٹرول، ڈیزل، گیس اور کھاد کے نرخ فوراً بڑھائے جائیں، اور نیا سال شروع ہونے سے پہلے ہی ایک اور بھی بجٹ پاس کرائو خواہ بے روزگاری اور گردن توڑ مہنگائی کے ہاتھوں ستائے گئے نیم جان مسکین لوگ مع بچوں کے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر مجبور ہوجائیں! باہر سے لائے گئے اس گورنر اسٹیٹ بینک کے لیے کہا یہ جارہا ہے کہ موصوف مصر جیسی خوش حال معیشت کا بیڑہ غرق کرنے کے بعد پاکستان تشریف لائے ہیں۔ آج عمران خان کی حکومت میں ملک کے سارے ہوائی اڈے، کراچی کی دونوں بندرگاہیں، موٹر وے جیسی سب شاہراہیں، سرکاری عمارتیں اور خود اسٹیٹ بینک کا ہیڈ آفس تک قرضوں کے عوض آئی ایم ایف کے ہاں گروی رکھے ہوئے ہیں۔
یوں جانیے کہ پہلے صرف پی آئی اے کے ہوائی جہاز، نیشنل شپنگ کارپوریشن کے سمندری بیڑے، پاکستان ٹیلی ویژن اسلام آباد، لاہور، کراچی کے اسٹیشن، اسلام آباد کی مکمل پاکستان سیکریٹریٹ کی بیس میل رقبے پر محیط کھربوں روپے مالیت کی عمارات، اور گزشتہ ماہ سعودی عرب سے بہ طور ادھار لیے گئے ساڑھے چار ارب ڈالر بھی آئی ایم ایف کی ملکیت میں رہیں گے، تاآں کہ پاکستان ان قرض دینے والے خون آشام بھیانک سامراجی اداروں کی سود سمیت پائی پائی واپس نہیں کردیتا۔
مجھے بتایئے کہ غلامی کے بھلا سینگ ہوا کرتے ہیں؟ اس پر مستزاد یہ کہ عمران خان اب بھی خالی خولی یہ دعوے کرنے میں مگن ہیں کہ وہ مدینہ جیسی ریاست بناکر دکھائیں گے۔ شاید ایسی ہی صورتِ حال کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ ’’تھوتھا جنا، باجے گھنا‘‘۔ مجھے لگتا ہے کہ وزیراعظم ذہنی طور پر بے حد پریشان ہیں، اور یہ جو منی بجٹ انہوں نے عجلت میں منظور کروایا ہے، غریب مسکین عوام کی گردن میں اور آنے والی نسلوں کے وجود پر جو لامتناہی قرضوں کا بھاری بوجھ لاد ڈالا ہے، اس کے نیچے لاکھوں بچے اپنی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی مائوں سمیت یوں دفن ہوجایا کریں گے جس طرح سے تھرپارکر میں بچوں کی موت کے ہولناک مناظر عام طور پر دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ جی ہاں! ہمارے استاد پروفیسر ڈاکٹر فیروز خواجہ گزشتہ صدی کی اسّی کی دہائی میں، ہمیں یہ پڑھایا اور بتایا کرتے تھے کہ ان عالمی بینکوں کی امداد (یو ایس ایڈ) دراصل ایسے بھیانک اور خوفناک قرض ہیں، جنہوں نے لاطینی امریکہ کی خوش حال اقوام کو بدحالی کے مرض میں مبتلا کردیا ہے۔ اپنی جان چھڑوائو قرضوں کے اس جال سے، وگرنہ آپ کے بعد بھی کئی نسلوں تک قرضوں کا یہ طوق گردن میں سے نہیں نکل سکے گا۔ واہ سائیں واہ! ڈاکٹر فیروز صاحب! آج آپ کو کوئی یاد بھی نہیں کرتا، اور نہ آپ کی بے غرض، بے لوث خدمات ہی کو کوئی سراہتا ہے۔
میں عمران خان کی ذہنی کنڈیشن کا ذکر کررہا تھا، جس کے بارے میں مَیں سمجھتا ہوں کہ ان کی ذہنی کیفیت نارمل ہرگز نہیں ہے۔ دلیل نمبر 1: نوازشریف کی حکومت کو ایک برس کے اندر ہی گرانے کے لیے انہوں نے تقریباً چار مہینے تک پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا لگاکر امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کے لیے اشارے کا انتظار کیا، کنٹینر پر چڑھ کر۔ دلیل نمبر 2: امپائر تو بدلتے رہے لیکن موصوف تبدیل نہیں ہوئے (یعنی انہوں نے اپنا رویہ اور طور اطوار نہیں بدلے، مترجم) اسی تنخواہ پر شاداں و فرحاں کام کرتے رہے۔ 2018ء کے عام انتخابات کے ذریعے انہیں وزیراعظم کے تخت پر بٹھاکر آئی ایم ایف کی غلامی اختیار کرنے کی ذمے داری سونپی گئی، جس کے بارے میں موصوف قسم کھایا کرتے تھے کہ آئی ایم ایف کی غلامی کرنے کے بجائے وہ خودکشی کرلیں گے۔ اب کیا کہتے ہیں؟ خودکشی نہیں بلکہ پانچ سال مزید کروڑوں انسانوں کی گردنوں پر سوار ہوکر اس ملک پر راج کریں گے (معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ زرداری نے بھی آئندہ پانچ برس کے لیے حکومت کو اپنی جھولی میں گرتا ہوا دیکھ کر لاہور میں اپنے خیمے گاڑنے کے لیے اپنے فرزندِ ارجمند بلاول کو تیار کردیا ہے)۔ میں ہمیشہ یہ لکھتا رہا ہوں کہ خواب چاہے نیند میں دیکھیے یا پھر جاگتے ہوئے… خواب بے چارے تو مفت میں آتے ہیں اور واپس ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ عمران خان بے شک مزید پانچ برس کے لیے حکومت کرنے کے سہانے سپنے دیکھتے رہیں، لیکن انہیں معلوم نہیں ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کو جاگتے میں بھی دل دہلا دینے والے خواب (Nightmares) اس قدر زیادہ خوف ناک دکھا دیے ہیں کہ آپ کی منتخب یا زبردستی منتخب کردہ سرکار کے سرپرستوں نے بھی اب اپنے سابقہ عزائم کی تکمیل سے توبہ تائب کرلی ہے (یعنی ایک مرتبہ پھر پانچ برس کے لیے عمران خان کو حکومت دینے کے حوالے سے، مترجم)۔ میں نے اپنے انہی کالموں میں گزشتہ نومبر کے قریب پیش گوئی کی تھی کہ دشمن ممالک کی جاسوسی کرنے والے ادارے کو بھٹو صاحب نے سیاسی رہنمائوں اور کارکنان کی جاسوسی کے جس کام پر ناجائز طریقے سے لگادیا تھا وہ ان کے لیے ہی بجائے کسی فائدے کا باعث بننے کے دشمن بن گیا تھا۔ عمران خان تو ایک ادارے کے افسر کے تبادلے پر ہی غیظ و غضب میں آگئے تھے، لیکن سوچیے کہ اب جب اس تبادلہ شدہ افسر نے خود اعلان کردیا ہے کہ آج کے بعد میری پبلسٹی ختم، نوکوریج، اور نہ ہی میری کوئی تصویر ہی کسی بھی اخبار میں شائع کی جائے، تو کسی ٹی وی چینل یا اخباری مالک کی جرأت ہے کہ وہ افسر موصوف کی اجازت کے بغیر سرِمو بھی مذکورہ حکم نامے سے انحراف کرسکے اور ان کی تصویر کو اپنے اخبار میں چھاپ سکے! میڈیا والوں کے لیے بھی یہ حکم بے حد ضروری تھا۔ پاکستانی میڈیا کے مالکان نے غیر قانونی طریقوں سے زمینوں پر قبضے کرکے رہائشی اسکیمیں جن میں زیادہ تر کمرشل اسکیمیں شامل ہیں، بنائیں جن کی وجہ سے زمینوں کے اصل مالکان کنگال ہوگئے اور چلڈرن (بچوں) سے لے کر تپیدار (پٹواری) اور مختارکاروں سمیت ریونیو کھاتے کے چھوٹے بڑے عمل دار (اہلکار) کروڑوں کے مالک بن گئے اور اپنی دھرتی ماں تک کو اپنے فائدے کے لیے بیچ ڈالا۔
واپس آتے ہیں تحریک انصاف سرکار کے منی بجٹ پر، جس نے کروڑوں محنت کشوں، ہاریوں، خواتین اور دہاڑی دار غریب مسکین ہنرمند مزدوروں کو خودکشی کرنے جیسی انتہائی دردناک کیفیت کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ حکمرانوں کو آئی ایم ایف جیسی خون چوسنے والی جونکوں کی غلامی مبارک ہو، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ حکمران اسلام آباد کی اس تخت گاہ پر اب زیادہ عرصے کے لیے براجمان نہیں رہ پائیں گے، کیوں کہ اس بدنصیب ملک کے عوام نے جمہوریت اور آمریت ہر دور میں جو دکھ سہے ہیں اور ظلم و ستم برداشت کیے ہیں اس کی وجہ سے حالات کے مارے ستم رسیدہ، سوکھے سڑے اور دبلے پتلے ہوجانے والے عوام کے ہاں سوائے بغاوت کے اب کوئی بھی راستہ نہیں رہا ہے۔
انقلابی قومی شاعر حبیب جالب نے کہا تھا:
ایسے دستور کو
صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا
میں نہیں جانتا
ایسی خود ساختہ جمہوریت کہیں جاکر پاتال میں گرے اور گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے، جمہوریت نے دنیا کے خوشحال ممالک کو بدحال کر ڈالا ہے۔ اعتبار نہیں آتا تو موجودہ سپر پاور امریکہ کے اُن کروڑوں بھوکوں اور ستم زدہ افراد کی غربت اور بدحالی ان ویڈیوز میں دیکھیے جو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل The Other 98 Percent کی جانب سے دن میں دس مرتبہ اَپ لوڈ کی جاتی ہیں۔‘‘