امن کی ’’مصنوعی‘‘ خواہش: کنٹرول لائن پر مٹھائی کا تبادلہ یا کشمیریوں کے زخموں پرنمک پاشی؟

سالِ نو کے آغاز پر کنٹرول لائن پر پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان خیرسگالی کے طور پر مٹھائیوں کے تبادلے ہوئے ہیں۔ خیر سگالی کے یہ مظاہرے چار مقامات ٹیٹوال، تیتری نوٹ، تتہ پانی اور چکوٹھی میں کراسنگ پوائنٹس پر ہوئے۔ یہ وہی کراسنگ پوائنٹ ہیں جو کئی برس سے ویران ہیں اور ان کے دروازوں پر تالے اور جالے پڑے ہوئے ہیں۔ اس خیرسگالی کی تصویریں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی زینت بنیں، اور دنیا نے اسے جنوبی ایشیا کے دو روایتی حریف ملکوں کے درمیان امن کی ایک امید کے طور پر دیکھا۔ ایسا ہی ایک مظاہرہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چینی اور بھارتی افواج کے درمیان بھی ہوا۔ چین اور بھارت کے درمیان تنازع گوکہ پوری طرح گرم اور زوروں پر ہے مگر اس کی سنگینی اور شدت میں انسانی پہلو نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جو تنازع چل رہا ہے اُس میں انسانیت نہ صرف سراسر خسارے میں ہے، بلکہ انسانی قدروں کی دھجیاں بھی اُڑ رہی ہیں، انسانیت ایک خوفناک المیے کا سامنا کررہی ہے۔ اس لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر کی جو جہت ہے اُس میں انسانی جذبات اور احساسات وابستہ ہیں، انسانوں کی دلدوز کہانیاں ہیں، کچھ خواب ہیں اور کچھ ٹوٹے اور بکھرے ہوئے خوابوں کی کرچیاں ہیں۔ کشمیر درد و الم کی ایک تصویر بن کر رہ گیا ہے جہاں بھارت کے لاکھوں فوجی پوری آبادی کو مٹھی میں بند رکھے ہوئے ہیں۔ سانس لینے پر پابندی ہے اور نعرہ لگانے کی پاداش میں خواتین کو جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے۔ ٹین ایجر بچوں سے جیلیں بھر دی گئی ہیں۔ فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی لاشیں تک گھر والوں کو نہیں دی جاتیں بلکہ انہیں دور دراز کے گمنام علاقوں میں مٹی میں دبا دیا جاتا ہے۔ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم نے نازی جرمنی کو مات دے دی ہے۔ ایسے میں پاکستان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ کشمیریوں کا وکیل ہے۔ حقیقی پوزیشن بھی یہی ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی بات کرتا ہے، جبکہ بھارت ان کا ہر حق چھین چکا ہے۔ اور اب نام، شناخت اور آبادی تک کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی جیت کی خوشی میں کشمیری نوجوانوں نے جشن منایا۔ کچھ نعرے بلند کیے۔ پھر کیا ہوا؟ بھارت میں ان نوجوانوں پر بغاوت اور غداری کے مقدمات قائم ہوئے اور انہیں گرفتار کرکے جیلوں میں بند کردیا گیا۔ آگرہ کی جیلوں میں آج بھی کئی طالب علم اس جرم کی پاداش میں بند ہیں اور ان کا مستقبل اب حالات کی صلیب پر جھول رہا ہے۔ اب سالِ نو پر مٹھائیوں کے تحفے بھارت کے ظلم کا شکار کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ یہ اگر رسم و ریت ہے اور کسی پروٹوکول کا تقاضا ہے تو جہاں حکومتِ پاکستان اِس وقت بہت سے تقاضوں سے ہاتھ کھینچ چکی ہے اور بھارت کے ساتھ راہ ورسم اور تجارت وسفارت کے تمام چینل بند کیے بیٹھی ہے ایسے میں یہ پروٹوکول بھی دریا برد کیا جانا چاہیے۔ موجودہ حالات میں اس تکلف کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہ مصنوعی اقدامات ماضی میں بھی وقت کے زیاں کے سوا کچھ اور ثابت نہیں ہوئے۔ نیتوں میں فتور اور دلوں میں زنگ ہو تو اس طرح کے اقدامات اور مظاہرے مشق ِ فضول ہی کہلاتے ہیں۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کا پُل بن سکتا ہے اگر خلوصِ نیت سے اس مسئلے کو حل کرنا مقصود ہو۔ مگر یہاں تو بھارت کشمیر کا نام ہی مٹا ڈالنے کی راہ پر گامزن ہے۔کشمیریوں سے ان کی زمین اور شناخت چھینی جارہی ہے۔ بھارت بھر سے رئیل اسٹیٹ سے وابستہ افراد کی کانفرنس کرکے بھارت نے کشمیریوں کی زمینیں ہتھیانے کا راستہ کھول دیا ہے۔ 70۔75 برس پہلے یہ منظر فلسطین میں دکھائی دیا تھا، پھر رفتہ رفتہ فلسطین ہی دنیا کے نقشے سے غائب ہوتا چلا گیا اور اسرائیلی رئیل اسٹیٹ کے زیراہتمام آبادیاں بنتی اور پھیلتی چلی گئیں۔ حالات کا رخ یہی رہا تو تیس چالیس سال بعد کے کشمیر کی تصویر کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ اس ماحول اور کیفیت میں کشمیر کی سرزمین پر مٹھائیوں کے تبادلے خودفریبی کے سواکچھ نہیں۔ مٹھائیاں اُن مقامات پر بانٹی جائیں جہاں انسانوں کی آمد و رفت پر پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں چند برس پہلے تک رونقیں تھیں، منقسم خاندانوں کے لوگ خوشی خوشی ان مقامات سے گزرتے تھے۔ یہاں انہیں برسوں کے خوابوں کی تعبیر ملتی تھی۔ اب ان پھاٹکوں پر بھارت کی ہٹ دھرمی سے تالے اور جالے لگ چکے ہیں، اور ان بندکواڑوں پر کس خوشی میں مٹھائی بانٹی جائے؟ کیا ہی اچھا ہو کہ جب تک کشمیر میں ظلم وستم کا یہ منظر اور ماحول برقرار ہے اُس وقت تک یہ مصنوعی اقدامات ترک کردئیے جائیں تاکہ کشمیریوں کی دل آزاری نہ ہو۔ سال میں ایک دن مٹھائی بانٹنے سے کچھ ہونے والا نہیں، سوائے اس کے کہ مٹھائی کا ذائقہ معلوم ہوجاتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ اپنی حدود میں اپنے حلوائیوں کے ہاتھوں کی بنی مٹھائیاں کھا کر ہی گزارا کیا جائے، کیونکہ یہ مٹھاس اور یہ مٹھائی کسی کے دل پر زہرمیں بجھے تیر کی طرح پیوست ہوجاتی ہے۔