اگرچہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ متعصبانہ اور مذہبی بنیادوں پر تفریق کا مسئلہ نیا نہیں، لیکن نریندر مودی کی حکومت اور ہندوتوا کی بنیاد پر جو سیاست آج بھارت میں کی جارہی ہے اُس پر اقلیتوں سمیت انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی اپنی شدید تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ بھارت میں آج محض مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ عیسائیوں، سکھوں اور دلتوں کو بھی ہندو انتہاپسندوں سے مختلف نوعیت یا سطحوں پر تشدد کا سامنا ہے۔ سخت گیر ہندو اور انتہا پسند عناصر سب سے زیادہ مسلمانوں کو ہدف بنارہے ہیں۔ اس کی ایک جھلک ہمیں بھارت کے معروف اداکار نصیر الدین شاہ کے بیان میں دکھائی دیتی ہے کہ ’’بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنایا جارہا ہے‘‘۔ ان کے بقول ’’جو لوگ بھی بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کررہے ہیں وہ دراصل ملک میں خانہ جنگی شروع کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ اسی طرح ان کا یہ بھی مؤقف ہے کہ ’’جو کچھ انتہا پسند کررہے ہیں اس پر انہیں اوپر کی سطح سے تحفظ حاصل ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا ہے‘‘۔
نصیر الدین شاہ نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے وہ محض رومانوی پہلو نہیں، یا محض اُن کی رائے نہیں، بلکہ یہ سب کچھ بھارتی انتہا پسند عناصر کے عملی اقدام کی بنیاد پر کہا گیا ہے۔ یہ ہندوئوں کے مقدس شہر ہریدوار میں17سے 19 دسمبر کے دوران ہونے والے دھرم سنسد مذہبی اجتماع میں مسلمانوں کی نسل کشی پر مبنی تقریروں کا ردعمل ہے۔ اس اجتماع میں مسلم دشمنی پر مبنی زہرآلود تقریریں کی گئیں اور مسلمانوں کے قتلِ عام کی دھمکیاں دی گئیں۔ اسی اجتماع میں ہندو انتہا پسندوں سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ اسلحہ خریدیں اور مسلح جدوجہد کے لیے تیار ہوں، اور اگر اسلحہ نہیں ہے تو تلواریں خریدیں تاکہ مسلمانوں کو ٹھکانے لگایا جائے۔ جہاں جہاں ہندو انتہا پسند طاقت یا اکثریت میں ہیں وہاں مسلمانوں کو عبادت سے بھی روکا جارہا ہے اور ان کے کاروبار کو بھی نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ یہ دھمکیاں بھی سامنے آئی ہیں کہ کسی بھی اقلیت کو اگر بھارت میں رہنا ہے تو اسے ہندوتوا کی سیاست کی بالادستی کو قبول کرنا ہوگا۔
اسی طرح بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور اقلیتوں کے ساتھ تفریق کے پہلو پر بھارتی مسلح افواج کے پانچ سابق سربراہوں، اعلیٰ سرکاری افسران اور دیگر ممتاز شہریوں سمیت ایک سو سے زائد افراد کی جانب سے صدر رام ناتھ گووند اور وزیراعظم نریندر مودی کو خط بھیجا گیا ہے جس میں مختلف تقریبات بشمول ہریدوار اور دہلی کی حالیہ تقاریب کا خاص طور پر ذکر ہے۔ اس خط میں انتہا پسند ہندو راہنمائوں کی تقاریر میں ’’ مسلمانوں کی نسل کشی کی کھلی کال ‘‘ کے حوالے سے خبردار کیا گیا ہے اورکہا گیا ہے کہ اس رجحان کا سدباب نہ کیا گیا تو ایک متحد قوم کی حیثیت سے بھارت کا وجود ختم ہوسکتا ہے۔ان افراد کے بقول مسلمانوں سمیت عیسائیوں، دلتوں اور سکھوں کو بھی ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایاجارہا ہے جس سے تشدد کی یہ کالیں اندرونی طور پر بدامنی کا سبب بن سکتی ہیں۔ اسی طرح ہندو انتہاپسند طبقے کے بقول ’’بھارت کو ہندو مملکت بنایا جائے گا خواہ اس کے لیے جنگ اور قتل و غارت بھی کرنا پڑے‘‘۔ ان سابق فوجی افسران میں سابق چیف آف اسٹاف ایڈمرل لکشمی نرائن داس، سابق ایڈمرل وشنو بھاگوت، سابق ایڈمرل ارون پرکاش، سابق ایڈمرل آر کے دھون، سابق ایئر چیف مارشل ایس پی تیاگی اورلیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ وجے اوبرائے سمیت کئی سرکردہ لوگ شامل ہیں۔ یہ خط صدر اور وزیراعظم سمیت نائب صدر، لوک سبھا کے اسپیکر اور مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بھی روانہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح کا خط بھارت کی سپریم کورٹ کے 76 وکلا نے چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کو بھی لکھا تھا جس میں اعلیٰ عدالت سے تشدد کی کالوں کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ان کے بقول پولیس کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے عدالت کو اس معاملے میں مداخلت کرنا ہوگی۔ یہ خبریں یقینی طور پر بھارت کی اقلیتوں کے تناظر میں بھارت کے داخلی بحران کی سنگینی کو نمایاں کرتی ہیں۔
اسی طرح برطانیہ کی پارلیمان کے 28ارکان نے مشترکہ طور پر لکھے گئے خط میں لندن میں قائم بھارتی ہائی کمیشن سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور جواب طلب کیا ہے۔ ان کے بقول بے گناہ کشمیریوں کو مبینہ طور پر دہشت گرد بناکر بھارتی فورسز کے ہاتھوں قتل کردیا جاتا ہے جو کہ دہشت گرد نہیں بلکہ عام شہری ہوتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور یورپی یونین سمیت انسانی حقوق کے بہت سے عالمی اداروں اور عالمی میڈیا نے بھی بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی تاریخ کی سنگین اور بدترین خلاف ورزیوں پر اپنی کئی رپورٹس جاری کی ہیں۔ لیکن ان معاملات پر بھی عالمی بے حسی کا غلبہ ہے۔
بھارت نے 5اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری پر شب خون مارا اور آرٹیکل 370 اور 35-Aکا خاتمہ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا جس کے تحت کشمیریوں کو اپنا علیحدہ آئین، علیحدہ پرچم اور تمام قانونی و آئینی معاملات میں علیحدہ نقطہ نظر رکھنے کی کم ازکم آئینی طور پر ہی سہی، مکمل آزادی تھی، لیکن ان آرٹیکلز کے خاتمے کے بعد یہ آزادی اور زیادہ سلب کرلی گئی۔ اُس کے بعد سے اب تک پانچ سو سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا ہے جبکہ 80 نوجوانوں کو دورانِ حراست شہید کیاگیا۔ڈھائی سالہ لاک ڈائون کے دوران 191 بچوں کو یتیم اور 113عورتوں کو بیوہ کیا گیا۔
سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جو کچھ اتنہا پسند ہندو عناصر بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتو ں کے ساتھ کررہے ہیں اُس پر ریاستی یا حکومتی سطح سے وہ اقدامات نہیں کیے جارہے جو ان انتہا پسندوں کو قانون کے کٹہرے میں لاسکیں۔ یہ شواہد بھی موجود ہیں کہ جو کچھ انتہا پسند ہندو طبقہ کررہا ہے اس پر اسے کسی نہ کسی شکل میں ریاستی وحکومتی سرپرستی حاصل ہے۔یہی وہ پہلو ہے جو بھارت کی داخلی سنگینی کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے، اوراسی پر اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ خاص طو رپر بھارت کے میڈیا میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے حوالے سے جو نفرت پائی جاتی ہے اس نے اقلیتوں کو عملی طور پر بھارت میں غیر محفوظ بنادیا ہے۔ اگرچہ بھارت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مودی حکومت کی انتہا پسندی یا ہندوتوا کی سیاست کو چیلنج کررہے ہیں، لیکن ان کی نہ تو میڈیا میں کوئی پذیرائی نظر آتی ہے اورنہ ہی ریاستی و حکومتی سطح پر ان کے بیانیے کو تحفظ دیا جارہا ہے۔
یہ صورتِ حال عالمی طاقتوں، انسانی حقوق کے اداروں اور سیاسی جماعتوں سمیت سول سوسائٹی و میڈیا کو بھی جھنجھوڑتی ہے کہ وہ ان تمام معاملات پر خاموشی کو توڑیں اور ایک مضبوط بیانیہ بھارت میں اقلیتوں کے تحفظ کے تناظر میں پیش کریں۔ انفرادی سطح پر تو آوازیں اٹھ رہی ہیں، لیکن ان انفرادی آوازوں کو اجتماعی آوازوں میں تبدیل کرنا ہوگا۔ خاص طور پر بھارت کی سول سوسائٹی اور دیگر سماجی طبقات یعنی فن کاروں، اداکاروں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں، دانشوروں اور تمام مذاہب کی پُرامن قیادت کو باہر نکلنا ہوگا اور مودی حکومت پر دبائو بڑھانا ہوگا کہ وہ ہندوتوا کی سیاست کے مقابلے میں تمام مذاہب یا اقلیتوں کے لیے تحفظ پر مبنی ماحول پیدا کرے۔ جو لوگ بھی انتہا پسندی یا ہندو مذہب کو بنیاد بناکر تشدد پر مبنی پالیسی اور عمل درآمد، یا ایکشن کو یقینی بناکر اقلیتوں کو دبائو میں لارہے ہیں یا ان میں خوف پیدا کرنے یا پُرتشدد عمل کی مدد سے لوگوں کی جان اور مال کو ختم کرنے کا ایجنڈ ا رکھتے ہیں، یا اس کا سرعام پرچار کررہے ہیں اُن کے خلاف ریاست کو بلاتفریق کارروائی کرنا ہوگی۔ عالمی برادری کو بھی بھارت کی موجودہ قیادت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ ان کا مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے تحفظ کا ایجنڈا نہ صرف بھارت بلکہ دنیا میں بھی تشویش کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔