نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی امریکہ میں وسط مدتی انتخابات کی مہم شروع ہوگئی جو 8 نومبر کو ہوں گے۔ گنجلک طریقہ کار کی بنا پر امریکہ میں انتخابی عمل کا دورانیہ ایک سال سے زیادہ ہے۔ یہاں پارٹی ٹکٹوں کا اجرا جماعتوں کے پارلیمانی بورڈ یا قیادت کی جانب سے نہیں ہوتا، بلکہ جماعتی نامزدگی عام انتخابات کے ذریعے ہوتی ہے۔ دلچسپ بات کہ ٹکٹ کے حصول کے لیے جماعت کی رکنیت بھی ضروری نہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں سینیٹر برنی سینڈرز ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کے خواہش مند تھے، جبکہ موصوف نے ووٹر رجسٹریشن دستاویزات میں خود کو ”آزاد“ درج کرایا ہوا ہے، اور سینیٹ کا انتخاب بھی انھوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیتا تھا۔
پرائمری انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے بھی جماعتی رکنیت کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ووٹر رجسٹریشن کے وقت پسندیدہ پارٹی کا نام لکھ دینا کافی ہے۔ بہت سی ریاستوں میں تو یہ تکلف بھی نہیں، بلکہ پولنگ اسٹیشن پر آپ کسی بھی پارٹی کا بیلٹ پیپر لے سکتے ہیں۔ پارٹی ٹکٹ کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ کئی ریاستوں میں دسمبر کے دوران مکمل ہوچکا، باقی جگہ اس ماہ کی 15 تاریخ تک یہ کارروائی تکمیل کو پہنچے گی۔
پرائمری انتخابات کا سلسلہ مارچ سے شروع ہوگا جب ٹکٹ کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ہر ریاست اپنی سہولت کے مطابق پولنگ کا دن طے کرتی ہے، اور یہ مرحلہ اگست کے آخر تک مکمل ہوگا۔ ان انتخابات میں ٹکٹ کے لیے کم از کم 50 فیصد ووٹ لینا ضروری ہے، اور اگر کوئی بھی امیدوار مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تو دوسرے مرحلے میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان براہِ راست مقابلہ ہوتا ہے۔ اس فیصلہ کن انتخاب کو runoff الیکشن کہا جاتا ہے
امریکہ پچاس ریاستوں پر مشتمل ایک وفاق ہے جہاں کرنسی، بین الاقوامی تعلقات اور دفاع کے سوا تمام اختیارات ریاستوں (صوبوں) کے پاس ہیں۔ امریکہ کی تمام ریاستوں میں مقننہ کے انتخابات جُفت (even) سال کے پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو ہوتے ہیں، لیکن لوزیانا(Louisiana)، مسی سپی (Mississippi)، نیوجرسی اور ورجینیا میں پارلیمانی انتخابات طاق (odd) سال میں کرائے جاتے ہیں۔ چنانچہ 8 نومبر کو 46 ریاستوں میں پارلیمانی انتخابات ہوں گے۔اسی دن 36 ریاستوں اور امریکہ کی تین کالونیوں گوام، شمالی جزائرِ ماریانہ اور ورجن آئی لینڈ میں گورنروں کا چنائو بھی ہوگا۔
اس کے ساتھ ہی بہت سی ریاستوں میں مختلف اہم امور پر عوام کی رائے معلوم کی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے پرچہ انتخاب پر سوالات تحریر کیے جاتے ہیں جن کے جوابات صرف ہاں یا نہ میں دیئے جاسکتے ہیں۔ ان سوالات کو امریکہ کی پارلیمانی اصطلاح میں PROPOSITIONSکہا جاتا ہے۔
آنے والے انتخابات کی اہمیت اس اعتبار سے بہت بڑھ گئی ہے کہ 2020ء کی مردم شماری کے بعد مختلف ریاستوں کے لیے مختص نشستوں کی تعداد میں کچھ فرق آیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اب امریکہ کی آبادی 33 کروڑ 15 لاکھ کے قریب ہے جو 2010ء کی مردم شماری کے مقابلے میں 2 کروڑ 27 لاکھ زیادہ ہے، یعنی گزشتہ دس سال میں امریکہ کی آبادی 7.4فیصد بڑھ گئی۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ اس عرصے میں امریکی شہریوں نے ایک ریاست سے دوسری ریاستوں کی طرف نقل مکانی بھی کی، جس سے ریاستی آبادی میں فرق آیا۔
امریکی پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ ایوانِ بالا یا سینیٹ میں تمام کی تمام پچاس ریاستوں کی نمائندگی مساوی ہے، اور ہر ریاست کی نمائندگی دو سینیٹر کرتے ہیں۔ ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) کی 534 نشستیں آبادی کے اعتبار سے تمام ریاستوں پر تقسیم کی گئی ہیں۔ ریاستوں کے مابین نقل مکانی اور آبادی میں اضافے سے جو فرق آیا ہے اس کے مطابق
٭سات ریاستوں میں ایوانِ نمائندگان کی نشستیں ایک ایک کم ہوگئی ہیں۔ ان سات میں سے تین ریاستیں ڈیموکریٹک پارٹی، اور دو ری پبلکن کا گڑھ ہیں۔ دو ریاستوں میں مقابلہ برابر کا ہے۔
٭پانچ ریاستوں میں ایک ایک نشست کا اضافہ ہوا ہے، جن میں سے تین ری پبلکن کی گرفت میں ہیں اور ایک ڈیموکریٹس کا قلعہ ہے۔
٭ٹیکسس (Texas)کو دو اضافی نشستیں ملی ہیں۔ یہاں ری پبلکن پارٹی کا زور ہے لیکن اس ریاست میں ہسپانویوں، ایشیائیوں اور افریقی نژاد امریکیوں کے تناسب میں مسلسل اضافے سے ری پبلکن پارٹی کی گرفت کمزور ہورہی ہے۔
امریکہ میں انتخابات کا انتظام چونکہ ریاستوں کی ذمہ داری ہے اور وفاق کو مداخلت کا کوئی حق نہیں، اس لیے مختلف ریاستوں میں حلقہ بندی، ووٹر رجسٹریشن اور ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار بھی ایک جیسا نہیں، اور اس ضمن میں کئی جگہ مطلوبہ نتائج کے لیے جماعتی مداخلت بہت واضح ہے۔ صرف6 ریاستوں میں ایوانِ نمائندگان کی حلقہ بندی کے لیے آزاد و خودمختار کمیشن قائم کیے گئے ہیں، جبکہ اکثر ریاستوں میں حلقہ بندی کا کام ریاستی مقننہ (صوبائی اسمبلی) کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت 19 ریاستوں کی مقننہ میں ری پبلکن پارٹی کو اکثریت حاصل ہے، اور 8 میں ڈیموکریٹس غالب ہیں۔ حلقہ بندی کرتے وقت اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس انداز میں حلقے تراشے جاتے ہیں کہ مخالفین کے ووٹ بینک کو غیر مؤثر کیا جاسکے۔ اس حکمتِ عملی کو پارلیمانی اصطلاح میں Gerrymandering کہتے ہیں۔
”مطلوبہ“ نتائج کے لیے ووٹنگ کے ضابطے بھی کچھ اس طرح ترتیب دیئے جاتے ہیں جس سے مخالف ووٹر پریشان ہوں۔ اُن علاقوں میں پولنگ اسٹیشن کی تعداد کم اور فاصلے زیادہ رکھے جاتے ہیں۔ پولنگ کے اوقات کم کرکے ووٹ ڈالنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ شناخت کے لیے دستاویز کی شرط بھی ایک حربے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ سیاہ فام علاقوں کے رہائشیوں کے لیے پولنگ اسٹیشن اُن مضافاتی علاقوں میں بنانا بہت عام ہے جہاں بسیں (پبلک ٹرانسپورٹ) نہیں جاتیں۔ مضافات میں عام طور سے سفید فاموں کی اکثریت ہے جہاں جاتے ہوئے افریقی نژاد امریکی اور اقلیتی ووٹر خوف محسوس کرتے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات کے قبل از وقت ووٹنگ (early voting) مرحلے میں بہت سے پولنگ اسٹیشن چوبیس گھنٹے کھلے تھے۔ بعض جگہ گاڑی میں بیٹھ کر ووٹ ڈالنے کی سہولت موجود تھی۔ اسی طرح ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے لیے کوئی معقول وجہ بتانے کی ضرورت نہ تھی بلکہ ایک سادہ سی درخواست لکھ کر پرچہ انتخاب گھر پر منگوایا جاسکتا تھا۔ نئی قانون سازی کے تحت کئی ریاستوں میں اب 24 گھنٹے ووٹنگ کا انتظام ختم کردیا گیا ہے۔ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کی سہولت معمر شہریوں تک محدود کردی گئی ہے۔ عام ووٹر کو پوسٹل بیلٹ منگوانے کے لیے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ روزِ انتخاب کسی ”ضروری“ کام سے شہر سے باہر ہوگا۔
اِس بار ایوانِ نمائندگان کے ساتھ سینیٹ کی 34 نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ ان میں سے 14 نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان کی مدت مکمل ہونے پر خالی ہورہی ہیں، تو دوسری طرف 20 ری پبلکن سینیٹرز کی مدت پوری ہورہی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال گورنر کے انتخابات کا ہے۔ 20 ریاستوں میں ری پبلکن اور 16میں ڈیموکریٹک گورنر اپنی مدت پوری کررہے ہیں۔
اس وقت سینیٹ میں دونوں جماعتوں کی پارلیمانی قوت برابر ہے، یعنی ہر پارٹی کے 50 سینیٹر ایوان میں براجمان ہیں۔ امریکی قانون کے تحت نائب صدر بر بنائے عہدہ سینیٹ کی سربراہ ہیں اور ووٹ برابر ہوجانے کی صورت میں فیصلہ کن یا tie-breakerووٹ ڈال کر اپنی پارٹی کی نیّا پار لگاسکتی ہیں۔ لیکن بائیڈن صاحب کے ساتھ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ ان کی پارٹی کے سینیٹر جومینچن اور محترمہ کرسٹن سنیما نظریاتی اعتبار سے قدامت پسندوں کے ہم نوا ہیں اور ہر کلیدی معاملے پر رائے شماری کے دوران یہ دونوں غیر جانب دار رہتے ہیں۔ اسی بنا پر بائیڈن انتظامیہ کو قانون سازی میں سخت مشکل پیش آرہی ہے۔ ان دو سینیٹرز کے عدم تعاون کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ کے لیے منشور پر عمل درآمد ناممکن ہوگیا ہے، اور اس تعطل سے عوام بددل ہورہے ہیں۔
واضح اکثریت کے لیے ایوانِ نمائندگان کی 221 نشستیں درکار ہیں، اور اس وقت ایوان میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان کی تعداد 218 ہے۔ صدر بائیڈن چاہتے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں اپنی تمام کی تمام 14 نشستوں کے تحفظ کے ساتھ وہ سینیٹ کی کم از کم دو نشستیں ری پبلکن پارٹی سے چھین لیں، تاکہ قانون سازی کا عمل تیز ہوسکے۔ ساتھ ہی ڈیموکریٹک پارٹی ایوان نمائندگان پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ ری پبلکن بھی غافل نہیں، ان کا پورا زور جارجیا پر ہے جہاں 2019ء کے ضمنی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی نے سینیٹ کی دونوں نشستوں سے انھیں بے دخل کردیا تھا۔ اِس بار اُن میں ایک پر انتخاب ہورہا ہے اور ہاتھیوں والے جارجیا کی نشست واپس لینے کے لیے پُرعزم ہیں، اسی کے ساتھ وہ ایوانِ نمائندگان گدھوں سے چھیننے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ احباب کو یقیناً علم ہوگا کہ ہاتھی ری پبلکن پارٹی کا علامتی نشان ہے، اور ڈیموکریٹس گدھے کے نشان سے پہچانے جاتے ہیں۔
رائے عامہ کے حالیہ جائزے صدر بائیڈن کے لیے سخت مایوس کن ہیں۔ کورونا سے بچائو کے لیے تن دوری (social distancing) سمیت جو احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں اُن کی وجہ سے بندرگاہوں پر جہازوں سے سامان اتارنے اور لادنے کا کام چیونٹی کی رفتار سے ہورہا ہے۔ امریکہ، چین اور یورپی یونین کی سب سے بڑی بندرگاہ روٹرڈیم (نیدرلینڈ) کی بندرگاہوں پر جہازوں کی قطاریں لگی ہیں۔ اس غیر معمول بحری ٹریفک جام سے زنجیرِ فراہمی (supply chain) ٹوٹ گئی ہے اور تعطل کے نتیجے میں تیل اور اشیائے خوردنی سمیت تمام ضروری اشیا کی نقل و حمل متاثر ہورہی ہے۔ کاروباری لاگت بڑھ جانے کی بنا پر کھلونے سے لے کر کار تک ہر چیز کی قیمت کو پَر لگ گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں افرطِ زر میں اضافے کی شرح گزشتہ تیس سال کا ریکارڈ توڑ چکی ہے۔
دوسری طرف قانون سازی میں رکاوٹ کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ مہنگائی کے مارے عوام کو کوئی راحت بھی فراہم نہیں کرسکتی۔ حکومت نے معیشت کے پہیّے کو حرکت دینے کے لیے سڑکوں، پلوں، بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کی تعمیر اور دیہاتوں میں تیز رفتار انٹرنیٹ کے لیے build back betterکے عنوان سے کئی کھرب ڈالر کا ایک منصوبہ پارلیمان کو بھیجا ہے، لیکن ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر جومینچن کی مخالفت کی وجہ سے یہ بل اب تک رائے شماری کے لیے پیش ہی نہیں ہوا۔ وجہ کچھ بھی ہو، عام لوگ مہنگائی اور اشیا کی عدم دستیابی کا ذمہ دار صدر بائیڈن کو قرار دے رہے ہیں۔
آنے والے وسط مدتی انتخابات سابق صدر ٹرمپ کے لیے بہت اہم ہیں۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ وہ 2024ء کے صدارتی انتخابات میں ایک بار پھر قسمت آزمائی کی خواہش رکھتے ہیں اور قدامت پسند امیدواروں کے حق میں تحریک چلاکر اپنی مقبولیت کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں شکست کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی میں خاصے مقبول ہیں۔ دلچسپ بات کہ نصف کے قریب ری پبلکن کو اب بھی یقین ہے کہ 2020ء کے انتخابات میں صدر ٹرمپ کو جھرلو پھیر کر ہرایا گیا ہے۔ دوسری طرف 6 جنوری کے ہنگامے کی تحقیقات کرنے والے پارلیمانی کمیشن کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اس ”بغاوت“ کے سرغنہ تھے۔ اگر یہ الزامات ثابت ہوگئے تو سابق صدر پر مقدمہ چل سکتا ہے۔
بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ معاشی پریشانی، مہنگائی اور قانون سازی میں تعطل کی بنا پر وسط مدتی انتخابات کے نتائج صدر بائیڈن کے لیے ناخوشگوار ہوں گے۔ عددی اکثریت کے باوجود نظریاتی کشمکش کی بنا پر ڈیموکریٹک پارٹی سینیٹ میں عملاً ایک اقلیتی جماعت ہے۔ اس تناظر میں اگر ری پبلکن پارٹی ایوانِ نمائندگان سے حکمراں جماعت کی بالادستی ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اپنے اقتدار کے آخری دو سال میں بائیڈن انتظامیہ مفلوج ہوکر رہ جائے گی، اور یہی 2024ء کی صدارتی انتخابی مہم کے لیےری پبلکن پارٹی کی حکمتِ عملی معلوم ہوتی ہے۔
تاہم ابھی ان انتخابات میں دس مہینے باقی ہیں، یعنی انتخابات کے پلِ صراط کے نیچے سے ابھی بہت سا پانی بہنا ہے۔ موسم اور مزاجِ یار کی طرح نیرنگیِ سیاست کے اپنے ہی رنگ ڈھنگ ہیں، اور اس باب میں تیقن سے کچھ کہنا ممکن و مناسب نہیں۔ ابھی تو دونوں جانب کے جغادری ٹکٹ کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے سر بلکہ گردنوں پر سوار ہیں۔ ”سیاسی خانہ جنگی“ کی گرد بیٹھنے کے بعد ہی حقیقی صورتِ حال سامنے آئے گی۔
………………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاورٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔