وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جولائی2021ء میں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر اور بعد ازاں تربت میں منعقدہ تقریب میں بلوچ شدت پسند رہنمائوں سے بات چیت کا عزم ظاہر کیا۔ وزیراعظم کے ارادے کا خیر مقدم ہوا۔ امید چلی کہ شاید اب مختصر وقت میں مذاکرات کی تیاریاں ہوں گی، روابط کے لئے با اثر و معتبر افراد پر مبنی جرگہ یا کمیٹی بنے گی اور بات چیت کا آغاز عملاً کردیا جائے گا۔ مگر اب تک کی خاموشی و سر د مہری ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کی مزید اس اہم مسئلہ بارے دلچسپی نہیں رہی۔ بعض اہم افراد کا مسئلے پر گفتگو سے گریز سے بھی اندازا ہوا ہے کہ ریاست بلوچ افراد کو قومی دھارے میں لانے کی چنداں خواہاں نہیں۔ چناں چہ انہی ایام میں خیبر پشتونخوا کے قبائلی اضلاع سابقہ فاٹا کے مسلح گروہوں کے ساتھ مذاکرات کی بازگشت ہوئی۔ اس موضوع کے کئی پہلوئوں اور جزیات پر مختلف مکاتب فکر نے گفتگو کی۔ اخبارات میں بہت کچھ لکھا گیا ، ٹی وی چینلز پر تبصرے و تجزے ہو ئے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ روابط مصدقہ ہیں۔ اس ضمن میں نومبر میں ایک ما ہ کی فائر بندی ہوئی۔ مگر دسمبر میں فائربندی کی مدت ختم ہونے کے بعد ٹی ٹی پی نے دوبارہ حملے شروع کرد یے۔یعنی فائر بندی میںمزید توسیع نہ کی۔اس تناظر میں نئی افغان حکومت کا کردارثالث کا ہے۔ موجودہ افغان حکومت ٹی ٹی پی سے پاکستان کے اندر دہشتگردی کی کارروائی نہ کرنے کی اپیل بھی کرچکی ہے۔ انہیں مذاکرات کی نصیحت و ترغیب دے چکی ہے۔لہٰذا ہونا یہ چاہیے کہ اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ پیش رفت ہو اور منطقی نتیجہ پر پہنچا جائے۔افغانستان کے اندر سیاسی تبدیلی سے پاکستان کے لیے سنہرا موقع پیدا ہوا ہے۔سی آئی اے اور بھارتی ’’را ‘‘کی رخصتی کے بعد افغانستان میں موجود پاکستان مخالف شدت پسندوں سے بات چیت سہل ہوگئی ہے۔بلاشبہ نئی افغان حکومت ہر طرح کی معاونت پر قادر ہے۔نیز اگر دنیا اس حکومت کو تسلیم اور اس کی مدد کرتی ہے تو نہ صرف ٹی ٹی پی راہ راست پر آئے گی، بلکہ قلیل مدت میں اپنی سرزمین سے داعش خراسان کا صفایا کرنے میں کامیاب ہوگی۔ہاں یہ بھی مدنظر رہے کہ افغان حدود میں کسی بھی قسم کی فوجی کاروائی کابل اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد کی فضاء متاثر کر ے ۔اگرچہ ریاست اس ذیل میں کئی اہداف پاچکی ہے ،مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ یہ گروہ ہنوز وجود رکھتے ہیں۔ بلوچ شدت پسندی بیس سال سے زائد پر محیط ہے۔ ان کی تعداد ٹی ٹی پی کی نسبت بہت قلیل ہے۔ پھر بھی ریاست ان سے بر سر پیکار ہے۔ گویا بات چیت بہر حال واحد حل ہے۔ دہشتگردی سے ملک کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ کوئی گوشہ ا و رمکتبہ فکر و طبقہ ان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہا ہے۔ یقینایہ پرویز مشرف دور کے تحفے ہیں ،جنہیں پیپلز پار ٹی اور مسلم لیگ نوازکی حکومتوں میں ڈھیل ملتی رہی۔ آغاز فسادہی سے چند دور اندیش اور ہوش مند سیاسی بڑے بات چیت کی طرف حکومتوں کو توجہ دلاتے رہے ہیں۔اس کے برعکس چند جماعتیں، علی الخصوص پشتون سیاسی حلقے فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتے ،جبکہ بلوچستان میں مذاکرات کا کہتے۔ اس پر مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ فاٹا میں گولی اور بلوچستان میں بولی کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ قاضی حسین احمد اور سید منور حسن مذاکرات کے بڑے مبلغ تھے۔ حال ہی میں محمود خان اچکزئی کی ٹی ٹی پی کے بارے میںبرعکس نقطہ نظر سامنے آیا ہے۔ اپنے والد خان عبدالصمد خان اچکزئی کی48 ویں برسی پر 2دسمبر2021ء کو کوئٹہ کے ہاکی گرائونڈ میں جلسہ عام سے خطاب میں محمود خان اچکزئی قرار دے چکے ہیں کہ ’’ پنجاب اپنے سخت گیر لوگوں سے بات چیت کرچکی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے ٹی ٹی پی سے بات چیت کا فیصلہ کیا ہے۔ کہا کہ اپنے خیبر پشتونخوا اور فاٹا کے سیاسی ساتھیوں سے کہتا ہوں ٹی ٹی پی کے ساتھ بگاڑ پیدا نہ کرے، وہ وطن کے لوگ ہیں اور وطن ہی میں لڑے ہیں۔ ان کے ساتھ رویہ ایسا ہو کہ وہ اور ہم اپنی قوم کے مستقبل کے لئے مل کر کام کریں۔ محمود خان اچکزئی کا یہ بیانیہ بہت اہم اور غور و فکر کا حامل ہے۔ جس میں ماضی کی سوچ اور پالیسیوں کا تضاد نمودار ہوا ہے۔ ٹی ٹی پی کی چھتری تلے مسلح گروہوں نے انسانیت کشی میں کوئی کسر چھوڑ نہیں رکھی ہے ، ۔ معلوم حقیقت یہ بھی ہے کہ اس مسلح گروہ اور اس سے جڑے داعش خراسان کی پوری کمک سابق افغان حکومت کی جاسوسی کا ادارہ ’’ این ڈی ایس‘‘ اور بھارت کے جاسوسی اداروں اور افغانستان میں قائم سفارخا نہ اور قونصل خانوں سے ہوتی تھی۔ پشاور کے آرمی پبلک سکول کا دلخراش سانحہ،8اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں وکلاء پر خودکش حملہ اس مسلح گروہ کی سیاہ و سفاک واردات تھی۔ گویاان کے جرائم ،جنایات اور تباہ کاریوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ محمود خان اچکزئی نے بات مختصر کی ہے۔ جس کی تفصیل و تفہیم ضروری ہے۔ تاکہ مدعا کھل کر سامنے آئے۔ یقینا تخریب و دہشت گردی سے ملک ا و رعوام کو مزید بچانے کی خاطر بات چیت اور نتیجہ خیز مذاکرات از حد ضروری ہے۔ دریں اثناء محمود خان اچکزئی نے اس جلسہ عام میں کارکنوں کو اپنی جماعت کے سوا دوسرے جھنڈے لہرانے سے بھی منع کیا ہے۔اور فقط اسٹیج سے بلند کئے جانے والے نعرے پارٹی پالیسی قرار دیا ہے۔ یعنی جلسہ گاہ کے اندر سے بلند کئے جانے والے نعروں کا جواب کارکن نہ دیں۔دراصل محمود خان اچکزئی نے کارکنوں کو پشتون تحفظ موومنٹ،افراسیاب خٹک ا و رمحسن داوڑ کی رہنمائی میں تشکیل دی جانے والی نئی سیاسی جماعت سے دور رہنے کی تلقین و نصیحت کرچکے ہے۔واضح رہے کہ پشتونخوا میپ کے جلسوں مظاہروں میں افغانستان اور پی ٹی ایم کے جھنڈوں کا لہرایا جانا شروع ہوا تھا۔اجنبی سیاسی نعرے بلند ہوتے۔علاوہ ازیں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں پشتونخوامیپ کے چند منحرف وابستگان شامل بھی ہوئے ہیں ،بلکہ اس جماعت نے محمود اچکزئی کی جماعت سے رہنما اور کارکن توڑنے پر توجہ بھی مرکوز رکھی۔ سچ یہ بھی ہے کہ پی ٹی ایم کے سیاسی اجتماعات و تقریبات پشتونخوا میپ کی مر ہون منت تھے۔28 نومبر 2021ء کو کو ئٹہ میں پی ٹی ایم کے ہونے والے جلسہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما شریک ہوئے تھے ،اچکزئی کی جماعت سے محض عثمان کاکڑ مرحوم کا بیٹا خوشحال خان کاکڑ شریک ہوئے تھے۔ چناں چہ ظاہر ہو تا ہے کہ محمود خان اچکزئی نے جماعت کے اندر تطہیر کا آغاز کرتے ہوئے پارٹی کو انتشار اور بد نظمی سے نکالنے پر توجہ مرکوز کر لی ہے۔مثلا25جولائی 2019ء کو کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسہ عام میں جس سے مریم نواز شریف نے بھی خطاب کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار حسین نے بھی تقریر کی۔سو محمود خان اچکزئی کی تقریر کے دوران جلسہ گاہ سے مسلسل نعرے بلند ہو تے رہے ۔ سیٹیاں بجائی جارہی تھیں۔محمود خان کے بار بار منع کرنے اور تقریر سننے کی ہدایت کے باوجود شور مسلسل بلند رہا۔محمود خان اچکزئی کی تقریر کے دوران خلل و بدنظمی کا یہ منظرپہلی مرتبہ دیکھا گیا۔ یہ سب کچھ پی ٹی ایم کے ان سیاسی کارکنوں کی جانب سے ہوا جو نظریاتی رغبت دوسری پشتون قوم پرست جماعت کی طرف رکھتے تھے۔ الغرض سابقہ فاٹا کے شدت پسندوں سے مذاکرات اور امن کی سبیل کی یقینی توقع کی جارہی ہے۔ البتہ اس ضمن میں بلوچستان کے سخت گیر رہنمائوں سے بات چیت کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔ یہ روش شبہات کو جنم دیتی ہے۔صوبے کی حکومت تو پہلے ہی گئے گزروں کے حوالے کی جاچکی ہے۔عالم یہ کہ 25 دسمبر کو بانی پاکستان محمد علی جناح کی برسی کی مناسبت سے زیارت کی قائد اعظم ریزیڈنسی میں منعقدہ واحد تقریب میں وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے شرکت نہیں کی۔منتظمین مہمان خصوصی کی راہ تکتے رہے۔صوبے پر حاکم ٹھہرائے عبدالقدوس بزنجو نے چار سینئروزیر مقرر کرکے صوبے کی پارلیمانی تایخ میں ایک اور انوکھی مثال کے تقرر کی قائم کرلی ہے۔