شہر بڑے ہوتے جارہے ہیں مگر اِس حوالے سے منصوبہ سازی کا فقدان ہے۔ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی بہت سے معاشی اور معاشرتی مسائل پیدا کرتی ہے۔ آج دنیا بھر کے بڑے شہروں میں جہاں اور بہت کچھ انتہائی پریشان کن ہے وہیں صَوتی آلودگی بھی انتہائی نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ صَوتی آلودگی کے ہاتھوں انسان حقیقی سُکون سے محروم ہوچکا ہے۔
دنیا بھر میں شہر وسعت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ آبادی بڑھنے سے بڑے شہروں میں زندگی زیادہ دشوار ہوئی جاتی ہے۔ مشینوں اور گاڑیوں کا بڑھتا ہوا استعمال معاملات کو مزید الجھا رہا ہے۔ ہم مشینوں کے عہد میں جی رہے ہیں یعنی اِن کے بغیر جینے کا تصور نہیں کرسکتے۔ بڑے شہروں میں گھر اور کام کے مقام کے درمیان خاصا فاصلہ پایا جاتا ہے۔ ایسے میں گاڑیوں کے ذریعے سفر کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھی صَوتی آلودگی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں آبادی کا بڑا حصہ یومیہ بنیاد پر سفر کے لیے موٹر سائیکل پر منحصر ہے اور موٹر سائیکل کا بڑھتا ہوا استعمال صَوتی آلودگی میں متواتر اضافے کا اہم سبب ہے۔
ماحول کو متوازن رکھنے اور بہتر بنانے کے حوالے سے جن عوامل پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، جن پر زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے اُن میں صَوت یعنی آواز نمایاں ہے۔ آوازیں سو طرح کی ہوتی ہیں اور اُنہیں الگ الگ زاویوں سے دیکھا اور الگ الگ پیمانوں سے پرکھا اور جانچا جاتا ہے۔ انسان نے معاشی، معاشرتی، صنعتی اور ثقافتی ترقی کے ساتھ ساتھ ماحول کے لیے جو بڑے چیلنج پیدا کیے ہیں اُن میں صَوتی آلودگی بھی شامل ہے۔ بیسویں صدی کی آمد تک صَوتی آلودگی نے ایک بڑے مسئلے کا روپ نہیں دھارا تھا۔ بیسویں کے دوران تیز رفتار تکنیکی ترقی نے زندگی میں مشینوں کا کردار اِتنا بڑھایا کہ انسان دھیرے دھیرے صَوتی آلودگی کے گڑھے میں گرتا چلا گیا۔ یہ فطری نوعیت کا ایسا خاموش اور غیر محسوس عمل تھا کہ انسان کو ایک زمانے تک اِس کی سنگینی کا احساس ہی نہ ہوا۔ بیسویں صدی کے دوران پنپتی ہوئی صَوتی آلودگی آج یعنی اکیسویں صدی میں انتہائی خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ اب یہ ایسا چیلنج ہے جسے کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ہم آوازوں میں گِھرے ہوئے ہیں۔ آوازوں کی درجہ بندی بھی کچھ مشکل نہیں۔ ایک طرف آوازوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والا قدرتی ماحول ہے مثلاً چڑیوں کا چہچہانا، بادلوں کی گرج، ندیوں کا شور، سمندر میں تموّج، جھرنوں کے پانی کے گرنے سے پیدا ہونے والی آواز، مویشیوں کی آوازیں، ماحول میں پائی جانے والے دیگر جانداروں اور مختلف اشیاء کی آوازیں۔ دوسری طرف انسانوں کی پیدا کردہ آوازیں ہیں۔ انسان کی پیدا کردہ آوازوں میں کارخانوں میں لگی ہوئی مشینوں، سڑکوں پر دوڑتی ہوئی گاڑیوں، مختلف النوع اجتماعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا شور بھی شامل ہے۔ معاشرتی معاملات کے نام پر مل بیٹھنے سے بھی گفتگو کے دوران اچھا خاصا شور پیدا ہوتا ہے۔ یہ بھی صَوتی آلودگی کی ایک واضح اور نقصان دہ قسم ہے۔ تعمیراتی اور صنعتی سرگرمیوں سے بھی خاصی صَوتی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔
صَوتی آلودگی کا تعلق ایک طرف تو آبادی سے اور دوسری طرف منصوبہ سازی اور قوانین کی تعمیل کے فقدان سے ہے۔ دنیا بھر میں قوانین کے تحت لوگوں کو پابند کیا جاتا ہے کہ غیر ضروری طور پر ایسی اور اِتنی آواز پیدا نہ کریں کہ شور کہی جائے۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں بڑے شہر صَوتی آلودگی پیدا کرنے والے مراکز ہیں۔ کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں کتنی صَوتی آلودگی پائی جاتی ہے اِس کا اندازہ مقامی لوگوں سے بڑھ کر کسے ہوسکتا ہے کیونکہ ہم اِس آلودگی کی زد میں ہیں، اِسے جھیل رہے ہیں۔ لوگ مختلف تقریبات کے دوران کسی جواز کے بغیر شور پیدا کرکے ماحول میں صَوتی آلودگی کا گراف بلند کرتے رہتے ہیں۔ خراب سائلنسر کے ساتھ یا اِس کے بغیر ہی چلائی جانے والی موٹر سائیکلیں اتنا شور پیدا کرتی ہیں کہ گھروں میں لوگ سُکون سے سو بھی نہیں سکتے۔ دہلی، چِنّئی، کولکتہ اور ممبئی جیسے غیر معمولی آبادی والے شہروں میں صَوتی آلودگی خطرناک حد سے زیادہ ہوچکی ہے۔ بعض صنعتی علاقوں اور شہروں میں مشینوں کا شور اِتنا زیادہ ہے کہ مقامی لوگ تو جیسے تیسے عادی ہوچکے ہیں مگر باہر سے آنے والوں کے لیے وہ ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔
فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی، آسٹریا کے دارالحکومت ویانا اور جنوبی افریقا کے شہر کیپ ٹاؤن کا شمار اُن چند شہروں میں ہوتا ہے جہاں صَوتی آلودگی پر قابو پانے میں مثالی حد تک کامیابی حاصل کی جاچکی ہے۔ واشنگٹن جیسے بڑے شہر میں مائیکروسوفٹ کی لیب کو بھی خاموش ترین مقامات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
برسوں پہلے ہالی وُڈ کی ایک فلم میں دکھایا گیا تھا کہ کس طور آواز سے بڑے پیمانے پر تباہی برپا کی جاسکتی ہے۔ ایک بڑے ڈیم کو توڑنے کے لیے سیکڑوں کلو گرام دھماکا خیز مواد استعمال کرنے کے بجائے محض ایک کلو گرام دھماکا خیز مواد کو اِس طور استعمال کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا کہ اُس کے دھماکے سے پیدا ہونے والی آواز نے ڈیم کو توڑ دیا تھا!
صَوتی آلودگی کا بنیادی پیمانہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کوئی بھی آواز کیسی اور کتنی ہے یعنی کسی ناپسند آواز کا دورانیہ کیا ہے۔ ماہرین نے آواز کی پیمائش کے لیے ڈیسیبل کا پیمانہ مقرر کیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ ہمارے ماحول میں آوازیں مجموعی طور پر 70 ڈیسیبل سے کم ہوں تو نقصان دہ نہیں ہوتیں۔ 85 ڈیسیبل سے زیادہ آوازیں اگر ہمیں روزانہ سات آٹھ گھنٹے جھیلنا پڑیں تو زندگی کا توازن بگڑتا ہے۔ ڈیسیبل کیا ہے اِسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ کان کے نزدیک کہی جانے والی بات بالعموم 30 ڈیسیبل تک کی شدت رکھتی ہے۔ ہماری عمومی گفتگو تقریباً 60 ڈیسیبل شدت کی ہوتی ہے۔ قریب سے گزرنے والی موٹر سائیکل 95 ڈیسیبل اور تھوڑی بلندی سے گزرنے والا طیارہ 120 ڈیسیبل تک آواز پیدا کرتا ہے۔
دنیا بھر میں دن اور رات کے حوالے سے آوازوں کی شدت کے حوالے سے قوانین موجود ہیں اور منظم معاشروں میں اُن پر عمل بھی کرایا جاتا ہے۔ مثلاً دن کے وقت رہائشی علاقوں میں 55 ڈیسیبل، رات کے وقت 45 ڈیسیبل آواز ہونی چاہیے۔ تجارتی علاقوں میں دن کے وقت 65 اور رات کے وقت 55 ڈیسیبل جبکہ صنعتی علاقوں میں دن کے وقت 75 اور رات کے وقت 70 ڈیسیبل آواز ہونی چاہیے۔ یہاں دن کا مطلب صبح 6 بجے سے رات 10 بجے تک۔ جن علاقوں میں صنعتی سرگرمیاں بھی جاری رہتی ہوں، تجارتی عمل بھی ہوتا ہو اور لوگ رہتے بھی ہوں وہاں شور کس حد تک رہنا چاہیے اِس کا تعین متعلقہ انتظامیہ کرتی ہے۔ اسپتال، تعلیمی اداروں، عدالتوں اور مذہبی مقامات کے اطراف ’’سائلنس زون‘‘ قائم کیے جاتے ہیں۔ ایسے تمام مقامات پر آواز کی سطح 40 تا 50 ڈیسیبل رہنی چاہیے۔ قوانین کے تحت اگر ایسے علاقوں میں کسی ذریعے سے مستقل بنیاد پر 10 ڈیسیبل زیادہ آواز پیدا کی جارہی ہو تو متعلقہ انتظامیہ سے شکایت کی جاسکتی ہے۔ کہیں بہت زیادہ آواز پیدا کی جارہی ہو تو شکایت اور متعلقہ ادارے یا انتظامیہ کی طرف سے کارروائی کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں مگر لوگ بالعموم خاموش رہتے ہیں کیونکہ شکایت کرنے پر کارروائی کی صورت میں معاشرتی معاملات بگڑتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں ایسی کوئی بھی شکایت مستقل دشمنی کا ذریعہ بنتی ہے۔ بیشتر پس ماندہ ممالک کا یہی حال ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے خالص رہائشی علاقوں میں کپڑا تیار کرنے والی لُومز بھی کام کر رہی ہیں۔ یہ لُومز پڑوسیوں کے لیے مستقل بنیاد پر 250 ڈیسیبل سے زیادہ آواز پیدا کرتی ہیں۔ ریلوے ٹریک کے نزدیک رہنے والوں کو بھی مستقبل بنیاد پر ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا رہتا ہے مگر وہ تو فطری معاملہ ہے۔ ٹرین تو وہیں سے گزرے گی۔ لُومز اور شور پیدا کرنے والی دیگر مشینیں تو رہائشی علاقوں سے ہٹائی جاسکتی ہیں اور ہٹائی جانی چاہئیں۔
صَوتی آلودگی سے متعلق شکایات کا اندراج آسان بھی نہیں۔ شکایت کی صورت میں یہ سب کچھ عارضی بنیاد پر روکا جاسکتا ہے اور بعد میں پھر وہی عمل شروع کیا جاسکتا ہے جس سے ناگوار شور پیدا ہو۔ ایک بڑا مسئلہ آواز یا شور کی شدت کی پیمائش کا بھی ہے۔ پھر یوں بھی ہے کہ شور کو کسی حد علاقے تک محدود نہیں رکھا جاسکتا۔ آواز کے لیے ہماری طے کی ہوئی سرحد کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ شور در حقیقت کیا اور کتنا ہے اِس کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں۔ ایک ہی شدت کی آواز دن میں کچھ اور رات کو کچھ ہوتی ہے۔ دن کے وقت جس مشین کا شور ہمیں ناگوار محسوس نہیں ہوتا وہی مشین رات کو چلائی جائے تو سُکون غارت کردیتی ہے۔ شور کے بعض مآخذ چلتے پھرتے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اُنہیں کنٹرول کرنا اور کسی شکایت کی صورت میں کارروائی کرنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
آج کی شہری زندگی ہمہ وقت شور سے عبارت ہے۔ ایسے میں صَوتی آلودگی کا پیدا ہوتے رہنا فطری امر ہے۔ شہروں میں مشینوں کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ صنعتی اور تجارتی علاقوں میں چلائی جانے والی مشینوں کے علاوہ سڑکوں پر کاروں، ٹرکوں، بسوں، ٹریکٹرز، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کی شکل میں بھی لاکھوں مشینیں ہی تو دن رات متحرک رہتی ہیں۔ اِن مشینوں کے چلنے سے پیدا ہونے والی صَوتی آلودگی بھی ہماری صحت پر خطرناک حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔ بڑے شہروں میں بالائی اور زیرِ زمین ٹرینیں بھی بہت شور مچاتی ہیں۔ ریلوے ٹریک کے نزدیک رہنے والوں کی صحت پر اس کا شدید منفی اثر مرتب ہوتا ہے۔ اُن کے لیے پُرسکون نیند محض ایک خواب ہوکر رہ جاتی ہے۔
گاڑیاں تیار کرتے وقت اُن کے انجن سے پیدا ہونے والے شور کو کم سے کم رکھنے پر توجہ دی جاتی ہے تاکہ لوگوں کا سُکون غارت نہ ہو اور ناگزیر ہونے پر بھی گاڑیوں سے پیدا ہونے والی صَوتی آلودگی قابلِ برداشت ہو۔ ٹو وھیلرز (موٹر سائیکل، اسکوٹر) میں 80 سی سی کے انجن میں آواز کی حد 75 ڈیسیبل، 80 سے 175 سی سی تک میں 77 ڈیسیبل اور 175 سی سی سے زائد کے انجن میں آواز کی حد تک 80 ڈیسیبل ہے۔ تین پہیوں والی گاڑیوں میں آواز کی حد 77 تا 80 ڈیسیبل، کار کے لیے 75 ڈیسیبل اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کی جانے والی گاڑیوں میں آواز کی حد 80 تا 85 ڈیسیبل ہے۔ فیکٹری میں تیاری کے وقت تو گاڑیوں کے انجن میں آواز کی حد کا خوب خیال رکھا جاتا ہے مگر یہی گاڑیاں جب سڑک پر آتی ہیں تو سب کچھ نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ خیال نہ رکھے جانے پر گاڑیوں کے انجن کا پیدا کردہ شور بڑھتا جاتا ہے۔ موٹر سائیکل اور رکشوں میں یہ عام ہے۔
صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں شور کا پیدا ہونا فطری امر ہے یعنی اس نوعیت کی صَوتی آلودگی کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا مگر ہاں، توجہ دینے پر اس نوعیت کی(باقی صفحہ 41پر)
آلودگی کو ایک خاص حد تک رکھنے میں مدد ضرور مل سکتی ہے۔ صنعت کاروں کو مشینیں خریدتے وقت یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اُن کے استعمال سے کتنا شور پیدا ہوگا اور یہ شور متعلقہ افراد کی صحت پر کس حد تک اثر انداز ہوگا۔ گارمنٹ فیکٹری میں عام سی سلائی مشین بھی استعمال کی جاسکتی ہے اور جدید ترین خصوصیات کی حامل معیاری مگر مہنگی مشین بھی بروئے کار لائی جاسکتی ہے۔ جدید ترین مشینری کم آواز پیدا کرے گی۔ یوں کام کرنے والوں کی عمومی صحت پر زیادہ شدید منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
بعض صنعتی سرگرمیوں میں چاہے چھوٹے دورانیے کے لیے سہی، خاصی تیز اور حواس باختہ کرنے والی آواز پیدا ہوتی ہے۔ بعض ہنر مندوں کے کام سے بھی شور بہت پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً لوہار کی دکان رہائشی علاقے میں ہو تو آس پاس رہنے والوں کا سُکون غارت ہوکر رہتا ہے۔
ہم سب اپنے بیشتر معاملات میں سُکون چاہتے ہیں اور زندگی بھر سُکون ہی کے لیے تو سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔ صَوتی آلودگی کا گراف نیچے رکھنا بہت حد تک ہماری اپنی مرضی کا معاملہ ہے۔ یہ معاملہ تھوڑی سی توجہ چاہتا ہے۔ تھوڑی سی توجہ سے ہم اپنے ماحول کو غیر ضروری شور و غُل سے معقول حد تک پاک کرسکتے ہیں۔ مشینوں کا استعمال ناگزیر ہے مگر مشینوں سے پیدا ہونے والے شور کا گراف نیچے رکھنا بہت حد تک ہمارے ہاتھ میں ہے۔ بالکل اِسی طرح معمول کی گفتگو کے دوران شور کو غیر ضروری پر پیدا ہونے سے روکنا بھی بہت حد تک ہمارے اختیار میں۔ پاکستانی معاشرے کا یہ حال ہے کہ لوگ ساتھ ساتھ بیٹھے ہوں تب بھی چیخ چیخ کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ خاصی اونچی آواز میں بولنا اب ہمارے مزاج کا حصہ بن گیا ہے۔ شور پر مکمل قابو پانا ہمارے اختیار کی بات نہیں مگر اُسے معقول حد تک رکھنا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ اختیار ہمیں بروئے کار لانا ہی چاہیے۔
(احمد آباد کے اخبار ’’لوک سَتّا جَن سَتّا‘‘ کی تحریر۔)