برطانوی اور امریکی سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر یہ خیال پیش کیا ہے کہ نئے پودے اور درخت لگانے کے علاوہ اگر جنگلوں کو بھی وقفے وقفے سے منظم انداز میں آگ لگائی جاتی رہے تو اس سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کم کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ آن لائن ریسرچ جرنل ’’نیچر جیو سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلوں میں قدرتی طور پر لگنے والی آگ اکثر انسان کے قابو سے باہر ہوجاتی ہے جس سے بڑے پیمانے پر کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج ہوتی ہے۔ عموماً یہ آگ اُسی وقت بجھتی ہے جب جنگل پوری طرح سے جل کر بھسم ہوچکے ہوتے ہیں، اور نتیجتاً فضائی آلودگی بڑھنے کے ساتھ ساتھ مٹی کی زرخیزی بھی کم ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے آئندہ وہاں پر نئے پودوں اور درختوں کا اُگنا بھی خاصا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر جنگلوں میں درختوں کو انسانی نگرانی میں ایک مخصوص وقت تک جلانے کے بعد بجھا دیا جائے تو یہ عمل ماحول کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ اپنی تحقیق میں ماہرین نے کہا کہ جنگلوں میں مصنوعی یعنی ’منضبط آتش زدگی‘ (کنٹرولڈ فائر) کا درجہ حرارت قدرتی آتش زدگی کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔
مصنوعی آتش زدگی کے بعد بڑی تعداد میں چارکول (نامیاتی کوئلے) کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنتے ہیں جن کے درمیان میں کاربن سے بھرپور مواد موجود ہوتا ہے۔ کاربن سمیت، اپنے اسی نامیاتی مادّے کی بدولت یہ مٹی میں پائے جانے والے مفید جرثوموں اور پھپھوندیوں کو تقویت پہنچاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق منضبط آتش زدگی سے بعض علاقوں میں گھاس کی نشوونما بھی زیادہ ہوتی ہے، جس کی جڑوں میں زیادہ نامیاتی مادّہ ہوتا ہے۔ گھاس کی جڑوں میں زیادہ نامیاتی مادّے کی صورت میں کاربن کی بھی زیادہ مقدار زیرِ زمین محفوظ ہوجاتی ہے جو بصورتِ دیگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شکل میں خارج ہوکر فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ غرض یہ کہ جنگلات میں چھوٹے پیمانے پر مصنوعی و منضبط آتش زدگی سے مٹی کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہوئے ماحولیاتی نقصانات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔