بلوچستان اور وفاق کے درمیان حقِ اختیار کا تنازع اوّل روز سے چلا آرہا ہے۔ وسائل سے ملنے والا قلیل حصہ، محدود قانونی و آئینی تصرف، اور نمایاں حصے سے محرومی کا احساس قیام پاکستان سے اب تک مختلف ادوار میں پانچ شورشوں کا سبب بنا ہے۔ صوبائی خودمختاری سیاسی تحریکات کا سرِدست عنوان ہے۔ ساحل اور وسائل پر اختیار اور ان کا صوبے اور عوام کی ترقی و بہبود میں مصرف اہم مطالبہ ہے۔ اس کے برعکس فیصلوں، اقدامات اور رویوں نے بداعتمادی اور دوریاں پیدا کی ہیں۔ نوجوانوں نے بالخصوص گہرا اثر لیا ہے، بلکہ ہنوز لے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان عنوانات کے تحت کسی بھی سخت تحریک کا حصہ بننا مباح سمجھتے ہیں۔ معلوم نہیں پیپلز پارٹی کی حکومت میں دستور کے اندر اٹھارہویں ترمیم اور اس کے اندر صوبائی خودمختاری کا کیا بنا ہے کہ صوبے بدستور اختیارات اور حقوق کی خاطر آہ و فغان کررہے ہیں۔ بلوچستان واضح طور پر نوآبادیات کی مثال پیش کررہا ہے۔ کہنے کو تو منطقہ ’’چاغی‘‘ معدنیات کا شو کیس کہلاتا ہے، جبکہ درحقیقت پورا صوبہ معدنیات کا ’’شوکیس‘‘ ہے جس سے اب تک صوبے کی تقدیر بدل نہیں سکی ہے۔
1950ء کی دہائی میں سوئی کے مقام پر گیس دریافت ہوئی۔ ملک کے کارخانوں کا چلائو اس گیس کی مرہونِ منت ہے، مگر افسوس کہ صوبہ آج بھی اپنی اس نعمت سے محروم ہے۔ محرومی کی ایسی ہی صورت گوادر کی گہرے پانیوں کی بندرگاہ کے تناظر میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سیندک منصوبہ معاہدہ صوبے کی منشا کے برعکس ہے۔ صوبہ تو دور کی بات… یہ منصوبہ قریب کی آبادی کا طرزِ زندگی تک نہیں بدل سکا ہے۔ اب پھر سونے اور تانبے کے ذخائر بروئے کار لانے کا 1993ء کا ریکوڈک معاہدہ زبان زد عام ہے، جس پر27 دسمبر2021ء کو بلوچستان اسمبلی میں اراکین کو ان کیمرا بریفنگ دی گئی۔ اس بریفنگ کے بعد عوام کے کان تذبذب و شبہات سے کھڑے ہوگئے ہیں۔
اجمال اس قضیے کا یہ ہے کہ بلوچستان کے علاقے چاغی میں ریکوڈک کے مقام پر سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کی بازیافت اور بروئے کار لانے کی غرض سے1993ء میں بروکن ہلز پراپریٹرز منرلز (پی ایچ پی ایم) نامی امریکی کمپنی کے ساتھ معاہدہ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے یعنی جوائنٹ ونچر کے طور پر ہوا تھا، جس کے تحت بلوچستان کا حصہ پچیس فیصد طے ہوا تھا۔ چاغی ہلز ایکسپلوریشن نام کے اس معاہدے کے تحت پی ایچ پی ایم نے’’ منکور‘‘ نام سے اپنی ایک سسٹر کمپنی قائم کرلی اور اپنے حصص اس کے نام منتقل کردیے۔ بعد میں ’’منکور‘‘ نے شیئرز آسٹریلیا کی ٹیتھیان کاپر کمپنی ( ٹی سی سی) کو بیچ دیے۔ پھر چلی اور کینیڈا کی دو کمپنیوں کے کنسورشیم نے ٹی سی سی کے تمام شیئرز خرید لیے۔ بہرحال کمپنی مائننگ میں لگی رہی۔ 2008ء میں صوبے میں نواب اسلم رئیسانی کی حکومت قائم ہوئی تو معاہدے پر گرفت ہوئی، اعتراضات اٹھائے گئے۔ یوں عدالتِ عظمیٰ پاکستان نے جنوری 2013ء میں ٹیتھیان کے ساتھ معاہدہ کالعدم قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے دیا۔ پیش ازیں2011ء میں صوبے کے اُس وقت کے وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے ٹھیتیان کی جانب سے کان کنی کی درخواست قبول نہیں کی تھی۔ ردعمل میں ٹی سی سی نے جنوری2012ء میں ورلڈ بینک گروپ کے انٹرنیشنل سینٹر برائے اسٹیبلشمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) سے رجوع کرلیا۔ چناں چہ ثالثی کی اس عالمی عدالت نے قدرے تاخیر یعنی سات سال بعد دیے جانے والے اپنے فیصلے میں پاکستان پر 6 ارب ڈالر جرمانہ عائد کردیا۔ یہاں تک کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کی عدالت نے سال2020ء کے ماہ دسمبر میں پاکستان کی قومی ایئرلائن (پی آئی اے) کے امریکی شہر نیویارک اور فرانس کے شہر پیرس میں واقع ہوٹلوں سمیت پاکستان کے اثاثوں کو منجمد کرنے کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ بعد میں البتہ منسوخ ہوا۔ گویا بھاری جرمانے نے پاکستان کو جکڑ لیا۔ پاکستان کمپنی کے ساتھ معاملات باہمی طور پر سلجھانے میں لگا رہا۔ اب اطلاعات کے مطابق ٹھیتیان کاپر کمپنی کے شراکت داروں میں سے ایک یعنی کینیڈا کی ’’ بیرگ گولڈ‘‘بعض شرائط کے ساتھ دوبارہ معاہدہ کرنے پر تیار ہے۔ کمپنی نے عالمی عدالت کی جانب سے پاکستان پر عائد 6 ارب ڈالر جرمانے میں سے اپنے حصے کے 3 ارب ڈالر نہ لینے اور دوسری شراکت دار کمپنی چلی کی ’’انٹا فگوسٹا‘‘ کے حصے کا جرمانہ اپنے ذمے لینے پر آمادگی ظاہر کی ہے، اور بدلے میں حکومت سے ٹیکسوں کی مد میں رعایت مانگی ہے۔ اراکینِ اسمبلی کو خفیہ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ممکنہ معاہدے کے تحت منصوبے میں پچاس فیصد سرمایہ کاری کی بنیاد پر منافع میں سے پچاس فیصد ’’بیرک گولڈ‘‘ کو ملے گا۔ اگر حکومتِ بلوچستان سرمایہ کاری کا بقیہ پچاس فیصد دینے پر آمادہ ہوئی تو منافع کا بقیہ پچاس فیصد حکومتِ بلوچستان کا ہوگا۔ اگر حکومتِ بلوچستان کے لیے سرمایہ کاری ممکن نہ ہوئی تو بقیہ پچاس فیصد کی سرمایہ کاری وفاقی حکومت کرے گی اور بدلے میں 25فیصد حصہ وفاقی حکومت اور 25 فیصد بلوچستان کو ملے گا۔ شاید اسی بنیاد پر 29 دسمبر کو وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایک ٹویٹ میں اعلان کیا کہ بلوچستان کی خاطر وفاقی حکومت ریکوڈک پراجیکٹ پر اٹھنے والا تمام مالی بوجھ اٹھائے گی، جس پر وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے یوں بغلیں بجائیں کہ جیسے صوبے کو اس کا جائز حق ملا ہو۔ گویا اندریں کہانی بن چکی ہے اور محض رسماً اسمبلی کو 27 دسمبر 2021ء کو ان کیمرا بریفنگ دی گئی۔ تقریباً دس گھنٹوں پر محیط اس اجلاس میں اسمبلی کے 65 میں سے42 ارکان نے شرکت کی۔ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو دعوت دی گئی تھی، وہ نہیں گئے، حالاں کہ انہیں شریک ہونا چاہیے تھا تاکہ عقدہ مزید کھلتا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ ملک میں عدم موجودگی کی وجہ سے شریک نہ ہوئے۔ رکن اسمبلی سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی بھی اجلاس میں نہ گئے، اُن کی شرکت بھی ضروری تھی، کیونکہ ٹیتھیان کمپنی کے ساتھ اتار چڑھائو اُن کے دور میں ہی ہوا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اُس وقت کے صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور دوسرے مقتدر حلقوں اور نواب اسلم رئیسانی کے مابین وجہ نزاع سونے اور تانبے کے ذخائر کا معاہدہ ہی تھا۔ بقول نواب رئیسانی انہیں حسبِ خواہش معاہد ے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ اس بغض میں صوبے کے اندر موقع پاکر وفاقی حکومت نے دو ماہ کے لیے گورنر راج نافذ کردیا تھا۔
اب تو ہر ایک ریکوڈک پر اصولی مؤقف کی پاداش میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کی بات کررہا ہے۔ نواب ثناء اللہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت گرانے کی وجہ ریکوڈک معاہدہ تھا۔ حالاں کہ ایسا ہرگز نہیں۔ صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میاں نوازشریف کی عداوت میں گرائی گئی تھی۔ البتہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ڈھائی سالہ وزارتِ اعلیٰ میں کئی معاملات میں صوبے کے مفاد کو مدنظر رکھا تھا۔ ہوا یہ بھی ہے کہ صوبے کے اندر سے یعنی حکومتوں اور افسر شاہی نے ٹیتھیان کاپر کمپنی کو فائدہ دیا، جس کا نقصان صوبے کو پہنچا ہے۔ مقدمے کی پیروی پر بلوچستان حکومت 5 ارب33کروڑ روپے خرچ کرچکی ہے۔ یہ مقدمہ سیر سپاٹوں کا ذریعہ بھی بنا ہے۔ نواب اسلم رئیسانی کہتے تھے کہ صوبائی حکومت خود ان ذخائر کو بروئے کار لائے گی، جبکہ یہ تو حکومتِ پاکستان کے بس میں بھی نہیں۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ از ِسرنو عالمی سطح پر بولی دی جاتی، صوبے کا حصہ مقدم رکھا جاتا، اور جرمانے کی رقم ہونے والے نئے معاہدے سے مربوط کی جاتی۔
الغرض مذکورہ ان کیمرا بریفنگ سے عوام اور سیاسی حلقوں کی جانب سے شبہات اور تحفظات کا اظہار ہوا ہے۔ سردار اختر مینگل اس بات کا کریڈٹ لے رہے ہیں کہ ریکوڈک پر حالیہ عمل و حرکت اُن کی جماعت نے طشت از بام کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خفیہ بریفنگ کے بجائے معاملات پبلک کیے جانے پر زور دیا جاتا۔ عجب تو یہ بھی ہے کہ معدنی وسائل صوبے کے ہیں اور معاہدے پر اسمبلی کو بریفنگ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور وفاقی اداروں کے نمائندے دیتے ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد معدنیات پر اختیار صوبے کا ہے۔ یہاں سیاسی جماعتوں کو مشترکہ مؤقف کے ساتھ آگے آنا ہوگا۔ نیشنل پارٹی اور سردار اختر مینگل بہرحال معاہدے کی مخالفت کرچکے ہیں۔ ایسا ہی نقطہ نظر صوبے کی دوسری سیاسی جماعتوں کا سامنے آیا ہے۔ تاہم یہ بھی مدنظر رہے کہ عبدالقدوس بزنجو اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی میں گہرے مراسم قائم ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو یا وفاق میں بیٹھے صادق سنجرانی جیسے نمائندوں سے کچھ بھی بعید نہیں، بلکہ ان جیسے لوگ تو چادر بچھاکر ذاتی فوائد سمیٹ رہے ہیں۔ چناں چہ اگر صوبے کے مفاد کے برعکس معاہدہ ہوتا ہے تو یہ جماعتیں شریکِ جرم سمجھی جائیں گی۔ سردار اختر مینگل کی یہ دلیل بھی قبول نہیں کی جاسکتی کہ ان کی جماعت جام حکومت کو ہٹانے کے ثواب میں تو شامل ہے، لیکن عبدالقدوس بزنجو کو لانے کے گناہ میں شریک نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سردار اختر مینگل کی جماعت جنوری2018ء میں عبدالقدوس بزنجو کو مسلط کرنے اور نومبر2021ء میں بھی وزیراعلیٰ بنانے کے گناہ میں شامل ہے۔ جام کو ہٹانے کے بعد عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ ہائوس میں کرسی پر بٹھانے کی سعادت بی این پی کے رکن اسمبلی اختر حسین لانگو کو حاصل ہوئی، بلکہ فرطِ جذبات میں انہوں نے بزنجو کے ماتھے پر بوسہ بھی دیا۔ بی این پی کے اراکین پورا پورا دن وزیراعلیٰ ہائوس میں گزارتے ہیں اور دوروں میں بھی ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ بی این پی سمیت حزبِ اختلاف ہی کے کندھوں پر یہ سارا تماشا ہوا ہے۔ جام دور میں اگر غیر منتخب افراد کو نوازا جاتا تھا تو متحدہ حزبِ اختلاف کے تعاون سے اب کئی قبیح معاملات برسرِ عام ہورہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ریکوڈک ذخائر اور معاہدے کے بارے میں جام کمال مقتدرہ کی سوچ کے برخلاف رائے کا اظہار کرچکے تھے۔ شاید یہی اُن کا جرم بنا ہے۔