یہ لیجیے سال کا آخری دن بھی آن لگا۔ آج ۳۱ دسمبر ۲۰۲۱ء ہے،کل یکم جنوری ۲۰۲۲ء ہوگی۔ یعنی کل سنہ تبدیل ہو جائے گا۔ کچھ لوگوں کے سِن بھی بدل جائیں گے۔ ہمارے جو دانش وَر صرف انگریزی زبان کو اُردو زبان پر مسلّط کیے رکھنے کے پُرجوش حامی ہیں وہ نوٹ فرمائیں کہ اُردو نے انگریزی کے لفظ ’جِینُوَری‘ (January)کی تارید کر کے، یعنی اسے اُردو کا(پا) جامہ پہنا کر اس کا تلفظ جَنْوَری‘ کر لیا ہے۔ یہ بھی نوٹ کریں کہ انگریزی کا لفظ ‘Note’ تلفظ کی کسی تبدیلی کے بغیر ہی جوں کا توں اپنا لیا گیا ہے۔ ’یاد داشت، ’لکھ لینے‘ اور ’یاد رہے‘ کے معنوں میں بھی اور ’زرِ کاغذی‘ کے معنوں میں بھی۔
ہم لکھتے ’سنہ‘ ہیں، مگر پڑھتے ’سَن‘ ہیں۔یہ لفظ اُس وقت لکھا جاتا ہے جب کسی سال کے اعداد لکھنا مقصود ہوں۔ مثلاً سنہ ۲۰۲۱ء۔ ہاتھ سے کتابت کی جاتی تھی تو’سنہ‘ کے سین کو اتنا لمبا کھینچا جاتا کہ سال کا پورا عدد سین کے اوپر ہی آ جاتا تھا۔ جیسے ۲۰۲۲ء ۔یوں ’ن‘ کا نقطہ کھا جایا کرتے تھے،سنہ عربی سے آیا ہے۔عربی میں یہ لفظ’سَنَۃٌ‘ ہے۔اسے’سنوۃ‘ بھی لکھتے ہیں۔ جمع سُنون، سِنین اور سَنوات ہیں۔قرآنِ مجید میں سَنَۃ ً اور سَنَۃٍ کے الفاظ جا بجا ملتے ہیں۔ سِنین بھی کئی مواقع پر آیا ہے۔جب ہم کسی سال کا ذکر کر رہے ہوں، سال شمار کر رہے ہوں یا کسی سال کا عدد لکھ رہے ہوں تو ایسے موقع پر ’سنہ‘ ہی لکھنا چاہیے، سَن لکھنا درست نہیں سمجھا جاتا۔پھر بھی کچھ لوگ ’سَن‘ ہی لکھتے ہیں۔
سین پر زبر کے ساتھ ’سَن‘ کثیر المعانی ہے۔سَن ایک تو اُس چھال کو کہتے ہیں جس سے رسی، سُتلی اور ٹاٹ بنایا جاتا ہے۔کئی پودے ایسے ہیں جن سے یہ چھال حاصل کی جاتی ہے۔ ان پودوں کے سَنٹھوں یا خشک ڈَنٹھلوں (یعنی سوکھے تَنوں) کو تالاب میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جب یہ تنے نرم پڑ جائیں تو آہستگی سے چھال اُتار لی جاتی ہے۔ یہی چھال ’سَن‘ کہلاتی ہے۔اگر یہ چھال ’پٹ‘ یا ’پَٹوا‘کے پودے سے حاصل کی جائے تو ’پٹ سَن‘ کہی جاتی ہے۔ اچھی سُتلیاں پٹ سَن ہی کی بنتی ہیں۔ جسم پر کوئی گندگی یا غلاظت لگ جائے تو عوامی زبان میں اس کے لیے بھی ’سَن جانا‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً: ’’پاؤں کیچڑ سے سَن گئے‘‘۔
سَن کا ایک اور مطلب تیراور نیزے وغیرہ کے تیزی سے گزرجانے کی آواز ہے۔ مثلاً: ’’گولی میرے کان کے پاس آکر سَن سے گزر گئی‘‘۔ ’سَن سَناہٹ‘ اسی آواز کے تسلسل کو کہتے ہیں۔ ہوا کی آواز بھی سنسناہٹ کہی جاتی ہے سحرؔ کا شعر ہے:
ہائے کیا ابر ہے، کیا باغ ہے، کیا سبزہ ہے
بوندیاں پڑتی ہیں، چلتی ہیں ہوائیں سَن سَن
اُداسی اور خاموشی میں کانوں کے اندر ’سائیں سائیں‘ کی آوازآتی ہے۔ یہی آواز ناصرؔ کاظمی کے اُس شعر سے بھی آرہی ہے جس کا پہلا مصرع ہے: ’’دِل تو میرا اُداس ہے ناصرؔ‘‘۔اس کیفیت کو سنّاٹا کہتے ہیں۔ سنّاٹے کو ’خاموشی کی آواز‘ سمجھ لیجیے۔ دیکھیے میر انیسؔ نے اپنی ایک مشہور غزل میں سین سے شروع ہونے والے دو الفاظ’ سُونے‘ اور’ سنّاٹے‘ کو ایک ہی مصرعے میں سمو کرکیا عمدہ صوتی نقشہ کشی کی ہے:
بلا وجہ نہیں سُونے گھروں کے سنّاٹے
مکان یاد کیا کرتے ہیں مکینوں کو
انیسؔ کی اس غزل کو ’مشہور غزل‘ کہنے کا باعث یہ ہے کہ اس طویل غزل کے کئی اشعار ضرب المثل بنے، حتیٰ کہ مقطع بھی:
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
جیسا کہ اوپر عرض کیا،سنّاٹے میں کانوں کے اندر ’سائیں سائیں‘ یا ’سَن سَن‘ کی آواز گونجتی ہے۔پَس،سال یا برس کے معنوں میں ’سَن‘ لکھنا فصحا کے نزدیک نا مناسب ہے۔سَن کے دیگر معنوں سے فرق کرنے کے لیے سنہ لکھنا ہی احسن ہے۔ اوپر ہم نے لکھا ہے کہ کچھ لوگ سنہ کو سن بھی لکھتے ہیں۔ بحرؔ کا ایک دلچسپ شعر ملاحظہ فرمائیے۔ غالباً اضافت کی وجہ سے اس میں سنہ کا املا سَن لکھنا پڑا:
سبق میں نے پڑھا اُستاد سے جس روز ابجد کا
کھلا میمِ محمدؐ سے سَنِ مبعوث احمدؐ کا
(اعدادِ ابجد میں میم کا عدد چالیس ہے۔ رسول اللہؐ پر پہلی وحی آپؐ کی عمر مبارک کے چالیسویں سال میں نازل ہوئی تھی۔)
عمر کی مقدار کے لیے اُردو اور فارسی میں (سین پر زیر کے ساتھ) ’سِن‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثنوی ’’سحرالبیان‘‘ (مولوی میرؔحسن) کا یہ شعربھی ضرب المثل بن چکا ہے:
برس پندرہ یا کہ سولہ کا سِن
جوانی کی راتیں، مُرادوں کے دِن
’سِن‘ کا اُردو محاوروں میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ بچہ سمجھ دار ہوجائے توکہتے ہیں :’ سِنِ تمیزکو پہنچ گیا‘۔ بالغ ہو جائے تو ’سِنِ بلوغ‘ کو پہنچا اور جوان ہوا تو ’سِنِ شعور‘ کو۔ عموماً چالیس برس یا اس سے اوپر کے لوگ ’سِنِ رُشد‘ (ہدایت پاجانے کی عمر) کو پہنچے ہوتے ہیں۔ مگریہی لوگ جب بڑھاپے کی طرف بڑھتے بڑھتے’ سِن رسیدہ‘ ہو جاتے ہیں، تب بھی محبوب ’کم سِن‘ ہی تلاش کرتے ہیں۔ امیرؔ مینائی کایہ شعر پڑھیے اور دیکھیے کہ بزرگوار مالی چاچا کو کیا ہدایت فرمارہے ہیں:
باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کم سِن کے لیے
سنہ،سِن اور سال کے آخری دن کا ذکر ہو رہا ہے تو لفظ ’دِن‘ کے استعمال پر بھی امیرؔ کی اسی غزل کے ایک اور شعرسے لطف اُٹھا لیجیے:
وصل کا دن اور اتنا مختصر؟
دن گنے جاتے تھے اِس دن کے لیے؟
’دن گننا‘ انتظار کی مدّت کاٹنا ہے۔اس انتظار میں ہر اِمروز (یعنی آج کادن) فردا (یعنی آنے والی کل کا دن) بنتا چلا جاتا ہے۔ مگر وعدۂ فردا کے پورا ہونے کا انتظار ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔حتیٰ کہ مجنوں ؔ گورکھپوری کو چیخ کر فریاد کرنی پڑتی ہے:
پسِ فردائے آخر بھی الٰہی کوئی فردا ہو
قیامت آگئی وہ بے وفا اب تک نہیں آیا
محاوروں کے استعمال کی بات چلی ہے تو ایک اور محاورہ ہو جائے۔ ’’کسی کی دُھن میں ‘‘ پڑجانے کا مطلب ہے کہ کسی شخص یا کسی مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش، جدوجہد اور سعیِ پیہم میں اس طرح کھو جانا کہ کسی بات کا ہوش ہی نہ رہے۔ اسی طرح ’’اپنی دُھن‘‘ کا ہو رہنے کے معنی یہ ہیں کہ جس بات کی لگن لگ جائے ، اس مقصد کے سوا دنیا و ما فیہا کی کسی چیز سے کوئی تعلق باقی نہ رہے۔ اسی غزل میں دیکھیے کہ مجنوںؔ گورکھپوری نے ’تیری دُھن‘ اور ’اپنی دُھن‘ کے متضاد محاوروں سے کیاحسن پیدا کیا ہے۔ زبان کا شعر اِسے کہتے ہیں:
تِری دُھن میں گیا تھا سوئے صحرا تیرا دیوانہ
وہ شاید اپنی دُھن کا ہو رہا، اب تک نہیں آیا
اب آپ اس شعر پر(اپنا) سر دُھنتے رہیے۔ ہم تو چلے۔