دعا عبادت کا مغز

یہ حقیقت ہے کہ دعا مانگنے کے بعد پریشان دل کو سکون ملتا ہے۔ دعا کی افادیت سے کون انکار کرسکتا ہے! آسمانوں اور زمینوں کی فطری طاقتوں کو مسخر کرنے والا آج کا انسان بہت کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں، کیونکہ اس کی تمام کوششیں منشائے ایزدی کی تائید کے بغیر ہیچ ہیں، اور اس کے تمام ارادے اللہ کی مدد کے بغیر ناممکن! کسی کو بھی اللہ کا دروازہ کھٹکھٹائے بغیر چارہ نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ خلّاقِ عالم اور قادرِ متعلق ہیں۔ وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا، خیرالغافرین اور ارحم الراحمین ہیں۔ بارگاہِ رب العزت میں دعا کرنا ذکرِ الٰہی بھی ہے اور عین عبادت بھی۔
ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت کا مغز قرار دیا ہے۔ جب ایک حاجت مند اپنے مالکِ حقیقی کے آگے دامن پھیلا کر سوال کرے، تو اللہ تعالیٰ اسے محروم نہیں کرتا۔ قضا و قدر سے بچنے کی کوئی تدبیر فائدہ نہیں دے سکتی بجز یہ کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی جائے۔ دعا اُس آفت و مصیبت میں بھی نفع پہنچاتی ہے جو نازل ہوچکی ہو۔ آنحضرتؐ کا ارشاد ہے: ’’جو بلا نازل ہوچکی ہے اس کے لیے بھی دعا نافع ہے، اور جو بلا ابھی نازل نہیں ہوئی، اس کے لیے بھی دعا مفید ہے‘‘۔ جو دعا ابھی نازل نہیں ہوئی، اُس کی جب دعا سے ٹکر ہو، تو وہ زمین پر اترنے نہیں پاتی، اور اگر نازل ہوچکی ہے تو دعا نزولِ رحمت کا باعث بنتی ہے… یا تو وہ حادثہ ٹل جاتا ہے بصورتِ دیگر بندے کے دل میں وحشت کے بجائے امن ڈال دیا جاتا ہے اور اس کے غم و پریشانی میں تخفیف ہوجاتی ہے۔ دعا قبول کرانے کے لیے توکل علی اللہ، اخلاصِ نیت، نیک عمل اور صبر و استقامت ضروری لوازم ہیں۔ اخلاص کے ساتھ مانگی ہوئی دعا جو دل کی گہرائی سے نکلے، ذاتِ باری تعالیٰ کے اختیارِ کُل پر ایمان کو ظاہر کرتی ہے۔ پورے بھروسے اور ایقان کے ساتھ اس ذاتِ وحدہ لاشریک سے دعا مانگنا ہی بندگی، اُس کی شانِ رحیمی اور شانِ کریمی کا اقرار ہے، کیونکہ خود باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’مجھ سے مانگو، میں دعائوں کا سننے والا ہوں‘‘۔
اُسے یہ بات پسند ہے کہ اُس کی بارگاہِ رحمت میں سجدہ ریز ہوکر اُس کے آگے دستِ سوال دراز کیا جائے اور اُسی سے مدد چاہی جائے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی ضرورت اور حاجت پیش کرنے سے پہلے اُس کی حمد و ثنا کیجیے، اور دعا کے اوّل و آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا بھی اہتمام کیجیے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے: ’’جب کسی شخص کو اللہ سے کوئی ضرورت یا حاجت پوری کرنے کا معاملہ درپیش ہو تو اُسے چاہیے کہ پہلے وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھے، پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور نبیؐ پر درود بھیجے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی ضرورت بیان کرے‘‘ (ترمذی)۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت ہے کہ بندے کی جو دعا اللہ کی حمد و ثنا اور نبیؐ پر درود کے ساتھ پہنچے، وہ شرفِ قبولیت پاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے ہر وقت اور ہر آن دعا مانگتے رہنا چاہیے، کیونکہ وہ اپنے بندوں کی فریاد سننے سے کبھی نہیں اکتاتا، تاہم احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ خاص اوقات اور حالات ایسے ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ مانگی گئی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان مخصوص اوقات و حالات میں دعائوں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ رات کے آخری حصے کے سناٹے میں جب لوگ عموماً میٹھی نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں، اُس وقت جو بندہ اپنے رب سے راز و نیاز کرے اور مسکین بن کر اپنی حاجتیں اُس کے حضور رکھے، تو وہ خصوصی توجہ سے سنتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر رات کو آسمانِ دنیا پر نزولِ اجلال فرماتا ہے، ’’یہاں تک کہ جب رات کا آخری حصہ باقی رہتا ہے تو فرماتا ہے: کون مجھے پکارتا ہے کہ میں اُس کی دعا قبول کروں، کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اُس کو عطا کروں، کون مجھ سے مغفرت چاہتا ہے کہ میں اُسے معاف کردوں‘‘۔ (ترمذی)
دعا قبول ہونے کے اوقات یہ بھی ہیں، جمعہ کی مخصوص ساعت جو جمعہ کے خطبے سے نماز کے ختم ہونے تک یا عصر کے بعد سے مغرب تک ہے، اذان کے وقت اور میدانِ جہاد میں جب مجاہدوں کی صف بندی کی جارہی ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’دو دعائیں اللہ کے دربار میں رد نہیں کی جاتیں، ایک اذان کے وقت کی دعا اور دوسرے جہاد میں صف بندی کے وقت کی دعا‘‘۔ (ابودائود)
علاوہ ازیں رمضان کے مبارک ایام میں بالخصوص افطار کے وقت بھی دعا پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے۔ احادیث میں ہے کہ ’’تین اشخاص کی دعا کبھی رد نہیں کی جاتی: روزے دار کی، عادل بادشاہ اور مظلوم کی‘‘۔ نیز فرض نمازوں کے بعد اور سجدے کی حالت میں کی جانے والی دعا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے بہت ہی قربت حاصل کرلیتا ہے۔ پس تم اس حالت میں اپنے رب سے خوب دعائیں مانگا کرو‘‘۔
دوسروں کے لیے دعا کیجیے لیکن ہمیشہ اپنی ذات سے شروع کیجیے، پہلے اپنے لیے مانگیے، پھر دوسروں کے لیے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’نبی پاکؐ جب کسی شخص کا ذکر فرماتے تو اُس کے لیے دعا فرماتے مگر دعا اپنی ذات سے شروع کرتے‘‘۔ (ترمذی)
مکمل ایمان، نیک عمل، اوامرونواہی کی پابندی اور روزِ جزا کے حساب کتاب کا خوف ہی دراصل اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے دین کا سیدھا راستہ ہے۔ پس دعائوں کو مستجاب بنانے اور دین و دنیا میں خیر و فلاح حاصل کرنے کے لیے خوفِ خدا، تقویٰ اور اعمالِ صالحہ بنیادی شرائط ہیں۔ مزید برآں سائل کو صاحب ِصبر بھی ہونا چاہیے۔ پورے خشوع و خضوع سے (باقی صفحہ 41پر)
جائز امر کے لیے دعا مانگ کر صبر کے ساتھ اللہ کی رحمت پر توکل، اور اسی کی رضا پر سرِتسلیم خم کرنا چاہیے، کیونکہ صدقِ دل سے مانگی ہوئی دعا کسی صورت بھی رائیگاں نہیں جاتی۔ نہ جانے ہماری کس دعا کو حضور باری تعالیٰ میں کس وقت شرفِ قبولیت حاصل ہوجائے۔ اگر اُس غفور الرحیم کے نزدیک قرین مصلحت ہوتو ہماری مراد فوراً پوری ہوجاتی ہے، ورنہ اس کا بہتر نعم البدل دنیا یا آخرت میں دیا جائے گا۔
کائنات ِبے کراںکا فرماں روائے مطلق، تمام اختیارات اور تمام طاقتوںکا مالک، تمام مخلوقات کا خالق، اپنے ہر بندے سے اتنا قریب ہے کہ ہم براہِ راست، ہر وقت اور ہر جگہ اپنے کلماتِ گزارش اور صدائے دل اُس کی بارگاہ میں پیش کرسکتے ہیں۔ اسی کی وہ تاکید کرتا ہے اور اسی کو وہ پسند کرتا ہے کہ ’’میرا دامن پکڑلو، میری طرف رجوع کرو، مجھ پر بھروسا کرو اور میری بندگی کرو‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انھی خطوط پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثم آمین)