برطانوی سرمایہ دارانہ نظام نے کس کس طرح انسان کو نہ صرف سرمائے کا غلام بنایا بلکہ ایک ایسی اشرافیہ کی بھی تشکیل کی جوکہ دور بادشاہت سے بھی سنگین ذرائع سے انسان کو غلام بلکہ غلام ابن غلام بنانے کا ایک طویل سلسلہ اپنائے ہوئے ہے۔ دور شہنشاہیت میں کبھی کوئی غلام بھی اُٹھ کر بساط لپیٹ دیتا تھا اور خود بادشاہ بن جاتا تھا لیکن شہنشاہیت کو ختم کرکے جس سرمایہ دارانہ نظام کا نفاذ بطور جمہور کی آزادی کے نام پر ہوا آج وہ سرمایہ دارانہ نظام مغرب میں کیا گل کھلا رہا ہے؟ اس کو سنجیدگی سے دیکھنے اور اس کے تجزیے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی حشر سامانیوں سے دنیا کو محفوظ کیا جاسکے۔
یہ معاملہ محض کسی ایک نظریے کے نفاذ کا نہیں بلکہ دنیا میں آزاد رہنے بسنے والوں کو سرمایہ دارانہ نظام کی غلامی سے آزادی کا ہے اور اس کا سب سے پہلا قدم اس کے بارے میں شعور کی بیداری ہے۔ یوں تو مغرب کی تعلیم کو مشرق میں آئیڈیلاز کیا جاتا ہے اس کی مثالیں جابجا مشرق میں سننے کو ملتی ہیں لیکن اب خود اہل مغرب اس نظام تعلیم میں سے طبقاتی نظام تعلیم کی نشاندہی کررہے ہیں۔ گوکہ خود مغرب لسانی، مذہبی، طبقاتی اور نسلی تقسیم کا شکار ہے لیکن یہ تقسیم خود سرمایہ دارانہ نظام کی بنا پر ہے کہ جس میں بالاتر نسل کو بھی سرمائے کی بنیاد پر ایک نئی تقسیم کا سامنا ہے۔ امریکہ جوکہ اس سرمایہ دارانہ نظام کی جنم بھومی اور ایک مکمل سرمایہ دارانہ نظام رکھنے والی ریاست ہے اگر وہاں یہ سب کچھ ہوتا تو شاید اس کو اس نظام کا حصہ سمجھ کر قبول کرلیا جاتا لیکن یہ خبر برطانیہ سے ہے کہ جہاں سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کا نظریہ کارفرما ہے اور ریاست ٹیکس کی مد میں ایک بڑی رقم اس ہی لیے لیتی ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات کو تعلیم، صحت، روزگار، رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں اور ا س کی فراہمی کی ذمہ داری ریاست پر مکمل طور پر عائد ہوتی ہے اس ہی طرح ریاست کی کوشش ہوتی ہے کہ ریاست کے باشندوں کے درمیان تفاوت کو کم اور ختم کیا جائے اس مقصد کے لیے برطانیہ میں اقلیت کو ملنے والے کم مواقع ہمیشہ کسی نہ کسی طرح بحث کا حصہ رہتے ہیں اور حکومت کی جانب سے مختلف سماجی تنظیموں، گروپس کی مدد سے اس تقسیم کو کم کرنے اور ان کے درمیان تفاوت کو ختم کرنے کی مختلف کوششیں جاری رہتی ہیں۔
دور غلامی کے خاتمے کی کوششوں میں ابھی کامیابی کی امید پیدا ہوئی تھی کہ نئے سرمایہ داری کے نظریے نے ہمہ جہت غلامی کی ایک نئی طرح ڈالی ہے اور اب اس کو سماجی فلاحی ریاست برطانیہ میں بھی کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں نجی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد محض 7 فیصد ہے جبکہ یہ 7 فیصد افراد کل 39 فیصد اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں۔ برطانوی اداروں سٹن ٹرسٹ اور سوشل موبیلٹی کونسل کی مشترکہ طور پر تیار کردہ رپورٹ کے مطابق 9 شعبہ جات کہ جس کا معاشرے پر زیادہ اثر ہے کہ جن میں سیاست، کاروبار، میڈیا، بیوروکریسی عدلیہ، کھیل اور دیگر شعبہ جات شامل ہیں میں نجی اور سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والوں اور ان کی وہاں موجودگی کا ایک تقابلی مطالعہ کیا گیا۔ اس سے قبل 2014 میں تقریباً پانچ سال قبل کی رپورٹ میں نجی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے افراد کل افرادی قوت کا 26 فیصد تھے کہ جو اہم عہدوں پر تعینات تھے پانچ سال کے عرصے میں اس تعداد میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ چند شعبہ جات کا الگ الگ جائزہ لینے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ چند شعبہ جات میں ان افراد کی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کی شرح 52 فیصد تک ہے۔ 2014 میں برطانوی کابینہ کے 22 فیصد اراکین نجی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے جوکہ 2019 میں بڑھ کر 29 فیصد تک ہو گئے ہیں۔ چند اہم ترین شعبہ جات میں نجی اداروں سے فارغ ہونے والوں کی شرح برطانیہ جیسی فلاحی ریاست میں حیران کن ہے سینئر ججز 65 فیصد، بیوروکریسی اور سول سرونٹ 59 فیصد، ہاؤس آف لارڈز ( پارلیمنٹ کا ایوان بالا) میں 57 فیصد اور وزارت خارجہ میں ان کی تعداد کل افرادی قوت کا 52 فیصد تک ہے۔ میڈیا جیسے اہم شعبے میں 100 موثر ترین نیوز ایڈیٹرز اور براڈ کاسٹرز میں سے 43 نجی تعلیمی اداروں سے ہیں جبکہ 44 فیصد کالم نگار بھی پرائیویٹ اسکولز سے تعلیم یافتہ ہیں۔ فلم ٹی وی اور میوزک سے تعلق رکھنے والے امیر ترین افراد میں سے 38 فیصد نجی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے رہے اس ہی طرح صف اول کے ایکٹرز میں سے 44 فیصد نجی اسکولز میں پڑھتے رہے۔ یہ برطانوی معاشرے کا ایک چھوٹا سا جائزہ ہے جوکہ سٹن ٹرسٹ کی رپورٹ میں پیش کیا گیا اور پانچ سال کے تقابل سے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی کہ ان پانچ سالوں میں اس میں کیا تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ برطانیہ ایک فلاحی ریاست ہے کہ جہاں تعلیم، صحت، ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے اور بلاشبہ تعلیم کا معیار بھی سرکاری اسکولوں میں اچھا ہے اس سب کے باوجود سرکاری تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے نجی اسکولز سے تعلیم حاصل کرنے والوں سے بہت پیچھے نظر آتے ہیں اور پانچ سال کا یہ جائزہ بتارہا ہے کہ ہر نئے آنے والے سال کے ساتھ طبقات کی یہ تقسیم گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔ کیونکہ آپ کو نجی تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے ایک بڑی رقم کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے صرف متمول افراد ہی اس کا رُخ کرسکتے ہیں۔ جبکہ اعلیٰ ترین عہدوں پر جس طرح سے نجی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہورہی ہے کہ پیسے کی بنیاد پر ان عہدوں پر پہنچ کر مزید پیسہ بنایا جاسکتا ہے اور دوسری طرح معاشرے کے صرف 7 فیصد افراد جوکہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ ملک کے سیاہ وہ سفید کے مالک بن گئے ہیں۔ عدلیہ کابینہ اور پارلیمان میں ان کا تناسب 93 فیصد عام آدمی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ یہ ہیں سرمایہ دارانہ نظام کے وہ اثرات جوکہ آہستہ آہستہ فلاحی ریاستوں کو بھی اپنی گرفت میں لے رہے ہیں۔ اور پورے نظام پر طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے چند افراد کی حکمرانی ہے جوکہ نہ صرف معاشرے کی نئی راہ متعین کررہے ہیں بلکہ عام آدمی کو بھی یہ سبق سکھا رہے ہیں کہ اب دنیا میں حکمرانی صرف اور صرف پیسے کی ہے۔ پیسے کی غلامی دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی ایک ایسی غلامی ہے کہ جو معاشروں کو غلام ابن غلام بنارہی ہیں اور عوام کی آزاد سوچ اور آزادی فکر کو صرف اور صرف پیسہ کا غلام بنارہی ہے کہ جہاں انسان کی
کامیابی کا پیمانہ صرف پیسہ ہو وہ معاشرہ بھلا کیسے فلاحی معاشرہ کہلا سکتاہے؟ مغرب نے پیسے کی بنیاد پر پہلے دنیا کو تقسیم کیا اور اب خود ان کے معاشروں میں صرف چند افراد پورے نظام کو کنٹرول کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ ہوتا ہوا مزید چند ہاتھوں تک محدود ہو جائے گا اور دنیا میں ایک مزید سنگین غلامی کی ابتداء ہوگی جو کہ سرمایہ دارانہ بادشاہت کہلائے گی اور یوں جس بادشاہت سے آزادی حاصل کرکے مغرب نے جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد رکھی تھی وہ اپنے انجام کو پہنچے گی۔ یہ سوال فلاحی ریاستوں کے لیے زیادہ اہم ہے کیونکہ اگر اس فلاحی ریاست کے تار و پود بکھر گئے تو شاید برطانوی ریاست کو بھی نہ بچایا جاسکے۔