بھارتی ریاست ”گوا“ میں تبلیغی اور فلاحی سرگرمیاں
گوا ایئرپورٹ سے باہر نکلا تو جناب عبدالرحمٰن خاں کو اپنا منتظر پایا۔ موصوف سے بہت پہلے سے شناسائی ہے اور وہ میرے قدردانوں میں سے ہیں۔ وہ مجھے اپنے گھر لے گئے، جو ایئر پورٹ سے قریب ہی ہے۔ وہاں ضروریات سے فارغ ہوکر ناشتہ کیا۔ اسی دوران ”واسکو“ کے جماعت اسلامی ہند کے مقامی امیر جناب حسن خاں تشریف لے آئے۔ ان کے ساتھ ”آشیانہ شیلٹر ہوم“ پہنچے، جہاں وابستگانِ جماعت کے ساتھ ملاقات طے تھی۔
گوا ہندوستان کی سب سے چھوٹی ریاست ہے۔ یہ ممبئی کے جنوب میں واقع ہے۔ شمال میں مہاراشٹر، جنوب مشرق میں کرناٹک اور مغرب میں بحیرۂ عرب سے گھری ہوئی ہے۔ واسکوڈی گاما پہلا یورپی سیّاح تھا جو سمندری راستے سے 1498ء میں یہاں آیا تھا۔ 1510ء میں اس پر پرتگال نے قبضہ کرلیا تھا۔اس وقت سے 1961ء تک یہاں ان کی حکومت رہی۔اس کے بعد یہ ہندوستان کے قبضے میں آیا۔1987ء میں اسے ریاست کا درجہ ملا۔یہاں زمانۂ قدیم سے عیسائی مشنریز بہت سرگرم رہی ہیں۔پوری ریاست میں ان کے بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور ہسپتال ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے بہت سے چلڈرن شیلٹر ہومز چل رہے ہیں، جن میں وہ سَلَم آبادیوں سے غریب بچوں اور بچیوں کو لاکر رکھتے ہیں اور انہیں تعلیم دیتے ہیں۔ چند برس وہ ان ہومز میں رہ کر پوری طرح عیسائیت کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور بغیر کسی دباؤ اور لالچ کے عیسائیت قبول کرلیتے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد مسلم بچوں اور بچیوں کی ہوتی تھی۔ انہیں عیسائیت کے نرغے سے بچانے کے مقصد سے 2010ء میں یہاں جماعت اسلامی ہند کی جانب سے مدھر سندیش سینٹر قائم کیا گیا، جس نے آشیانہ شیلٹر ہوم کو وجود بخشا۔ ہیومن ویلفیئر فاؤنڈیشن کے پروجیکٹ Vision 2016 کے جزوی مالی تعاون سے اس کی عمارت کی تاسیس ہوئی ہے۔ یہ دو عمارتیں ہیں۔ ایک کو ہاسٹل کے طور پر استعمال کیا جاتا اور دوسری میں درجہ چار تک اسکول چلتا ہے۔ ہاسٹل میں صرف بچیاں رہتی ہیں۔ اسکول میں بچے اور بچیاں دونوں پڑھتے ہیں۔ تین برس سے ہائی اسکول کی منظوری لینے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن ریاستی حکومت مسلسل انکاری ہے۔
عبدالرحمٰن صاحب نے آشیانہ شیلٹر ہوم کا معائنہ کروایا۔ میں نے ہاسٹل کے کمروں اور میس کو دیکھا اور بچیوں سے ملاقات کی۔ یہ ہاسٹل میں بہت سلیقے سے رہتی ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔
تھوڑی دیر میں وابستگانِ جماعت جمع ہوگئے۔ ان کے سامنے جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ اسلامی معاشرہ اور شریعہ کونسل کے تحت انجام دی جانے والی سرگرمیوں کا تعارف کرانے کا موقع ملا۔ اس کے بعد مقامی علماء، ائمہ مساجد اور معززین شہر آگئے۔ ان کے سامنے موجودہ حالات کے تعلق سے کچھ باتیں رکھیں اور ان کی تجاویز اور مشورے سنے۔ ملک کی جن پانچ ریاستوں میں اگلے چند ماہ میں الیکشن ہونے والے ہیں ان میں گوا بھی ہے۔ اس کے تعلق سے ان حضرات کو بہت متفکر پایا۔ یہ مشورہ سامنے آیا کہ مسلمانوں کو متحدہ موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جلد جامع منصوبہ بندی کرلینی چاہیے۔
خواتین کی قابلِ تحسین سرگرمیاں
جماعت اسلامی ہند کی سرگرمیاں الحمدللہ ملک کی تمام ریاستوں میں جاری و ساری ہیں، اور ان کی انجام دہی میں خواتین بھی پیش پیش ہیں۔ الحمدللہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، پروفیشنل اور عمدہ صلاحیتوں کی حامل خواتین تحریک میں شامل ہورہی ہیں اور اصلاحِ معاشرہ کے کاموں میں مؤثر کردار ادا کررہی ہیں۔ اس معاملے میں گوا کی جماعت بہت ممتاز ہے۔
گوا کو 1987ء میں ریاست کا درجہ ملا، لیکن جماعت کے نظم میں اس کے بعد بھی اسے ریاست کرناٹک سے مربوط رکھا گیا تھا۔ دو میقات (آٹھ برس)قبل اس کا نظم الگ اور مستقل کیا گیا۔ یہاں جماعت سے وابستگی میں خواتین کو سبقت حاصل رہی۔ سب سے پہلے دو خواتین جماعت کی رکن بنیں۔ اِس وقت وہاں 69 ارکان ہیں، جن میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے۔ یہاں بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت کے لیے عمدہ لٹریچر تیار کیا جارہا ہے۔ تحریک اسلامی کے معروف ادیب جناب مائل خیرابادی کی کئی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے اور انہیں بچوں کے ذوق، نفسیات اور دل چسپی کے مطابق رنگین کاغذ پر گرافکس کے ساتھ طبع کیا گیا ہے۔ اس کام میں خواتین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چار برس سے انگریزی میں ایک سہ ماہی رسالہ ”تارے زمین پر“ کے نام سے شائع کیا جارہا ہے۔ اس کی مجلسِ ادارت 5 افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے دو خواتین ہیں۔ بچوں کی ہفتہ وار دینی کلاسز (اتوار کو) کے لیے ریاست کے 7 مقامات پر سینٹر قائم کیے گئے ہیں۔ ان سے 90 اساتذہ وابستہ ہیں، جن میں سے 82 خواتین ہیں، اور اہم بات یہ ہے کہ یہ سب اعزازی طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ خواتین نے ایک انجمن بنا رکھی ہے، جس کے تحت مختلف پروگرام کیے جاتے ہیں۔
میرے گوا پہنچنے پر زری، مورموگاؤ میں وابستگانِ جماعت کی نشست ہوئی تو شرکاء میں سے نصف تعداد خواتین کی تھی۔ میں نے اپنی گفتگو میں عرض کیا کہ دین کے تمام احکام کا خطاب مردوں کی طرح خواتین سے بھی ہے۔ قرآن مردوں سے خطاب کا صیغہ استعمال کرتا ہے تو اس میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں، لیکن اس نے جب عمل اور اس پر اجر کی بات کی تو وہاں خواتین کا تذکرہ خصوصیت سے الگ سے کیا۔ [مِنْ ذَکَرٍ اَوً اُنْثَی : آل عمران : 195، النساء : 124، النحل : 97، مومن :40 ]
اسی دن شام کو ریاست کے دارالحکومت پَنَجِی میں ساحلِ سمندر پر ایک ہال میں خطابِ عام کا پروگرام رکھا گیا تھا۔ اس میں ملک کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں مسلمانوں کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟ اور اپنے تشخص کی بقا اور دعوتی جدّوجہد کے تسلسل کے لیے کیا منصوبہ بندی کرنی چاہیے؟ کے موضوع پر کچھ اظہار خیال کرنے کا موقع ملا۔ مولانا سید جلال الدین عمری بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کے باہمی حقوق کی ادائیگی بالخصوص اتحاد و اتفاق پر زور دیا اور سیاسی میدان میں بیداری اور جامع منصوبہ بندی کی ضرورت بتائی۔ پورا ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ شرکاء میں اندازاً 40 فی صد مرد حضرات اور 60 فی صد خواتین تھیں۔
مولانا عمری ان دنوں ریاست کے دورے پر ہیں۔ امیر حلقہ عبدالوحید صاحب نے بتایا کہ خواتین کو جب مولانا کی تشریف آوری کی اطلاع ملی تو انھوں نے پہلے سے پلاننگ کی۔ انھوں نے تحریک سے وابستہ خواتین کو مولانا عمری کی خواتین سے متعلق تصانیف کا مطالعہ کروایا، تاکہ مولانا سے ملاقات پر ان سے بھرپور استفادہ ہوسکے اور ان کی کتابوں کے حوالے سے سوالات اور ڈسکشن ہوسکے۔ مولانا کے پروگراموں میں شرکت کرنے والوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ تھی۔
میں نے امیر حلقہ سے کہا: ”تحریک میں شامل ہونے والی خواتین کی یہی رفتار رہی تو امکان ہے کہ جلد کسی خاتون کو ہی امیرِ حلقہ بنانا پڑے۔“ وہ مسکرا دیے۔