کتاب
:
عہدِ ظلمات
(برصغیر میں برطانوی سلطنت)
مصنف
:
ششی تھرور مترجم :عابد محمود
صفحات
:
350 قیمت:1200 روپے
ناشر
:
عکس پبلی کیشنز، لاہور
رابطہ
:
030048275000
پیش نظر کتاب ششی تھرور کی کتاب An Era of Darkness: The British Empire in India کا اردو ترجمہ ہے ۔ششی تھرور مشہور سفارت کار اور ہندوستانی سیاست دان ہیں۔ طویل ڈپلومیٹک کیرئیر کے بعد آج کل سیاست میں سرگرم ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔مئی 2015ء میں ششی تھرور کی آکسفورڈ میں ہونےوالی ایک تقریر اور مکالمہ بعنوان: ”برطانیہ کے ذمہ اپنی سابقہ نو آبادیات کا تاوان واجب الادا ہے“۔سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اور اس کی حمایت اور مخالفت میں سینکڑوں مضامین لکھے گئے۔ جس کے بعد ششی تھرور نے اپنی اس تقریر کو پیش نظر کتاب کی شکل دی۔
دیباچے میں فاضل مصنف نے آکسفورڈ کی تقریر اور اس پر ہونے والے ردِ عمل پر روشنی ڈالی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ تاریخ نہ عذر خواہی کے لیے ہے نہ ہی انتقام کے لیے۔ مصنف نے برطانوی سلطنت کی ناانصافیوںکو پوری طرح پیش کرنے کے ساتھ ساتھ برطانوی راج کے حق میں دلائل کو بھی مد نظر رکھا ہے اور ان پر گفتگو کی ہے۔البتہ مصنف کی سیاسی وابستگی کے باعث، کتاب میں انڈین نیشنل کانگریس کا نقطہ نظر غالب نظرآتا ہے۔
پیش نظر کتاب درجِ ذیل آٹھ ابواب پر مشتمل ہے: 1۔ ہندوستان کا مالِ غنیمت، 2۔ کیا برطانیہ نے ہندوستان کو سیاسی وحدت عطا کی؟ 3۔ جمہوریت، پریس، پارلیمانی نظام اور قانون کی حکمرانی، 4۔ حکومت کرنے کے لیے تقسیم کرو، 5۔ روشن خیال استبدادی حکومت کا افسانہ، 6۔ سلطنت کا باقی ماندہ کیس، 7۔ آمدن و خرچ کا (نا) گوشوارہ (ام) بیلنس شیٹ: کوڈا، 8۔ نو آبادیت کے بعد کی ابتر زندگی۔
ششی تھرور نے اس کتاب میں ہندوستان میں ہونے والی استعماری لوٹ مار کے مختلف طریقوں جیسا کہ ہندوستان کے قومی وسائل کا برطانیہ کی جانب نکاس، جواہرات کی لوٹ مار، ہندوستانی ٹیکسٹائل، دھات اور جہاز سازی کی صنعت کی بربادی، زراعت کی نئی منفی شکل کی ترویج اور استعماری مقاصد کے حصول کے لیے تعلیمی پالیسی کی تشکیل وغیرہ کا تجزیہ کرتے ہوئے جامع اور مانع دلائل سے برطانوی راج کے مغربی اور ہندوستانی عذر خواہوں کے برطانوی حکومت کے مفروضہ فوائد بشمول جمہوریت، قانون کی حکمرانی، ہندوستان کی سیاسی وحدت اور ریلوے کا پول کھولا ہے۔ ساتھ ہی انگریزی زبان، چائے، کرکٹ اور کارپوریٹ بزنس جیسےنوآبادیت کے چند ناقابلِ تردید فوائد پر بھی روشنی ڈالی ہے جو کہ بہرحال استعمار زدہ کی بجائے استعمار کار کے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے متعارف کروائے گئے تھے۔
فاضل مصنف لکھتے ہیں کہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے سے پہلے بنگال، مسولی پٹنم، سورت اور مالا بار کی کالیکٹ اور کویلون کی بندرگاہوں پر ایک ابھرتی ہوئی جہاز سازی کی صنعت تھی اور ہندوستانی جہاز بحیرہ عرب اور خلیج بنگال میں مصروف کار تھے۔لیکن برطانوی راج کے اقدامات نے ہندوستانی تجارت، جہاز رانی اور جہاز سازی کی صنعت تباہ کردی ۔ برطانوی راج کے برے اثرات محض یہیں تک محدود نہ تھے۔ محاصل (اور مالِ مسروقہ کو ٹیکس کا نام دینا) برطانوی استحصال کا پسندیدہ طریقہ تھا۔ 1765ء اور 1815ء کے درمیان، برطانیہ نے ہر سال تقریباً ایک کروڑ اسی لاکھ پونڈ ہندوستان سے نکالے۔ ہندوستان میں برطانوی لوٹ مار کس درجے اور پیمانے کی تھی، اسے ہندوستان سے حاصل شدہ دولت کے انگلینڈ پر مرتب ہونے والے اثرات سے جانچا جاسکتا ہے۔انیسویں صدی کے آخر تک، ہندوستان برطانوی محاصل کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ ہندوستان، برطانوی برآمدات کا دنیا میں سب سے بڑا خریدار اور اپنے خرچ پربرطانوی سول سرونٹ اور فوجیوں کا خاصی بڑی اجرت پر ملازمت کا ذریعہ بھی تھا۔برطانیہ کا صنعتی انقلاب ہندوستان کی پھلتی پھولتی مصنوعات سازی و دستکاری کی صنعت کی تباہی پر منتج ہوا۔
ہندوستان میں برطانوی سامراجیت کے ورثے میں، عموماً سب سے اعلیٰ مقام سلطنت کی طرف سے ہندوستان کو قانونِ تعزیرات عطا کرنے کو دیا جاتا ہے، جسے میکالے نے ْمفتوحہ نسل کے لیے قانون سازی کے تسلیم شدہ مقصد کے ساتھ تیار کیا۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برطانوی ہند میں انصاف بالکل بھی اندھا نہیں تھا، یہ مدعا علیہ کی جلد کے رنگ کے بارے میں بہت مستعد تھا۔انگریز کے ہاتھوں ہندوستانی کی موت ہمیشہ محض ایک حادثہ ہی ہوتی اور ایسا انگریزوں کے ساتھ ہوتا تو ہندوستانیوں کے افعال ہمیشہ مہلک جرائم ثابت ہوتے۔ نوآبادیاتی ‘ قانون کی حکمرانی گورے آباد کاروں، اشرافیہ اور مردوں کے حق میں کام کرتی تھی۔ نسلی امتیاز قانونی تھا؛ محض گوروں کے لیے کھولے گئے کلبوں کے ساتھ ساتھ، کافی سارے برطانوی ہوٹلوں اور دوسری عمارتوں پر ‘ہندوستانیوں اور کتوں کا داخلہ ممنوع ہے جیسی تحریری علامتیں تھیں۔ (انھی میں سے ایک، واٹسن ہوٹل بمبئی سے نکالے جانے کا تجربہ تھا، جس نے جمشید جی ٹاٹا کو اس وقت کے دنیا کے عمدہ اور آسودہ ترین ہوٹلوں میں سے ایک، تاج محل تعمیر کرنے پر مائل کیا، جو ہندوستانیوں کے لیے کھلا ہوا تھا)۔ چونکہ قانون کی بالادستی کا مقصد ہندوستان پر برطانوی قبضے کا دوام تھا، اس لیے اسے سامراجی حکمرانی کے آلے کے طور پر اپنایا گیا تھا۔ سیاسی اختلافات کو مختلف ضابطوں کے ذریعے قانوناً دبا دیا جاتا۔ تعزیراتی قانون میں ریاست سے اختلاف کے متعلق جرائم کی انچاس شقیں شامل تھیں (اور موت سے متعلقہ جرائم کی صرف گیارہ) ۔
بہت سے لوگوں، بشمول متعدد انگریز نواز ہندوستانیوں کا یہ میلان رہا ہے، کہ برطانوی نوآبادیاتی حکومت کو فی الواقع مہربان سمجھیں، ‘روشن خیال استبداد کی ایک صورت جس کا امتیازی وصف اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی روشن خیالی تھا۔ اس نقطہ نظر کے مطابق، برطانوی چاہے سامراجی تھے جنھوں نے ہندوستانیوں کو جمہوریت سے محروم رکھا، لیکن انھوں نے اپنی رعایا کی بہتر بہبود کے لیے، بڑی فراخدلی اور حکمت سے حکومت کی۔ جب کہ بہت سی واضح مثالیں، قحط جو انگریزوں نے پیدا کیے اور بگاڑے، ٹرانسپورٹیشن کے ذریعے ہندوستانیوں کی جبری نقل مکانی اور معاہداتی مشقت کا نظام اور سفاکیت جس سے اختلاف رائے کو کچلا گیا۔
فاضل مصنف لکھتے ہیں کہ برطانوی راج کے دوران تین سے ساڑھے تین کروڑ ہندوستانی ناحق فاقوں سے مارے گئے۔ حتیٰ کہ جب قحط پھیل چکا تھا، لاکھوں ٹن گندم ہندوستان سے برطانیہ برآمد کی گئی۔ جب ریلیف کیمپ بنائے گئے تو باشندوں کو بمشکل ہی خوراک مہیا کی گئی اور تقریباً سارے ہی مارے گئے۔ قحط، جبری نقل مکانی اور درندگی: تین مثالیں ہیں کہ کیوں (باقی صفحہ 41پر)
ہندوستان پر برطانوی حکمرانی، استبدادیت یا کچھ بھی اور تھی لیکن روشن خیالی نہیں تھی۔
یہ بات درست ہے کہ نوآبادیاتی نظامِ حکومت کو سمجھے بغیر برصغیر کے بیشتر سیاسی، سماجی اور مذہبی مسائل کا تجزیہ ادھوری سچائی سامنے لاتا ہے۔نوآبادیت اور استعماریت کے موضوع پر اس عمدہ کتاب کا ترجمہ ماہر قانون دان اور قانون کے استاد عابد محمود نے کیا ہے۔ کتاب کے آخر میں حوالہ جات اور کتابیات اصل کتاب کے مطالق انگریزی ہی میں دیے گئے ہیں۔ علاو ہ ازیں فاضل مترجم نے جہاں ضرورت محسوس کی ہے وہاں خود بھی حواشی تحریر کیے ہیں۔اپنے موضوع پر اس اہم کتاب کے ترجمے اور اشاعت کے لیے جناب عابد محمود اور عکس پبلی کیشنز لائقِ تحسین ہیں۔