ـ2021 ء کیسا رہا، نئے سال سے کیا توقعات ہیں؟

موجودہ حالات میں صنعت چلانا جہاد ہے فیصل آباد کے صنعتکاروں اور برآمد کنندگان کی تنظیموں کے رہنمائوں کے خیالات

ٹیکسٹائل کا شعبہ پاکستان کا سب سے زیادہ برآمدات کرنے والا شعبہ ہے ،فیصل آباد کاٹیکسٹائل برآمد ات میں بڑاحصہ ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل برآمدات کا 60 فیصد ٹیکسٹائل سے وابستہ ہے۔ لیکن پچھلے 15 سالوں میں حکومتی عدم توجہی کی بدولت یہ شعبہ بُری طرح متاثر ہوا ہے۔فیصل آبادکے بعض بڑے صنعت کاروں نے موجودہ حکومت کی طرف سے 2021ء میں صنعتی ترقی اورخصوصاًایکسپورٹ کے لئے بہترکردارقراردیاجبکہ بعض نے بجلی،گیس،پٹولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافہ بے جا،ٹیکسوںکی وجہ سے مشکلات کا شکار قرار دیا۔ پاکستان ہوزری مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے سابق سنٹرل چیئرمین چوہدری سلامت علی نے کہاکہ 2021ء ٹیکسٹائل سیکٹرکے لئے بہتررہا۔بھارت جیسے دیگرممالک سے تبدیل ہوکر آرڈرملے حکومت کی طرف سے ریفنڈزبھی مل رہے ہیں۔ روپے کی قدرکم ہونے کی وجہ سے پاکستان دنیا میں 15سے20فیصد سستاہے مگرجتنا ایکسپورٹ میں اضافہ ہوناچاہئے تھا نہیں ہوسکا۔33فیصداضافہ ہواجوکہ50فیصد ہونا چاہئے تھا۔فیصل آباد کی یارن مارکیٹ کوایشیا کی سب سے بڑی مارکیٹ کہا جاتا ہے لیکن سٹہ بازی اور انوائسز کے کالے دھندے سے ایکسپورٹرزاورلوکل مارکیٹ کے بزنس مین پریشان ہیں، سوترمنڈی میں انوائسزفروخت ہورہی ہیں جبکہ یارن سیلزٹیکس کے بغیرفروخت ہورہاہے جس سے حکومت کونقصان کا سامنا ہے۔ ایکسپورٹر انوائس کے بغیرخریداری نہیں کرتا۔حکومت کوچاہئے کہ ملزاونرزکافرینزک آڈٹ کروائے۔ سوترکی مصنوعی قلت اورذخیرہ کی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹرمشکل کاشکارہے۔حالانکہ ٹیکسٹائل سیکٹرکو بجلی اورگیس میں سبسڈی ملتی ہے جبکہ ایکسپورٹرزکے لئے رامیٹریل بھی موجودنہیں تھا۔یارن کی قیمت دوگنابڑھ چکی ہے ۔اُن کاکہناتھاکہ کاٹن بیرون ممالک کے مقابلہ میں پاکستان میں مہنگی ہے۔اُنہوں نے کہاکہ لوکل انڈسٹری کی ترقی ہونی چاہئے مگر ایکسپورٹرز کونظراندازنہیں کرناچاہئے۔ٹیکسٹال سیکٹرکوانکم ٹکیس اورریفنڈ کامسئلہ ہے گیس بحرا ن بھی شروع ہوگیا ہے اس سے اُنہیں نقصان ہوگا۔ اُنہوں نے کہاکہ جب تک ایکسپورٹرزکو بجلی،گیس سمیت دیگربنیادی سہولتیں معیارکے مطابق دستیاب نہیں ہوں گی اس وقت تک بحران برقراررہے گا۔اُنہوں نے کہاکہ قرضوں میں منافع کی زیادہ شرح انڈسٹڑی کے لئے خطرناک ہے۔ حکومت سے مطالبہ ہے کہ ایکسپورٹ کے لئے زیادہ آسانیاں پیداکی جائیں۔ تاکہ زرمبادلہ کے مسائل حل ہوں، ایکسپورٹرززیادہ سے زیادہ ایکسپورٹ کریں گے توڈالربھی آئے گااورمعاشی استحکام بھی ہوگا۔ ایوان صنعت وتجارت فیصل آبادکے صدرعاطف منیرنے کہاکہ اس وقت پاکستان میں ایکسپورٹ بہترمگر 80فیصد کپڑاتیارکرنے والی لوکل انڈسٹری مشکل کاشکارہے۔ پاور لومزمیں بے روزگاری بڑھ رہی ہے اس پرحکومتی توجہ کی ضرورت ہے۔حکومت سے جاری بات چیت میں خصوصی پیکج کامطالبہ کیاگیا ہے۔ اُمید ہے 2022 بہترہوگا ۔ملکی ترقی میں تاجرصنعت کارکااہم کردارہے موجودہ حالات میں ہم انڈسٹری چلاکرجہادکررہے ہیں حکومت کوسبسڈی سمیت تاجردوست بجٹ دیناچاہئے۔منی بجٹ میں 350 ٹیکسز اورسبسڈی ختم کرنے کامتوقع فیصلہ انڈسٹری سے بڑاظلم ہوگاجس سے مہنگائی کاطوفان آئے گا۔چیئرمین پاورلومزاونرزایسوسی ایشن کے چیئرمین وحیدخالق رامے نے2021 کسی طبقہ کے لئے بھی بہترنہیں رہاایک ڈروناخواب تھا۔حکومت نے ایکسپورٹرزکے علاوہ ہرسیکٹرکے ساتھ سوتیلی ماں جیساسلوک کیاہے۔مایوس کن حالات میں پاورلومز چلنے کے ایک بیانیہ کوحکومت نے اپناسیاسی نعرہ اوردنیامیں کیش کروایامگر2020ختم ہونے سے قبل2021میں انڈسٹری کوپوچھنے والاکوئی نہیں رہا۔فیصل آبادکے عوامی نمائندوں کو جوایوان میں کرداراداکرناچاہئے تھاوہ بھی نہیں کرسکے۔حکومت ڈالرکوکنٹرول کرنے میں ناکام رہی اس کی وجہ سے حکومت کونقصان پہنچاورمہنگائی میں اضافہ ہوا۔پاورلومز کی مشکلات ختم ہوتی نظرنہیں آرہی ۔ حکومت نے توجہ نہیں دی آج پر2017ی طرح پاورلومزخرابی کی طرف جارہی ہے۔سوتر کی قیمت میں اضافہ ہوچکا۔سٹے بازی چل رہی ہے۔اُنہوں نے کہاکہ حکومت کواپنے وعدوں کے مطابق جوکرداراداکرناچاہئے تھاوہ نہیں کیاگیا بجلی کی قیمت19روپے سے31روپت تک بڑھ گئی جس کی وجہ سے کئی فیکٹریاں آدھی مشینری چل رہی ہیں۔بعض فیکٹریاں 8گھنٹے بندرہتی ہیں مگرحالات نہیں بدل رہے۔آج لومزمالک دیوالیہ ہورہے ہیں اور2017والی پوزیشن میں جارہی ہیں جب سڑکوں پرلوہافروخت ہورہاتھا۔اُنہوں نے کہاکہ حکو مت توجہ دے ورنہ ہم سڑکوں پرآنے کے لئے مجبورہوں گے۔بادشاہ ہمیں اپنے دربارپرآنے دیں۔سمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدرچوہدری محمد شفیق نے کہاکہ2021پہلے برسوں کی طرح رہا ہے۔ 2022بھی اسی طرح رہے گا۔وزیراعظم صرف دعوے کرتے رہے عملی طورپراقدامات صفر رہے۔ تمام ادارے ریونیووصولی ایجنسی بن چکے ہیں۔رشوت کابازارگرم ہے۔مہنگائی تین گنابڑھ چکی بجلی،گیس اورپٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کمرتوڑہے۔کاروباری ادارے تیزی سے بندہورہے ہیں تبدیلی ابھی تک نظر نہیں آسکی لیکن حالات کامقابلہ کریں گے۔پاکستان ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین شیخ خرم مختارنے 2021میں حکومت نے بہتر کردار ادا کیا ہے۔ 30فیصدایکسپورٹ میں اضافہ ہواہے جس کی وجہ سے ہم21بلین ڈالرکی ایکسپورٹ کرنے جارہے ہیں جبکہ بڑی سرمایہ کاری بھی ٹیکسٹائل سیکٹرمیں آئی ہے۔انہوں نے کہاکہ بعض پاور پلانٹ کی گیس سپلائی بندکی گئی ہے مگراُسے متبادل سپلائی دی جارہی ہے لیکن گرڈ سے کنکشن نہیں دیا گیا۔ اُنہوں نے کہاکہ 700 بلین پرانے ریفنڈ نہ ملنے اور گیس بحرا ن کی وجہ سے ایکسپورٹ معاہدے پورے نہیں کئے جاسکیں گے۔ اُنہوں نے مطالبہ کیاکہ حکومت صنعت کارکمیونٹی کو ضروری اوربنیادی سہولتیں فراہم کرے تاکہ بہتری آسکے۔پاکستان ہوزری مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین میاں کاشف ضیاء نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان کی ابتداٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں اضافہ کی ترجیح تھی اس لئے پاکستان کی ایکسپورٹ بڑھ رہی ہے۔زرمبادلہ میں اہم کردارپاکستان ہوزری مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کاہے ٹیکس میں بھی99فیصدکردارہے۔ہمیں ملکی سطح پرچیلنج کاسامناکرناپڑرہاہے۔2021میں کاٹن کی کمی تھی اس کی وجہ پٹرول اورچینی کی طرح مافیاموجودہے جن کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوتاہے۔اُنہوں نے کہاکہ کووڈکنٹرول میں پاکستانی حکو مت کااہم کردارہے جس کی وجہ سے بندکی گئی انڈسٹری کوچلایاگیاکسٹمرزکااعتمادبڑھ چکاہے حکومتی ارکان رزاق داؤداورمیاں اسلم اقبال نے کاروباری ترقی کے لئے اہم کردار ادا کیاہے۔ مہنگائی کی وجہ ڈالرکی اڑان ہے۔اُنہوں نے کہاکہ بنگلہ دیش ہم سے آگے نکل چکاہے حکومت ایسی پالیسی لائے جس سے ہرطبقہ کی معاشی مشکلات ختم ہوں۔ کرونا وباء کے دوران میڈیکل گارمنٹس اور اسیسریز کی مانگ نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کچھ سہارا دیا۔ مگر اس کے باوجود گزشتہ کئی سالوں سے ایکسپورٹ کا ہدف 25 ارب ڈالر حاصل نہ کیا جا سکا۔ اس وقت اٹھارہ ارب ڈالر تک برآمدات پہنچیں تو حکومتی فیصلے آڑے آ گئے ہیں۔ حکومت نے تمام سبسڈی فیکٹرز کو زیرو ریٹڈ سے ختم کر دیا ہے جس کے بعد 17 فیصد سیلز ٹیکس لگنے سے خام مال اور ویلیو ایڈڈ انڈسٹری دھڑام سے نیچے آ گری ہے۔ملک میں ہر طرف شور ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر مکمل صلاحیت پر کام کر رہا ہے۔ جب متعلقہ سرکاری عہدیداروں سے یہ پوچھا گیا کہ مکمل صلاحیت کا کیا مطلب ہے؟ تو ان کے پاس اس سے متعلق کوئی اعداد و شمار موجود نہیں تھے۔ لیکن مختلف نجی حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ 50 فیصد سے زائد ٹیکسٹائل انڈسٹری بند پڑی تھی جو دوبارہ کام کرنے لگ گئی ہے۔ اس حساب سے برآمدات میں بھی 50 فیصد اضافہ ہونا چاہیے تھا جو دکھائی نہیں دے رہا۔ایک صنعت کارچوہدری علی حبیب گجرکاکہناتھاکہ پاکستان میں 75فیصدانڈسٹری ایکسپورٹ سے وابستہ ہے جسے ڈالرکی اڑان اورگیس بحران کی بڑی مشکل ہے۔موجودہ حالات میں انڈسٹری کومزیدتکلیف نہیں ریلیف دینے کی ضرورت ہے مگربدقسمتی سے اُسے ہروقت آڈٹ اورمحکمانہ ڈراؤ میں رکھاجاتاہے۔ بنکنگ نظام کودرست کرنے کی ضرورت ہے اداروں کومستحکم کرنے کے لئے آسان قرضے دیے جائیں۔اگرصنعتی ادارے قانون کے مطابق ورکرزکوتنخواہیں دے رہے ہیں توحکومت بھی اُنہیں سہولیات فراہم کرے۔
فیصل آباد کے ایکسپورٹرزاورصنعت کارپرامید ہیں کہ نئے سال میں پاکستان کی ایکسپورٹ کو بلندیوں تک پہچائیں گے لیکن اس کے لئے انہیں حکومتی تعاون درکاہے ، حکومت اگر گیس،بجلی،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو کم ازاکم ایک سال کے لئے فکس کردے تو ایکسپورٹرزکواپنے آرڈرز کی تکمیل میں آسانی ہوگی جس سے ملکی زرمبادلہ میں گراں قدراضافہ ہوگا۔