اپنا اپنا پاکستان

کتاب
:
اپنا اپنا پاکستان
مصنف
:
ڈاکٹر منصور احمد باجوہ
صفحات
:
264 قیمت:350 روپے
ناشر
:
ادارہ معارف اسلامی منصورہ ملتان وڈ لاہور 54790
فون
:
042-35252475-76
042-35419520-24
ای میل
:
imislami1979@gmail.com
ویب گاہ
:
www.imislami.org
تقسیم کنندہ
:
مکتبہ معارف اسلامی منصورہ ملتان روڈ، لاہور 042-35252419
042-35419520-24

ڈاکٹر منصور احمد باجوہ کے تحریر کردہ عمدہ کالموں کا مجموعہ ’’اپنا اپنا پاکستان‘‘ کے عنوان سے طبع کرکے ادارہ معارف اسلامی نے اردو ادب کی ثروت میں گراں قدر اضافہ کیا ہے، حافظ محمد ادریس اپنے تعارف میں تحریر فرماتے ہیں:
’’جناب منصور احمد باجوہ سول سروس سے بطور صوبائی سیکریٹری پنجاب ریٹائر ہوئے۔ آپ کا تعلق رحیم یار خان کے ایک معزز دینی گھرانے سے ہے۔ آپ کے والد حاجی محمد دین باجوہ فیصل آباد سے رحیم یار خان منتقل ہوئے۔ منصور صاحب کی عمر 18 سال تھی جب حاجی محمد دین کا انتقال ہوا۔
باجوہ صاحب نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر میں حاصل کی۔ پھر جامعہ پنجاب میں داخل ہوئے۔ یہاں آپ نے شعبہ ابلاغ عامہ میں داخلہ لیا۔ 1971ء میں جامعہ پنجاب سے اس شعبے میں ایم اے کرنے کے بعد 1973ء میں بطور مجسٹریٹ ساہیوال سے سرکاری ملازمت کا آغاز کیا۔ دور ملازمت میں پنجاب کے مختلف شہروں میں ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ اسی دوران 1999ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ مطالعہ کے شروع سے شائق تھے۔ ان کے گھر میں ترجمان القرآن اور دیگر تحریکی رسائل آیا کرتے تھے۔ ان کے والد حاجی محمد دین باجوہ اس زمانے سے ترجمان القران کے خریدار تھے، جب ترجمان القرآن حیدرآباد دکن سے شائع ہوا کرتا تھا۔ رسالے کے متعدد شمارے اکٹھے ہونے پر مرحوم انہیں جلد کرالیتے تھے۔
منصور احمد باجوہ جس زمانے میں جامعہ پنجاب میں ہمارے ساتھ زیر تعلیم تھے، اسی دور سے ان کے مزاحیہ اندز گفتگو سے احباب بہت محظوظ ہوتے تھے۔ تعلیم کے دوران ہی انہوں نے جزوقتی طور پر روزنامہ ’’جاوداں‘‘ اور ’’کوہستان‘‘ میں مختلف اوقات میں کام کیا۔ یہیں سے انہیں صحافت کا چسکا لگا اور میں اپنی ملازمت کے دوران مسلسل مزاحیہ مضامین لکھ کر معاشرے کے مختلف ذہنی و اخلاقی امراض پر نشتر زنی کرتے رہے۔ اپنے کالموں کو ’’اپنا اپنا پاکستان‘‘ کے نام سے مرتب کیا تو یہ ایک انتہائی دلچسپ کتاب بن گئی۔ معاشرے کے تمام وہ طبقات جو رعونت اور تکبر کا شکار ہیں، باجوہ صاحب کے طنز و مزاح کا ہدف ہیں۔ ہر بری حرکت پر انہوں نے اپنے قلم سے خوب تیر اندازی و نشتر زنی کی ہے۔
ہمارے نزدیک وہ شریف انسان ہیں، کیونکہ ایک تو انتہائی شریف النفس باپ کے بیٹے ہیں، دوسرے ان کی تربیت ان کے دس بڑے بھائیوں نے خوب توجہ سے کی۔
ہم ان کے بھائیوں بالخصوص ڈاکٹر محمد حسین باجوہ مرحوم اور برادر گرمی قدر محمد امین باجوہ صاحب کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر محمد سلیم شہید سے بھی تعارف تھا۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ انہی کے صاحبزادے ہیں۔ آپ کا خاندانی پس منظر دینی اور علمی تھا۔ پھر ہمارے ساتھ بھی دور طالب علمی میں قریبی میل ملاپ رہا۔
’’اپنا اپنا پاکستان‘‘ کتاب کا عنوان ہے اور ہر کالم میں اس کی خوب نقشہ کشی کی گئی ہے۔ سیاست دان اور صنعت کار، فن کار اور اداکار، اشرافیہ اور مزدور سبھی کی تصویر کشی آپ کو نظر آئے گی۔ باجوہ صاحب کے یہ کالم مختلف اوقات میں مختلف اردو روزناموں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ زیادہ تر روزنامہ انصاف، اوصاف، پاکستان اور خبریں میں شائع ہوئے۔
ہمیں امید ہے کہ یہ کتاب اردو کے مزاحیہ ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ثابت ہوگی‘‘۔
ڈاکٹر حافظ ساجد انور ڈائریکٹر ادارہ معارف اسلامی کی شگفتہ تحریر ہے:
’’دنیا کی ہر زبان میں خوش طبعی کے طور پر طنز و مزاح کو نظم و نثر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ طنز و مزاح کی متعدد اقسام ہیں، شوخی بیان کے ساتھ حسن بیان کی خوبی بھی شامل ہوجائے تو تحریر دو آتشہ ہوجاتی ہے۔ طنز و مزاح کی طعن و تشنیع سے الگ اپنی پہچان ہے۔ شرفا کا مزاحیہ حسن کلام ادب عالیہ کا گراں قدر حصہ ہے۔ اس میں عام انداز کی جگت بازی کی گنجائش نہیں۔ عوامی زبان ادبی زبان نہیں ہوتی، انشا پردازی میں تعلیم یافتہ لوگوں کی علمی زبان استعمال ہوتی ہے۔ زبان و بیان کے جملہ اسالیب اپنے اپنے دائرے میں ممتاز خصوصیات رکھتے ہیں۔
طنزو مزاح میں تضحیک و استہزا مقصود نہیں ہوتا۔ عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے اصلاح کرنے کے ارادے سے کسی واقعے، کسی شخص یا کسی کردار کی ناہمواری کو طنز و مزاح کارنگ دے کر اشارے کنایے میں بیان کردیا جائے تو قارئین کی زندگی میں پیوست نام کی کوئی چیز نہیں رہتی۔ کتنی بڑی نیکی ہے کہ ایک مسلمان اپنی تحریر و تقریر سے دوسرے مسلمانوں کے لیے خوشی و انبساط کی کیفیت فراہم کرے اور یہ کام خلاف اسلام بھی نہ ہو۔
کہا یہ گیا ہے کہ ’’خندہ، نمک زندگی است‘‘ (ہنسنا مسکرانا زندگی کا نمک ہے) اور فی الواقع یہ ہے بھی درست۔ خشک زندگی، خشک طبیعت اور خزاں زدہ فکر و نظر، انسان کی ذہنی نشوونما کے رک جانے کا نام ہے۔ دنیا کے بڑے اسکالرز، اس نعمت سے مالا مال ہوئے۔ انسان کی تہذیب و تمدن میں جب کسی ماحول میں گھٹن محسوس ہوئی تو کسی نہ کسی دیدہ ور نے طنز و مزاح کے ذریعے اس خول کو توڑا اور عوام نے اسے پسند کیا اور قبولیت کا تمغہ عطا کیا۔ جنرل محمد ایوب خان کے عہد میں حالات کی سختی اور ماحول کی گھٹن ناقابل برداشت ہوئی تو جسٹس کیانی نے اپنے طنز و ظرافت سے خوش گوار ماحول پیدا کیا، جمود ٹوٹ گیا اور دیگر دانشوروں میں بھی جرأت گویائی پیدا ہوئی۔ جسٹس کیانی نے اپنے مزاحیہ انداز میں طنز و تعریض کے نشتر بھی لگائے، لوگ محظوظ ہوئے اور حالات میں تبدیلی پیدا ہوئی۔ طنز و مزاح کے ذریعے انہوں نے جبر کی زنجیروں کو توڑا۔ انگریز حکومت کی موافقت کی خاطر سرسید کی مفاہمتی پالیسی پر طنز و مزاح کے ذریعے اکبر الٰہ آبادی کی پالیسی ہی نے کامیابی کی راہیں کھولیں۔
منشی سجاد حسین نے اودھ پنج کے ذریعے اردو ادب میں طنز و مزاح کی بنیاد رکھی۔ ہفت روزہ اودھ پنج 16 جنوری 1877ء کو منصہ شہود پر آیا۔ یہ پرچہ آڈیسن کے سپیکٹیٹر کی طرح مزاحیہ اورطنزیہ نظم ونثر پر مشتمل تھا۔ اس کا ہدف مغربی تہذیب اور سرسید کی اصلاحی تحریک تھی۔ انگریزوں کے خلاف شگفتہ انداز میں بے زاری کا اظہار کیا جاتا تھا۔ زیر نظر کتاب اپنا اپنا پاکستان میں نہایت لطیف پیرائے میں حکومت پر تنقید کی گئی ہے۔ لیکن طنز کا نشتر ہر جگہ موجود ہے۔
طنزیہ اور مزاحیہ انداز نگارش کا مقصد اصلاح ہو تو خندہ لب اور شگفتگی طبع کا باعث بن جاتا ہے، خطوط غالب کو بھی اپنے طنزیہ اور مزاحیہ طرز بیان کے باعث قبولیت عامہ عطا ہوئی۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں طنز و مزاح میں اکبر الٰہ آبادی کی پیروی میں اہم شعرا نے طبع آزمائی کی۔ سیاسی اور سماجی اور سوشل معاملات پر رائے زنی اکبر الٰہ آبادی کا خاصہ تھا، یہی انداز علامہ اقبال اور دیگر شعرا نے اختیار کیا۔
حالی نے غالب کو شوخی تحریر کے باعث اردو نثر کی منفرد اسلوب کا بانی قرار دیا ہے۔ یہی شوخی تحریر مزاحیہ طنزیہ نثر کا طرۂ امتیاز ہے جو زیر نظر نگارشات میں نظر آتا ہے۔ ایک ایک جملہ نپا ہوا اور تلا ہوا اور دل میں اتر جانے والا ہے۔ جذبہ اصلاح ہر مقام پر کام کرتا نظر آتا ہے۔ رشید احمد صدیقی نے جس پیرائے میں مزاح میں طنز کو داخل کیا ہے، یہ انہی کا کمال ہے تاہم یہ رنگ کسی اور کے یہاں نظر نہیں آتا، ان کی کوئی تقلید نہیں کرسکا۔ یہ اسلوب ان پر ختم ہوا۔ پطرس بخاری کے یہاں طنز و مزاح کی لطیف سی لہریں قارئین کو ادبی چاشنی کا ذوق بھی عطا کرتی ہیں تاہم مزاح کی طرفگی اپنا رنگ جماتی ہے۔ کنہیا لال کپور، شوکت تھانوی، فرحت اللہ بیگ اور عظیم بیگ چغتائی کی نثر میں مزاح اور طنز کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔
کنہیا لال کپور نے ایک رسالے ’’آئینہ‘‘ (دہلی) کو اشاعت کے لیے تصویر بھیجی، خط میں لکھ دیا: ’’آپ ہنسیے نہیں، یہ تصویر اصل سے کہیں بہتر ہے‘‘۔ اسی رسالے میں شائع ہونے والے انٹرویو میں ایک سوال یہ تھا: ’’آپ 1947ء کے بعد مغربی پنجاب چھوڑ کر مشرقی پنجاب کے ایک تحصیل ہیڈ کوارٹر ’’موگا‘‘ میں کیوں آباد ہوگئے؟ جب کہ ہندوستان میں بڑے بڑے علمی مراکز موجود ہیں‘‘۔
اس کے جواب میں کنہیا نے لکھا:
’’جب میں لاہور میں نہیں ہوں، تو زمین کا ہر حصہ میرے لیے برابر ہے‘‘۔
موجودہ زمانے کے مزاح نگاروں میں مشفق خواجہ، عطا الحق قاسمی، ابن انشا اور نعیم صدیقی قابل ذکر ہیں۔ اخباروں میں طنز و مزاح کے لیے کالم نگار موجود ہیں۔ اب الیکٹرانک میڈیا پر بھی طنز و مزاح کے پروگرام نشر ہورہے ہیں۔ ان میں سیاسی، علمی اور ادبی رنگ نہیں، بس ہنسی مذاق کی باتیں ہوتی ہیں۔
زیر نظر کتاب اپنا اپنا پاکستان میں طنز و مزاح کی اکثر خصوصیات موجود ہیں۔ باجوہ صاحب نے اصلاح معاشرہ، اصلاح حکومت اور اصلاح بیورو کریسی کے لیے ایسے پیرائے میں کالم لکھے ہیں کہ انہیں پڑھ کر خندہ پر لطف کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس وطن عزیز میں خرابی کی کیا کیا بھیانک صورتیں موجود ہیں۔ ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے حکومت توجہ دیتی ہے، نہ معاشرے کے ذمہ دار افراد متوجہ ہوتے ہیں۔ باجوہ صاحب حساس انسان اور کالم نگار ہیں۔ انہیں معاشرے کی ناہمواریاں تکلیف دیتی ہین۔
باجوہ صاحب کو پاکستان کی سرزمین اور پاکستانی قوم سے غایت درجے کی محبت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بیورو کریسی ٹھیک ہوجائے، تعلیم یافتہ اور حکمران طبقہ اپنی قومی زبان کی ترویج میں دلچسپی لیں۔ انگریزی الفاظ کی آمیزش سے اسے گراں بار نہ کریں۔ ملک کا نظام تعلیم اسلامی تعلیمات پر استوار ہو تو دیگر قومی مسائل کی طرح قومی زبان کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔
باجوہ صاحب کے طنزیہ، مزاحیہ اور تندو تیز جملوں میں سے چند ایک یہ ہیں:
انہیں پی ایچ ڈی ٹائپ لوگوں سے بھی واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ایک پی ایچ ڈی سے تو یہ بھی کہہ دیا کہ پی ایچ ڈی تو کرلیا، اب ہمت کرکے میٹرک کا امتحان بھی پاس کرلیں۔
ترقی پسند بھی خدا سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں مگر صرف مشیر کے طور پر۔
غدار کون ہے اور محب وطن کون، اس کا فیصلہ ہمیشہ اقتدار کرتا ہے۔
مصلحت جہاں سے شروع ہوتی ہے، کردار وہاں سے ختم ہونا شروع ہوتا ہے۔
جوں جوں آپ کی آواز اونچی ہوتی جاتی ہے توں توں آپ کا مرتبہ نیچے ہوتا جاتا ہے۔
وہ حکومت جسے بار بار بتانا پڑے کہ وہ بڑی طاقت ور ہے کبھی طاقت ور نہیں ہوسکتی۔
باجوہ صاحب کو بات کرنی آتی ہے۔ ایجاز و اختصار ان کی نثر کی خصوصیات ہیں بعض جملے سہل ممتنع ہیں۔ انہیں مغربی دانشوروں کے افکار سے بھی دلچسپی ہے، کہیں کہیں ضمناً حسب ضرورت اپنے سرکاری ملازم ہونے کے بھی اشارے کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھے، ہماری گزارش ہے کہ وہ اپنے قلم کو فقط کالم نگاری تک ہی محدود نہ رکھیں، کچھ اور بھی تحریر کریں۔ ادارہ معارف اسلامی اس کتاب کی پیش کش پر خوشی محسوس کرتا ہے۔ قارئین سے اس کتاب پر رائے کا انتظار رہے گا‘‘۔
چند کالموں کے عنوانات درج ذیل ہیں:
نام میں کیا رکھا ہے، اونٹ رے اونٹ!، پولیس مصروف ہے!، ریفرنڈم… اور ریفرنڈم، روشن خیالی اور دعائے قنوت، سرہانے میر کے…، شیطان کی ڈائری، شیطان آن لائن، بازی لے گئے کتے…، سیاست کی چاند گاڑی، تقسیم کار، اردو ہے جس کا نام…، وزیراعظم بن کر…، یہ سال کیسے گزرے گا؟، کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے، خدا اور انسان، رب کا شکر ادا کر بھائی، خدائوں کی دنیا، خوشیوں بھری میری زندگی، کوئی تو پوچھے!، کوئی تیرا چور کوئی میرا چور، کچھ باتیں ہیں سمجھانے کی، لیڈروں کے جاں نثار، مجبور لوگ، مسئلہ انگریزی کا، محشر خیال، محشر خیال2-، میرا مسئلہ۔
اہل علم و ادب کی ڈاکٹر منصور احمد باجوہ صاحب کے متعلق آرا سب عمدہ اور صحیح ہیں۔ استاذ الاساتذہ ڈاکٹر وحید قریشی فرماتے ہیں: ’’ڈاکٹر منصور احمد باجوہ، سرکاری افسروں کی اس نادرالوجود نوجوان نسل سے ہیں جو بہ سرعت ناپید ہوتی جارہی ہے۔ طنز نگاری ان کا میدان خاص ہے مکالموں کی چستی اور فکر و احساس کی بوقلمونی نے ان کی تحریر کو ایسا رنگ دیا ہے کہ قاری کو اپنے سحر سے باہر نہیں نکلنے دیتا‘‘۔
انتظار حسین کی رائے ہے ’’ڈاکٹر منصور احمد باجوہ نے اظہار کا جو طریقہ اپنایا ہے اسے حکیمانہ صنف اظہار کہنا چاہیے۔ زندگی کی کتنی ہی سچایاں یہاں کتنی سادگی سے اور کتنے کم لفظوں میں بیان ہوگئی ہیں اور اختصار نے بیان میں ایسا حسن پیدا کردیا ہے جو ہمیں بالعموم ضرب الامثال میں ہی نظر آتا ہے‘‘۔
شہزاد احمد لکھتے ہیں: ’’اپنے زخموں پر مسکرانا حوصلے کی بات ہے مگر اس عمل کو تخلیقی رنگ عطا کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ باجوہ صاحب نے اس مشکل کو اپنے ذمے لے رکھا ہے، نثر میں بھی اور نظم میں بھی۔ ان کی تحریریں آنسوئوں، مسکراہٹوں اور قہقہوں کے درمیان کی کوئی چیز ہے، جسے شاید نام نہ دیا جاسکتا ہو مگر اسے محسوس کیا جاسکتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر انور سدید کا خیال ہے کہ ’’ڈاکٹر صاحب کا مقصد، زندگی کے آئینے سے وہ تصویر دکھانا ہے جسے آج کا انسان دیکھنے پر مائل نہیں ہوتا۔ انہوں نے ہر موضوع کو اپنے مشاہدے سے نکھارا اور فطری مسکراہٹیں اپنے خوش نظر اسلوب سے پیدا کی ہیں‘‘۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے۔