اچانک نگاہوں میں کئی برس پرانا منظر تیر گیا ہے۔ کراچی کے پرانے ہوائی اڈے کے اندر کھڑے ہم امریکہ سے آنے والے ایک تابوت کے منتظر، میاں طفیل محمد غم کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ زندگی بھر کا ساتھ چھٹ رہا تھا۔ ایسے شخص کی آخری رسوم کا فریضہ انجام دینا تھا جس نے ان کی زندگی ہی بدل ڈالی تھی۔ سید مودودی نے ان کی کیا، ایک جہاں کی زندگی بدل ڈالی ہے اور آج تک بدل رہے ہیں۔
آج پشاور میں قاضی حسین احمد کے جنازے پر پروفیسر خورشید احمد کو دیکھ کر جانے کیوں وہ منظر یاد آگیا۔ وہ کرسی پر ساکت بیٹھے ہیں۔ آنکھیں پُرنم ہیں۔ میں ان کی طرف لپکا۔ کیا نسل تھی جس نے اپنی زندگیاں ایک جہدِ مسلسل میں صرف کردیں۔ اس خاطر نہیں کہ انہیں صرف اپنی عاقبت کی فکر تھی، بلکہ اس خاطر بھی کہ ہم جیسوں کی زندگیاں بھی بدل سکیں۔
مائیک پر سید منور حسن کی گلوگیر آواز ابھری۔ ان میں ضبط کا مادہ نہ رہا۔ میرے بھی آنسو نکل آئے۔ ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ یہ سفر ابھی جاری ہے:۔
اندر بھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے
یہ روشنی پھیلتی رہے گی۔ مجھے نہیں لگتا میں یہ کالم لکھ پائوں گا۔ خود کو ذرا منضبط کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
قاضی صاحب کا دورِ امارت ایک بڑا ہی امتحان کا عہد تھا۔ چند نکات میرے ذہن میںآئے ہیں۔ ان پر بات کرنے کی کوشش کروں گا۔ مجھے وہ دن یاد آرہے ہیں جب ضیاء الحق کے آخری ایام تھے۔ وہ اپنے وزیراعظم جونیجو کو برطرف کرکے انتخابات کا اعلان کرچکے تھے۔ ان کی خفیہ ایجنسیوں نے اطلاع دی کہ جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی سے اتحاد کرنے کا سوچ رہی ہے۔ کچھ بیانات بھی ایسے آئے تھے۔ ضیاء الحق ہل گئے۔ انہوں نے چار اہلِ دانش کو بلوا بھیجا جن کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ یہ اس دورِ فتن میں اُن کی حکومت کو غنیمت سمجھتے ہیں اور جماعت اسلامی کے قریب ہیں۔ دل کھول کر رکھ دیا کہ اگر یہ اتحاد ہوگیا تو میری حکومت گئی۔ یہ افراد اس بات کے قائل تھے کہ ایسا ہوا تو یہ پاکستان کی اسلامی قوتوں کے لیے بڑا سانحہ ہوگا۔
باقی تفصیل تو رہنے دیجیے۔ شہید صلاح الدین فوراً سرگرم ہوئے اور ایک آرٹیکل بھی لکھ ڈالا۔ جماعت نے بھی مشاورت کے لیے چند لوگوں سے رہنمائی چاہی۔ ایسا غالباً صلاح الدین صاحب کے خط پر ہی کیا گیا۔ صرف اتنا عرض ہے کہ آٹھ دس افراد کی اس مجلسِ مشاورت میں مَیں بھی شامل تھا۔ اُن دنوں میں حریت کراچی کا ایڈیٹر تھا۔ مجھے فخر ہے کہ وہاں بحث کا رخ بدلنے میں میرا ایک بنیادی کردار تھا۔ میں اس اتحاد کے امکانات پر غور کرنے کو کوئی اقدامِ کفر نہیں سمجھتا تھا۔ صلاح الدین نے وہاں نہ صرف اپنا مؤقف بدلا بلکہ اپنے لکھنے کی ایک طرح معذرت بھی کی، تاہم جانے کیوں واپسی پر انہوں نے بالکل ہی الگ مضمون باندھ ڈالا۔
یہ آغاز تھا جماعت اسلامی کی سیاسی تنہائی ختم ہونے کا۔ اس سے پہلے کوئی پارٹی بھی جماعت سے اتحاد کرنے کے امکان پر سوچنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ انہوں نے یحییٰ خان کے نام نہاد مجوزہ اسلامی آئین کی حمایت کی۔ ضیاء الحق کا ساتھ دیا۔ ایم آرڈی کی تحریک سے الگ رہے۔ جماعت اسلامی کی نیک وپارسا قیادت اسی پالیسی کو درست سمجھتی تھی۔ شاید یہ خیال ہو کہ اس طرح اقتدار کے سرچشموں تک رسائی حاصل کرکے اسلامی قوتوں کو مضبوط کیا جائے۔ بہرحال اب جماعت ملکی سیاست میں پھر سے فعال تھی۔ آئی جے آئی کا اتحاد بنا۔ جماعت پر لگے الزامات دھلنا شروع ہوئے۔
وہ ردِعمل کا زمانہ بھی تھا۔ شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ ’’پاسبان‘‘ بنائی گئی اور انتخابات کے لیے ’’اسلامک فرنٹ‘‘ کا نام اختیار کیا گیا۔ بڑی لے دے ہوئی، مگر کہتے ہیں کہ ناکامی کا کوئی مائی باپ نہیں ہوتا، وگرنہ ترکی سے لے کر مصر تک کا جائزہ لیں تو آج ہر جگہ یہی نہیں ہورہا؟ سیاسی محاذ پر تحریک ِ اسلامی کو دوسرے ناموں سے کامیابیاں ملی ہیں۔ شاید یہ وقت سے پہلے کیے جانے والے تجربات تھے۔ ’’چی گویرا‘‘ نے لاطینی امریکہ میں انقلاب کی روح پھونک دی، مگر اس پر اپنوں ہی نے الزام لگایا کہ یہ مہم جوئی ہے۔ وقت سے پہلے انقلابی قوتوں کو سامراج سے ٹکراکر پاش پاش کردینا اب چی گویرا کی مہم جوئی کہلاتا ہے، مگر یہ یاد رہے کہ ایک زمانہ تھا، بلکہ اب تک چی گویرا دنیا بھر کے انقلابیوں کا ہیرو ہے۔ اگر مائوزے تنگ کا بندوق سے انقلاب لانے کا شوق مار کھا جاتا اور اس کا لانگ مارچ مرکھپ جاتا تو آج ہم اسے بھی ناکام انقلابی کے طور پر جانے کیا کیا نام دیتے۔ ہوسکتا ہے اہلِ مغرب کی طرح ہم اسے بھی دہشت گرد کہتے۔
قاضی صاحب کا کمال ہے کہ انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ان کی کوششوں سے جماعت میں تحرک تو پیدا ہوچکا تھا، اب انہوں نے اس تحرک کو مختلف سمت میں کارگر کرنے کا عمل شروع کیا۔ مجھے یاد ہے ان دنوں ایک بار میں نے قاضی صاحب سے ملاقات کا خاص طور پر وقت لیا۔ ان سے عرض کیا: ’’قاضی صاحب! یہ تاریخ کا ایک خاص موڑ ہے۔ میں صرف آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے جن اپنوں نے انہی آدرش کے لیے جو آپ کو عزیز ہیں، آپ کے بجائے مسلم لیگ کو ووٹ دیا ہے، میں نے انہیں جماعت کی شکست پر روتے دیکھا ہے۔ انہیں آپ غیر نہ سمجھیں اور انہیں اپنے سے دور نہ ہونے دیں۔‘‘
دوسری بات ان سے عرض کی کہ ’’جماعت اسلامی کے لیے روزِ حساب آپ سے یقیناً پرسش ہوگی، مگر آپ سے زیادہ سید مودودی کو اس کا جواب دینا ہے، تاہم پاسبان کے نوجوان اپنے جذبوں سمیت کہیں اور طرف نکل گئے تو اس کا جواب روزِ حساب آپ ہی کو دینا ہوگا‘‘۔ قاضی صاحب نے نظریں جھکا لیں۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب جماعت اسلامی پاسبان سے ہاتھ اٹھا چکی تھی۔ جب اٹھنے لگے تو قاضی صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: ’’میری بھی آپ سے ایک استدعا ہے‘‘۔ میں رک گیا۔ کہنے لگے: ’’آپ ان جوانوں سے رابطہ رکھیں، اور بہت سے لوگ بھی انہیں اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر وہ اچھے لوگوں سے کٹ گئے تو کہیں غلط راہ پر نہ چل پڑیں۔‘‘
میں کہہ نہیں سکتا یہ بات انہوں نے بھیگی نگاہوں سے کہی تھی یا مسکراتی نظروں سے۔ دونوں کا امتزاج بڑا قیامت ہوتا ہے، اور یہ قیامت ہی کی گھڑی تھی۔ قدم آگے بڑھا کر مجھے رخصت کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’آپ بھی میری مغفرت کے لیے میرا کچھ ساتھ دیجیے۔ ان سے رابطہ رکھیے۔‘‘
اسی دوران دنیا میں اسلامی تحریکوں کو ایک نئی صورتِ حال کا سامنا تھا۔ ایک انقلابی فضا پیدا ہورہی تھی۔ جہاد کا جذبہ جوان ہورہا تھا۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان… جگہ جگہ جہاد کی روح زندہ ہورہی تھی۔
قاضی صاحب پر ایک الزام یہ بھی لگنا شروع ہوگیا تھا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کو قومی مسائل کی سیاست سے نکال کر عالمی محاذ پر سرگرم کردیا ہے۔ وہ جہاد اور انقلاب کی بات زیادہ کرنے لگے ہیں۔ مختلف ممالک کی اسلامی تحریکوں میں ان دنوں رابطے زیادہ مضبوط ہورہے تھے۔ قاضی صاحب پاکستان کی تحریک ِاسلامی کو اس سے الگ نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ گویا یہ کہہ رہے تھے کہ اگر ہم پر یہ الزام ہے تو ہم اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ ان تحریکوں کے ایک وفد میں قاضی صاحب بھی صدام حسین سے ملنے گئے تھے۔ واپسی پر مجھے یاد ہے کہ ان کے تاثرات کیا تھے۔ عجب کشمکش تھی۔ یہ اُسے سمجھانے گئے تھے۔ اس کی شخصیت سے متاثر بھی تھے، مگر خوف زدہ بھی، کہ جانے یہ کیا کردے۔ اس شخص نے پورے عالم اسلام کو ایک عالمِ حیرانی میں ڈال رکھا تھا۔ مجھے یاد ہے میں نے قاضی صاحب سے عرض کیا کہ ہٹلر اپنا ہو یا کسی اور کا، کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے جیسے تائیدکی، مگر شاید انہیں یہ افسوس بھی تھا کہ کیسی صلاحیتیں کس طرح غلط طور پر ضائع ہورہی ہیں۔
ویسے جہاد کی روح تو ان میں شروع ہی سے بیدار تھی۔ حکمت یار سے لے کر کون کون سا افغان رہنما ہے جس کو انہوں نے سہارا نہ دیا ہو۔ میں سہارا کہہ رہا ہوں، کہنا پناہ چاہتا ہوں۔ یہ سب اب تاریخ کا حصہ ہے۔ کشمیر میں جہاد شروع ہوا تو قاضی صاحب ان کے بھی دلوں کے قریب تھے۔ آج کی جہاد دشمن فضا میں زیادہ کہنا ضروری نہیں۔ قاضی صاحب نے دنیا بھر کی اسلامی انقلابی تحریکوں سے گہرے رابطے رکھے۔ ان کے زمانے میں احساس ہوتا تھا کہ جیسے اشتراکی اپنے عالمی کردار پر فخر کرتے ہیں، اسی طرح اب وہ وقت آگیا ہے جب پورے عالم میں تحریکِ اسلامی یکجا ہے۔ یہ اسی کا ثمر ہے جو اب پھل پھول رہا ہے۔ یقیناً یہ ’’گناہ‘‘ بھی قاضی صاحب سے سرد ہوا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی اس اسلامی تحریک کو دنیا بھر سے وابستہ رکھا ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر