ملکی معیشت پر منی بجٹ کا بوجھ

بلدیاتی انتخابات میں شکست، نواز شریف کی واپسی کی بحث، احتساب میں ناکامی، حکومت دبائو میں

نواز شریف کی وطن واپسی کی بحث، ملکی معیشت پر منی بجٹ کا بوجھ اور تحریک انصاف کی حکومت مقبولیت میں مسلسل کمی جیسے موضوعات میں گھری ہوئی ملکی سیاست تبدیل ہوتے ہوئے منظر کی پہلی انگڑائی معلوم ہوتی ہے،سیاسی پنڈت چوپالوں میں بیٹھ کر ایک نئی بحث میں الجھ رہے ہیں کہ نواز شریف وطن واپس آئیں گے یا نہیں، کب آئیں گے، آئیں گے بھی یا نہیں؟ ہر ایک کی اپنی اپنی رائے ہے مسلم لیگ کا فیصلہ ہے کہ حالات ساز گار ہوئے تو نواز شریف آئیں گے ورنہ نہیں آئیں، نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی کی خبر محض سیاسی تفریح ہے ان کی واپسی فوری ممکن نہیں، ابھی تک ان کے خلاف عدالتوں میں کیس بھی زیر سماعت ہیں اور برطانیہ میں ان کے ویزے کی مدت ختم ہونے کے خلاف اپیل کا بھی فیصلہ نہیں آیا لہذا مسلم لیگ ن نے یہ خبریں اس لیے پھیلائی ہیں کہ انہیں بلدیاتی انتخابات اور ممکنہ آئندہ انتخابات سے قبل کارکنوں کی مکمل حمایت حاصل ہوسکے، بیان بازی بھی سیاست کا ایک حصہ ہوتی ہے اور ایک طبقہ ایسا بھی جو بیانات کے اجراء کو سیاسی زندگی کی علامت سمجھتا ہے اور چند روز ان کا بیان اخبارات میں شائع نہ ہو اسے وہ اپنی سیاسی موت کے مترادف خیال کرتا ہے، سو نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق حالیہ بیان بازی کی اہمیت اس سے زیادہ اور کچھ نہیں، البتہ حکمت عملی کے طور پر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے نواز شریف کی واپسی کی خبریں پھیلا کر حکومت کو پریشان ضرور کر دیا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کی اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کافی عرصے سے کر رہی ہے لیکن ان دونوں میں معاملات طے کرنے کے لیے موثر ضمانت چاہیے کیونکہ عدم اعتماد بہت زیادہ ہے اتنی جلدی معاملات طے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے جب تک معاملات طے نہیں پائیں گے نواز شریف کی وطن واپسی کا امکان نہیں، ابھی ملک میں ایسی صورتحال نہیں کہ نواز شریف کی واپسی کا ماحول بن چکا ہو،نواز شریف وطن واپسی کی خبروں پروزیر اعظم عمران خان اور وزراء کا ردعمل خوف کی علامت سمجھا جائے گا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نواز شریف اور محترمہ بے نظیربھٹودوایسی سیاسی شخصیات ہیں، جو اپنی مرضی اور منشا کے عین مطابق بیرون ملک ہے اور اسے جلاوطنی کا نام دیا۔ ماضی میں ان دونوں کی وطن واپسی اس وقت ہوئی جب معقول ضمانت اور واپسی کے لیے محفوظ راستہ ملا، محترمہ بے نظیر بھٹو تو اب اس دنیا میں نہیں ہیں، نواز شریف کی واپسی کے لیے جو کچھ ماضی میں ہوا اب بھی وہی ہوگا، نواز شریف کی وطن واپسی کی باتیں تحریک انصاف کی حکومت کے اعصاب کا امتحان بھی ہوسکتا ہے، کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست کے زخم پر نمک پاشی اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سے قبل اپنے کارکن کو متحرک کرنے کی ایک کوشش بھی ہوسکتی ہے۔حتمی بات یہ ہے کہ ڈیل ہوئی تو واپسی ہوگی، اب صرف توجہ اس رہنی چاہیے کہ ڈیل کے لیے بیرو میٹر کیا ہے؟ لیکن نواز شریف کی وطن واپسی سے زیادہ اہم نکتہ تحریک انصاف کی اب تک کی کاکردگی اور سرپرستوں کے ساتھ آج کے تعلقات کی نوعیت ہے۔ تحریک انصاف کا سیاسی عزم یہ تھا کہ وہ سرکاری اداروں میں ہونے والی ماضی کی بد عنوانیوں کا حساب لے گی اور ملکی معیشت کو غیر ملکی قرضوں کے شکنجے سے آزادی دلائے گی، ان دونوں شعبوں میں تحریک انصاف نتائج نہیں دے سکی ۔ احتساب وزیراعظم عمران خان کا فلیگ شپ منصوبہ تھا مگروہ اپنی پرانی کمزوریوں کے بوجھ تلے دب کر دم توڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے، حالانکہ قومی سیاسی زندگی میں احتساب کی اہمیت پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بہت زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ اس میں بھی نیب کا ایک اہم کردار ہوگا، مگر نیب کے چیئرمین کی تعیناتی کا معاملہ ایک حساس اور اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ نیب کے سربراہ جسٹس(ر) جاوید اقبال اکتوبر میں اپنی میعاد پوری کرچکے ہیں۔ نیب جیسے ادارے میں نئے سربراہ کی تعیناتی کا معاملہ تاخیر کا شکار ہے حکومت نیب کا ادارہ ایک ایسے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے چلا رہی ہے جسے پارلیمنٹ میں اپوزیشن اور پارلیمنٹ سے باہر قانون دانوں کے حلقوں میں تائید اور حمایت میسر نہیں، حال ہی میں وزارت قانون نے صدر کو ایک سمری بھیج دی تھی لیکن صدرعارف علوی نے، جو عموما حکومتی سمری پر برق رفتاری کے ساتھ عمل کرتے ہیں، مگر نیب کے سربراہ کی تعیناتی پر اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے یہ معاملہ ابھی مزید وقت لیتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس منصب پر کسی بھی شخص کی تقرری کے لیے وزیر اعظم اور پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف کا متفق ہونا لازمی ہے تاہم دونوں کے مابین معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں پارلیمنٹ کی ایک بارہ رکنی کمیٹی بنائی جاتی ہے جو نیب کے سربراہ کا فیصلہ کرتی ہے ۔نیب کے نئے سربراہ کی تقرری کی فائل پر’’ انتظار فرمائیے کا لگا ہوا بورڈ‘‘ ایک پیچیدہ معاملہ معلوم ہوتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم نیب کے لیے نیا سربراہ چاہتے بھی ہیں یا نہیں وزیراعظم کے کچھ قریبی مشیر وں کی رائے یہ ہے کہ موجودہ چیئرمین کی مدت کسی بہانے مزید بڑھا دی جائے، بہر حال ایک پیش رفت ہوئی ہے کہ حکومت چیئرمین نیب کے لیے سابق بیورو کریٹس یوسف نسیم کھوکھر، سیکرٹری مذہبی امور اعجاز جعفر اور عملش چوہدری کے ناموں پر غور کر رہی ہے اور اپوزیشن کی جانب سے جے یو آئی نے جسٹس دوست محمد، مسلم لیگ(ن) کی جانب سے جسٹس(ر) آصف سعید کھوسہ کے بھائی سابق بیوروکریٹ ناصر کھوسہ،سلمان صدیق اور پیپلزپارٹی کی جانب سے سابق سفارت کار اور یوسف رضا گیلانی کے عزیز جلیل عباس جیلانی کے نام دیے جانے کا امکان ہے، یہ نام آئندہ چند دنوں تک حکومت اور اپوزیشن کے مابین ہونے والی بات چیت میں پیش کیے جاسکتے ہیں، جہاں تک نیب کے موجودہ چیئرمین کا تعلق ہے یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ نیب چیئرمین نے جہاں اپوزیشن کے خلاف بہت سے کیسز داغے ہیں وہاں اہم حکومتی شخصیات پر معاملات کو کچھ ڈھیلے پن، کچھ سستی سے ہی آگے بڑھایا ہے ان پر ایکشن اس تیزی کے ساتھ نہیں ہو رہا جیسا کہ اپوزیشن کے مقدمات میں ہو رہا ہے، سب سے اہم تبدیلی ان تین سالوں میں جو ہوئی وہ یہ ہے کہ حکومت نے نیب قانون میں ترمیم لاکر احتساب کے نظام کا گلا ہی گھونٹ دیا ہے، اور اب کم و بیش ایک ہزار افراد کو ریلیف مل جائے گا مالم جبہ کیس بند کرنے کا فیصلہ بھی اسی کا حصہ ہے نیب چیئرمین نے اپنی درخواست میں احتساب عدالت کویقین دہانی کروائی کہ مالم جبہ کیس میں تمام معاملات قانون کے مطابق ہیں اور اس وجہ سے یہ کیس بند کر دیا جائے مالم جبہ کے کیس میں وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے خلاف تفتیش کی جا رہی تھی،نیب کی کارکردگی پر پاکستان کی عدالتوں کے ججوں کے ریمارکس احتساب کا پول کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔متعدد بار ریماکس دیے گئے کہ نیب کیسز کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، حکومت کی کمزور احتساب پالیسی کا فائدہ اپوزیشن کو ہوا، وزیر اعظم عمران خان سخت دبائو میں آگئے ہیں ۔ کے پی کے میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں، جن کے نتائج نے حکومت کے پائوں تلے سے قالین کھینچ لیا ہے، تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان نے خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں شکست تسلیم کی ہے اور پہلے مرحلے میںغلط پالیسیوں کی نشان دہی کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے فی الحال تو یہی کہا گیا کہ بلدیاتی انتخابات میں ناکامی کی وجہ غلط امیدواروں کو ٹکٹ دینا ہے، لیکن وزراء اور اہم حکومتی شخصیات پر جو الزام لگا ہے کہ انہوں نے ٹکٹ بیچے ہیں اور پشاور کے میئر کا ٹکٹ سات کروڑ میں فروخت کیے جانے کی بازگشت سنائی دی ہے، اس کی تحقیق کے لیے کیا کچھ کیا جائے گا اس کی تفصیلات سامنے نہیں لائی گئی ہیں، اب فیصلہ ہوا ہے کہ وزیر اعظم خود دوسرے مرحلے میں بلدیاتی الیکشن کی منصوبہ بندی و حکمت عملی کی جانچ پڑتال کریں گے ایسا معلوم ہورہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی گرفت بھی پارٹی پر کمزور ہوچکی ہے کیونکہ تنظیم توڑے جانے کا فیصلہ کیا تو چند گھنٹوں میں رجوع کرلیا گیا اور فارغ کی جانے والی راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی شخصیت دوبارہ ایڈیشنل سیکرٹری جنرل بنا دی گئی، کہا جاتا ہے کہ قیادت سے متعلق بہت سے راز ان کے سینے میں ہیں خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات ابھی صرف پہلے مرحلے کے انتخابات ہوئے جس میں تین قبائلی اضلاع سمیت کل 17 اضلاع شامل رہے نتائج کے مطابق، پشاور میں سٹی میئر کے عہدے پر جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار پشاور سے معروف کاروباری شخصیت سینیٹر غلام علی کے فرزند اور جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن کے عزیز زبیر علی سٹی میئر کے عہدے پر کامیاب ہوئے یہ کامیابی تحریک انصاف کے لیے ایک ’بدترین شکست‘ سمجھی جارہی ہے اور سیاسی افق پر اس لیے تشویش بھی بڑھ رہی ہے ، نتائج سے پتہ چل رہا ہے کہ تحریک انصاف کو اس کی خود اعتمادی مار گئی ہے جس نے اپوزیشن جماعتوں سے متعلق غلط تجزیہ کر رکھا تھا تحریک انصاف یہ بات پتہ چلانے میں ناکام رہی کہ کے پی کے میں ان دنوں لوگوں کے ذہن کیا سوچتے ہیں اور ان کے دل کیسے دھڑکتے ہیں تحریک انصاف کی بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں ناکامی کو تین عوامل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اس شکست کے پیچھے سیاسی، معاشرتی عوامل دیکھنے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کا وہ ڈیٹا دیکھنا بھی اہم ہے جس کے مطابق، 2018 کے الیکشن میں 63 فیصد ووٹ بینک 18 سے 32 سال کی عمر کے افرادکا تھا، اور جن میں اکثریت نے پہلی مرتبہ ووٹ ڈالا تھاجو لوگ جے یو آئی کی کامیابی اور تحریک انصاف کی ناکامی کو ایک حیران کن خبر سمجھتے ہیں، وہ دراصل حالیہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے آگاہی نہیں رکھتے پہلی بات تو یہ کہ تحریک انصاف نے پاپولر امیدواروں کے برعکس غیر معروف و ناپسندیدہ امیدواروں کو ٹکٹ دیے دوسری بات یہ کہ انہوں نے ویلج و نیبر ہڈ میں پارٹی کو تقسیم سے بچانے کے لیے آزاد امیدوار کھڑے کیے جب کہ جے یو آئی (ف) نے خاموش حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو خاص طور پر، جن کا ووٹ بینک زیادہ تھا،کو اپنے ساتھ ملاکر سٹی میئر کے عہدے کے لیے تعاون مانگا اور ان کے ساتھ بہترسیٹ ایڈجسٹمنٹ کی، دوسری وجہ تحریک انصاف کے کارکنان کا اپنے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی سے ناراض ہونا ہے، تیسری وجہ عوام بھی مہنگائی کی وجہ سے تحریک انصاف کی کارکردگی سے ناخوش ہیں، لہذا صرف وہ لوگ ووٹ ڈالنے آئے جو مہنگائی سے براہ راست متاثر ہو رہے تھے اگر ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے زیادہ ہوتا تو شاید تحریک انصاف جیت جاتی اگر یہ فرض کیا جائے کہ پاکستان تحریک انصاف کو اس وجہ سے ووٹ نہیں ملا کہ عوام ان کی کارکردگی سے ناخوش تھے، تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) یا دیگر جماعتوں کو ووٹ دے دیتے، لیکن انہوں نے جے یو آئی کو ہی کیوں منتخب کیا یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ خیال یہی ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا حکومت کے حوالے سے سخت نقطہ نظر اس کی ایک بڑی وجہ ہے انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس اپوزیشن کا کردار بہت اچھے طریقے سے نبھایا ہے اس کے علاوہ انہوں نے اپنی جماعت اور کارکنان کو بھی فعال رکھا، اور مسلسل خبروں میں رہے۔ یہ نتائج تحریک انصاف کے لیے دھچکے سے کم نہیں ہیں اور بلدیاتی انتخابات کے محاذ کے بعد حکومت کے سامنے منی بجٹ کا امتحان پھن پھیلائے کھڑا ہے،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے قرضے کی نئی قسط کے حصول کے لیے عائد کی گئی شرائط پر عملدرآمد پاکستان کی موجودہ حکومت کے لیے مشکل تر ہوتا جارہا ہے اس کی وجوہ میں ماضی کی حکومتی پالیسیوں کے جاری اثرات، بین الاقوامی کساد بازاری، کووڈ 19کے پھیلائو کے اثرات اور عوام کی غالب اکثریت کی قوتِ برداشت پر گراں مہنگائی سمیت کچھ نئی حقیقتیں بھی شامل نظر آرہی ہیں، حکومت 360ارب روپے کے منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے بل کی منظوری چاہتی ہے،معاشی صورت حال یہ ہے کہ خسارے مسلسل بڑھ اور روپے کی قدر مسلسل کم ہورہی ہے جبکہ صنعت، کاروبار، تجارت اور فیکٹریاں بند ہورہی ہیں، ملک میں بجلی، گیس، کھانے پینے اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ملک پر واجب الادا قرض اور ادائیگیوں کا بوجھ 50.5 کھرب سے اوپر جاچکا ہے۔ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح 181 روپے پر پہنچ گیا ہے اور مزید اضافے کی خطرناک اطلاعات ہیں، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود گردشی قرض دوگنا سے بڑھ چکا ہے کرنٹ اکائونٹ خسارہ، تجارتی خسارہ، پالیسی ریٹ میں اضافہ معاشی تباہی کی آگ پر تیل کا کام کررہا ہے اور حکمراں جماعت کی سیاسی ساکھ گر رہی ہے وزیراعظم چاہتے ہیںمشاورت سے نئی منصوبہ بندی کی جائے اورآئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ مشاورت کی جائے تاکہ منی بجٹ کے ذریعے بہتر طور پرآئی ایم ایف کو مطمئن کیا جاسکے تاہم یہ کوشش تاحال کامیاب نہیں ہو سکی یہی صورتحال اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا قانون پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے ضمن میں نظر آتی ہے حکومت چاہتی ہے کہ آئندہ بجٹ تک صدارتی آرڈی نینس سے کام چلانے کی اجازت دی جائے جس کے بعد جی ایس ٹی پر دی گئی چھوٹ واپس لینے کی شق فنانس بل 2022کا حصہ بنا دی جائے گی۔ دونوں بلوں کی منظوری پارلیمنٹ میں زیر التوا ہے جبکہ ان کی منظوری کے بغیر آئی ایم ایف پروگرام میں پیش رفت ناممکن نظر آتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں، کہ گیس کا بحران بڑھتا محسوس ہورہا ہے آئی ایم ایف کی ایک ارب ڈالر کی قسط کا اجراء بجائے خود تو اہمیت کا حامل ہے ہی تاہم دوسرے اداروں کی اعانت کا پروانہ بھی بن سکتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ جی ایس ٹی پر چھوٹ ختم کرنے کے لیے فوری دستیاب صورتوں پر آئی ایم ایف کو قائل کیا جائے ساتھ ہی حکومت کو اپوزیشن سمیت تمام سیاسی حلقوں کو اعتماد میں لے کر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی راہ ہموار کرنی چاہئے تاکہ نوک پلک سے درست قانون سازی کے ذریعے ملکی مفاد کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔