نئے برس کا استقبال تباہ کن ’’منی بجٹ‘‘ کی آمد

سالِ گزشتہ غم اور خوشیوں کے ملے جلے امتزاج دے کر گزر گیا۔ ہم ہر سال کو الوداع کہتے اور سرزد غلطیوں پر نادم ہوکر سالِ نو پر نئے عہد کرتے ہیں، خود کو نئے سال کے موقع پر نئی یقین دہانی کراتے ہیں، مگر اب ازسرنو منصوبہ بندی کا وقت آن پہنچا ہے۔ اب خود کو بدلنے کا فیصلہ اور عہد کرنا ہوگا، آنے والے وقت کی اہمیت اور حساسیت کو بھانپ کر چلنا ہوگا، دوسرے کے کردار کو تاکنے کی نہیں بلکہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت پر زور دینا ہوگا۔2021ء نے تو ہمیں مواقع دیے کہ جو چاہتے ہو کرلو، تم کرسکتے ہو، یہ عمل کی دنیا ہے، یہاں کچھ بھی ناممکن نہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ منزل کو پانے کا عزم اور حوصلہ مضبوط ہو۔ خود احتسابی کا جذبہ ہو۔ اگر آنے والے کل کو روشن دیکھنا چاہتے ہو تو اپنی سوچ کو بدلو، ورنہ سال تو بدلتے رہیں گے ہم نہیں بدلیں گے۔ ہمیں اپنی سوچ، سمجھ اور انداز کو بدلنا ہوگا، ورنہ یہ سال بھی بیت جائے گا۔
سال تو بدل گیا لیکن کیا ہم خود بھی بدلیں گے؟کوئی تبدیلی ازخود آکر آپ کی چوکھٹ پر دستک نہیں دے گی۔ نئے سال کے استقبال کے ساتھ ساتھ ہمیں نئی منزلوں کا تعین کرنا ہوگا، ٹوٹے خوابوں کی کرچیوں کو سمیٹنے کا عہد کرنا ہوگا، آنے والے وقت کی کامیابیوں کو سمیٹنے کے رہنما اصولوں کا تعین کرنا ہوگا، کیونکہ اِس نئے سال نے ایک بار پھر نئی اُمیدوں کے ساتھ ہماری زندگیوں میں قدم رکھا ہے۔2021ء تو نہ صرف ملکِ پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے مشکل ترین اور تباہ کن ثابت ہوا۔ سال ِگزشتہ نے جاتے جاتے ’اومیکرون‘ کی تباہی کا نظارہ بھی کرلیا۔ گزشتہ برس کے آغاز سے ہی کورونا کی نت نئی اقسام سامنے آتی رہیں، آج بھی کورونا کی نئی اقسام کا چرچا ہے۔ عالمی وبا کا نشانہ بننے والی دنیا میں یہ مختصر جائزہ سیاست اور معیشت کو لاحق وباؤں کا احاطہ کرنے سے بھی قاصر ہے۔ سالِ نو کے آغاز پر آج ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ’اومیکرون‘ کا خاتمہ کب اور کیوں کر ہوگا؟
پاکستان میں عام آدمی کی فلاح کے لیے سماجی منصوبہ بندی اور معیشت بدترین دبائو کا شکار رہی، تاہم اس میں حکومت کی نااہلی کو بھی بہت دخل رہا، جس نے معیشت کی بہتری کے کسی بھی منصوبے کو غیر محرم سمجھ کر ہاتھ ہی نہیں لگایا۔ یہ محض الزام یا صحافتی دعویٰ نہیں بلکہ حکومتی دستاویزات کے مطابق تصدیق شدہ بات ہے کہ2021ء کے آغاز پر حکومت نے ملک کی تعمیراتی صنعت کو ایمنسٹی اسکیم دی اور کہا تھا کہ ہائوسنگ میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے 27 ماہ تک پوچھ گچھ نہیں ہوگی، ڈھائی لاکھ نوکریاں دینے اور186 ارب کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ۔ 27 ماہ کی مدت کا وعدہ فراموش کرکے نوکریاں تو کیا دینی تھیں، آج ایک سال کی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی کاروباری طبقے کو دی جانے والی درجنوں مراعات،سہولتیں اور عام صارف کی قوتِ خرید منی بجٹ کے سیلاب میں تنکے کی مانند بہا دی گئی ہے۔ اب نئے سال کے آغاز پر ایک جانب چار سو ارب کا ہیلتھ پروگرام دینے کا اعلان ہوا ہے، دوسری جانب منی بجٹ پیش کرکے مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نکال دیا گیا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کو یہ بات ماننا پڑی ہے کہ اِس مرتبہ ماضی کے مقابلے میں آئی ایم ایف کا پاکستان کو قرضہ دینے کے بارے میں رویہ غیرلچک دار اور انتہائی سخت ہے جس کی وجہ امریکہ کا دبائو ہے۔ جب کہ تحریک انصاف ملک سے غربت کے خاتمے کا منشور دکھا کر اقتدار میں لائی گئی، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک پر غیر ملکی قرضوں کا حجم ایک چوتھائی گنا اور مہنگائی دوگنا سے زیادہ کرکے رخصت ہوگی۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے جائے خودکشی کا دعویٰ کرنے والے وزیراعظم کی حکومت پیٹرولیم لیوی اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا بل آئی ایم ایف ہی کے دبائو پر لائی ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ وہ تو منی بجٹ کا حجم 700ارب کے ٹیکسوں پر مقرر کرنا چاہتا تھا، ہم نے اس کا راستہ روکا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی معیشت کے حوالے سے کارکردگی اطمینان بخش نہیں رہی۔ قرضوں کے حصول کے حوالے سے، خصوصاً حالیہ شرائط کے تحت آئی ایم ایف سے معاہدہ کسی بھی لحاظ سے ملکی معیشت کے لیے بہتر نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان خود غیرملکی قرضوں میں اضافے کو قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دے چکے ہیں۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف باتیں کرتے ہیں، عملی طور پر صفر ہیں۔ وہ 24ہزار ارب روپے کا قرض 47ہزار ارب روپے تک پہنچا چکے ہیں، گویا پاکستان نے ستّر سال میں24 ہزار ارب قرض لیا اور ان تین سال میں23 ہزار ارب قرض لیا گیا، جب کہ آئینی لحاظ سے اس اسمبلی کی مدت ابھی ڈیڑھ سال باقی ہے۔ حکومت قائم رہی تو یہ حد 60 ہزار ارب سے بھی بڑھ سکتی ہے۔
حکومت نے قومی اسمبلی میں جو منی بجٹ پیش کیا ہے اُسے بجٹ کہنا ہی زیادتی ہوگی۔ یہ تو ٹیکسوں کا گورکھ دھندا ہے۔ بجٹ میں تو کچھ اشیاء کی قیمتیں کم کی جاتی ہیں اور ٹیکس میں کچھ چھوٹ دی جاتی ہے۔ اس منی بجٹ میں ایسی کوئی چیز نہیں، بس ٹیکس ہی ٹیکس ہیں۔ ہوسکتا ہے پارلیمنٹ میں بحث کے دوران حکومت کو کچھ خیال آجائے اور وہ ریلیف پر آمادہ ہو، مگر یہ ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا قوم سے مذاق دیکھیے،کہتے ہیں کہ عوام پر اس 360 ارب کے منی بجٹ میں صرف دو ارب روپے ٹیکس لگایا گیا ہے، باقی تو اُن اشیاء پر ٹیکس کی چھوٹ ختم کی گئی ہے جو عام آدمی استعمال ہی نہیں کرتا۔ ہمارے ملک میں یہ ڈھنڈورا ہمیشہ سے پیٹا جاتا ہے کہ عام آدمی پر اثر نہیں پڑے گا، حالانکہ وطنِ عزیز میں ہر بوجھ اٹھاتا ہی عام آدمی ہے۔ جو باوسیلہ ہیں وہ تو اپنا بوجھ آگے منتقل کردیتے ہیں۔ غریب کہاں جائے؟ مہنگائی کو آگے کس پر ڈالے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس منی بجٹ میں 360 ارب روپے کے جو ٹیکس لگائے گئے ہیں اُن کا سارا بوجھ غریب عوام پر ہی پڑے گا۔ ابھی صرف منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش ہوا ہے، پاس بھی نہیں ہوا، مگر اشیاء کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں، اور مافیا نے بجٹ پاس ہونے سے قبل ہی صارفین کی کھال اتارنا شروع کردی ہے۔
ملکی تاریخ میں یہ پہلی حکومت دیکھی ہے جو ہر قسم کے ردعمل سے بے نیاز ہوکر ایسے فیصلے کررہی ہے جو عوام پر بجلی بن کر گر رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ عوام ان حکمرانوں کی نظر میں مٹی کے بے جان مادھو ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک ارب ڈالر کے لیے 360 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے پڑتے ہیں تو صرف ٹیکس ہی لگاؤ، آئی ایم ایف سے تو جان چھڑاؤ۔ وزراء یہ نئی کہانی لائے ہیںکہ ہمیں آئی ایم ایف کے پروگرام میں اس لیے رہنا ہے کہ ہم امریکہ کو ناراض نہیں کرسکتے کیونکہ اس وقت امریکہ ہی ہے جو ہماری ایکسپورٹ کا بڑا خریدار ہے، باقی ممالک تو ہاتھ کھڑے کرچکے ہیں، اس لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ مجبوری ہے۔ اگر یہ بات مان لی جائے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ صرف انہی ممالک سے خریداری کرتا ہے جو آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہوں؟ حالانکہ چین اس وقت امریکی مارکیٹ کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے، اس کے مال سے امریکی مارکیٹیں بھری پڑی ہیں۔ امریکہ باوجود کوشش کے چین کی درآمدات پر پابندی نہیں لگا پا رہا۔ مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں جو ممالک آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل گئے ہیں، انہوں نے ہی ترقی کی ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ منی بجٹ کو دیکھ کر پہلا سوال یہی ذہن میں اُبھرتا ہے کہ ملک میں کوئی سستی شے تو نہیں رہ گئی؟ چن چن کے ایسی اشیاء پر جنرل سیلز ٹیکس لگایا گیا ہے جن کی طرف پہلی حکومتیں دیکھتی بھی نہیں تھیں۔ اس منی بجٹ نے تو کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اس بجٹ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ واحد خوش خبری سنائی ہے کہ اس میں پرانے کپڑوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ جس ملک کا وزیر خزانہ یہ کہے کہ انگریزوں کی اترن پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا، اُس کی معاشی فکر کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ منی بجٹ کے حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین محمد اشفاق احمد کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے سے متعلق گواہی بہت اہم ہے، منی بجٹ میں بنیادی غذائی اشیاء پر ٹیکس استثنا برقرار رکھا ہے، 343 ارب میں سے مشینری پر 112 ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے، اشیاء پر 71 ارب روپے اور فارما سیوٹیکل پر 160 ارب کا استثنا واپس لے لیا گیا ہے، جبکہ مشینری اور فارما پر ٹیکس ریفنڈ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے اور دعویٰ ہے کہ عام آدمی پر صرف دو ارب روپے کا بوجھ پڑے گا، جب کہ منی بجٹ میں درآمدی موبائل فون، بائی سائیکل، درآمدی زندہ جانور، اسٹیک میٹ، فش پر ٹیکس چھوٹ واپس لی گئی ہے۔ ان کے علاوہ درآمدی سبزیاں، چیز، بیکری آئٹمز بھی شامل ہیں۔ مزید یہ کہ میگزین، فیشن جرنلز، کاٹن سیڈ، آئل کیک پر استثنا ختم کیا گیا، جبکہ لائیو انیمل، پولٹری فیڈ اور میز سیڈ سے بھی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے۔ اس وقت فارما سیکٹر کا 700 ارب میں سے 530 ارب روپے کا کاروبار غیر دستاویزی ہے اور اس کا ملکی ریونیو میں حصہ بھی بہت کم تھا۔ حکومت فارما سیکٹر میں بھی ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لے کر آئے گی، حکومت چاہتی ہے کہ ادویہ کی قیمتوں میں کمی ہونی چاہیے، حکومت امپورٹ کی سطح پر سیلز ٹیکس وصول کرے گی، ایک ہفتے کے اندر ریفنڈز دیے جائیں گے، درآمدی بل پر دبائو کم کرنے کے لیے 1000 سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے۔ گاڑیوں کی صنعت میں مختلف لابیز کام کررہی ہیں، یہ لابیز اور گروپ مختلف وزارتوں سے مل کر ٹیکس مراعات لیتے ہیں، آئی ایم ایف نے انڈسٹری کو مراعات دینے کی مخالفت کی ہے۔ آٹوموبائل انڈسٹری کو ٹیکس مراعات دینے کا معاشی جواز نہیں ہے۔
منی بجٹ تو ابھی حال ہی میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے، اس کی بازگشت 6 ماہ سے سنی جارہی تھی۔ اب بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔
تحریک انصاف جب مرکز میں اقتدار میں آئی اُس وقت ملک میں فی کس آمدنی312 ڈالر تھی، جو اب کم ہوکر250 ڈالر رہ گئی ہے۔ حکومت ساڑھے تین سال کی مدت کے بعد بھی اپنی معاشی ترجیحات سامنے نہیں لاسکی، اس کے وزرائے خزانہ کی وکٹیں تھوڑے تھوڑے وقفے سے گرتی رہی ہیں، سیکرٹری خزانہ بھی تبدیل کیے جاتے رہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ ماضی کی اکنامک ٹیم نے آئی ایم ایف کے ساتھ بہتر مذاکرات نہیں کیے۔ حکومت کو یقین تھا کہ وہ اپنے حلیفوں کی مدد سے ایوان میں پیش ہونے والا بل منظور کرالے گی۔ ماضی کی طرح ایوان میں ہنگامہ آرائی تو ہوگی مگر حکومت اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اور یہی کچھ ہوا، اپوزیشن نے بھی اس کا پورا پورا ساتھ دیا اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے کسی ایک رکن نے بھی اس منی بجٹ پر کوئی قابلِ عمل تجویز بھی ایوان میں نہیں رکھی، محض شور شرابے کو ہی عوام کی نمائندگی کا حق سمجھ کر اسی پر اکتفا کیاگیا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم پر مشتمل قرضے کی قسط حاصل کرنے کے لیے حکومت مالیاتی ادارے کی شرائط پر مبنی بجٹ تجاویز پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی پابند تھی، کیونکہ 6ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کی بحالی کے لیے درکار پالیسیوں اور اصلاحات پر پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ملکی تاریخ کی سخت ترین شرائط کے تحت جو معاہدہ طے پایا ہے، اس سے مزید ایک ارب 5کروڑ 90 لاکھ ڈالر ملنے سے فنڈ کی مجموعی رقم 3.027 ارب ڈالر ہوجائے گی جس کے لیے حکومت نے ضمنی فنانس بل قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ بل کی رو سے 343 ارب روپے میں سے 71ارب روپے کی چھوٹ مکمل ختم کرنے اور باقی میں کمی کرنے سمیت اشیاء و خدمات پر اضافی ٹیکس عائد کیا گیاہے جن میں کمپیوٹر، آیوڈین نمک، درآمدی گوشت، بیکری کی مصنوعات، لگژری اشیاء، بچوں کا دودھ، نیوز پرنٹ، کتابوں، سلائی مشینوں، کپاس کے بیج، ادویہ کے خام مال، پولٹری مصنوعات، کوکنگ آئل، پلانٹ اور مشینری کی درآمد، زندہ جانوروں پر 17فیصد جی ایس ٹی، ڈرائی کلینرز، کار ڈیلرز، آٹو ورکشاپس، صنعتی مشینری، شادی ہالوں، کیٹرنگ، پنڈال، آئی ٹی خدمات، ویب ڈیزائن، ہوسٹنگ، نیٹ ورک ڈیزائن، کال سینٹرز پر پانچ فیصد ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ لیپ ٹاپ، نوٹ بکس، درآمدی سائیکلز، پاور مشینری، سولر اور ونڈ انرجی کی مشینری پر سیلز ٹیکس نافذ ہوگا۔ حکومت سمجھتی ہے کہ یہ اشیاء و خدمات لگژری کٹیگری میں آتی ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ منی بجٹ سے امیر ہی نہیں بلکہ درمیانے اور نچلے طبقے کے لوگ بھی متاثر ہوں گے، اب تعلیم مزید مہنگی ہوگی، یہاں تک کہ سلائی کڑھائی کرکے اپنے کنبے کا پیٹ پالنے والے گھرانے بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ بچوں کے دودھ، مرغی، دودھ، دہی، لال مرچ، گھی، ڈبل روٹی پر 17فیصد سیلز ٹیکس نافذ ہوگا، ادویہ سازی میں استعمال ہونے والی اشییاء پر سیلزٹیکس لگانے سے علاج معالجہ مزید مہنگا اور صنعت کا پہیہ جام ہوگا۔ آئی ایم ایف سے مزید ایک ارب ڈالر لینے کے لیے حکومت نے منی بجٹ پیش کرکے عوام کو دیوار سے لگا دیا ہے۔
وزارتِ خزانہ نے ماہِ نومبر کے اواخر میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد بیرونی تجارت میں توازن لانے کی خاطر غیر ضروری درآمدات کی حوصلہ شکنی کی غرض سے لگژری اشیاء پر ڈیوٹی بڑھانے یا عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا اور ساتھ ہی دعویٰ کیا تھا کہ اشیائے خورونوش منی بجٹ کی زد میں نہیں آئیں گی، لیکن بہت سی اہم اشیاء پر 17فیصد سیلز ٹیکس نے ان حکومتی دعووں کی نفی کی ہے۔ حکومت کا نکتہ نظر یہ ہے کہ اسے تنخواہوں، غیر ملکی قرضوں کی اقساط کی ادائیگی، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے رجحان اور گردشی قرضوں سمیت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط پوری کرنا ناگزیر ہے، مگر ملک میں شدید ترین مہنگائی، تنخواہوں اور اجرتوں میں کمی جیسے معاملات جوں کے توں ہیں۔ حکومت کو وزیروں، مشیروں کی تعداد اور غیر ضروری سرکاری اخراجات میں ممکنہ حد تک کمی کرکے اس کا فائدہ بنیادی اشیائے ضروریہ پر زرِتلافی کی شکل میں عوام کو منتقل کرنا چاہیے تھا۔ اپوزیشن منی بجٹ کو ملک کے لیے تباہی کا نسخہ قرار دے رہی ہے تاہم قومی اسمبلی سے منظوری سے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری ہوجائیں گی اور مطلوب فنڈز کے اجراء کی راہ ہموار ہو جائے گی جس کے باعث مہنگائی کا سیلاب آئے گا۔ اپوزیشن جس نے اسمبلی میں حکمت عملی دکھائی اور آئی ایم ایف کے سامنے دیوار نہیں بنی مگر عوامی حلقوں میں ضرور دھما چوکڑی مچائے گی۔ ایک بات تو پوری طرح طے ہے کہ ہماری معیشت، اور امور خارجہ سے جڑی ہوئی حکمت عملی… یہ سب کچھ نام کی حد تک خودمختاری کے کھونٹے سے بندھی ہوئی ہیں۔ ہماری حکومتوں کے فیصلے امریکہ، عالمی بینک، آئی ایم ایف اور قرض فراہم کرنے والے دیگر ملکوں کے اشارۂ ابرو کے محتاج رہتے ہیں۔ عمران خان بھی اب سیاست کے دائو پیچ سمجھ چکے ہیں اور وہ بھی اب روایتی سیاست دانوں کی طرح فیصلے کررہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ سیاست میں رہنا ہے تو انہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ کی پناہ میں آنا ہوگا، آج اگر انہیں منی بجٹ کے باعث سیاسی نقصان ہوا تو کل فائدہ بھی ہوسکتا ہے۔ ملکی سیاست کا حال یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی باری اور اقتدار چاہتا ہے اور اس کے لیے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہر معاہدہ کرنے کو تیار ہے۔ مسلم لیگ(ن) بہت مطمئن دکھائی دے رہی ہے کہ اس کی قیادت واپس آئے گی، اب نااہل ہونے کی باری عمران خان کی ہے، یہ نااہل ہوں گے تو نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جائے گا،کوشش یہی ہے کہ عمران خان کو کسی طرح نااہل قرار دیا جائے۔ ویسے بھی آج کل ویڈیوز لیک ہورہی ہیں، لہٰذاکچھ بھی ریلیز ہوسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کا بھی موڈ اچھا نہیں ہے، سرپرست بھی مطمئن نہیں رہے، فارن فنڈنگ کیس بھی تلوار کی مانند لٹک رہا ہے، حمزہ شہباز کا یہ بیان بلامقصد نہیں ہے کہ ہم عمران خان کے خلاف ہر ممکن قانونی جنگ لڑنے کو تیار ہیں۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم بھی ایک خاص حکمت عملی کے تحت ہی آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کی حکمت عملی یہی ہے کہ عمران خان پر دباؤ بڑھائے رکھا جائے تاکہ وہ کچھ نہ کرسکیں۔ پی ڈی ایم میں بھی اتفاق صرف اسی نکتے پر ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ پی ڈی ایم میں شامل ہر جماعت کے الگ الگ مفادات اور ترجیحات ہیں۔
سال 2021ء تو گزر گیا، مگر2022ء چیلنجنگ اور فیصلوں کا سال ہوگا۔ اس سال ملک میں اہم عہدے پر بہت اہم تقرری ہونی ہے، دیکھنا ہے یہ تقرری عمران خان کرتے ہیں یا کوئی اور وزیراعظم کرتا ہے۔