کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کی ادارتی صفحہ پر کالم نگار بابر علی پلی نے وطن عزیز کے معاشی اور سیاسی منظرنامے پر بروز ہفتہ 25 دسمبر 2021ء کو جو خامہ فرسائی کی ہے، اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
……٭٭٭……
’’امسال مئی میں موجودہ حکومت کی ناکام اور عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے مایوسی کی فضا میں ایک امید کی شمع روشن ہوئی، جب پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے امریکی خبر رساں ادارے بلوم برگ کو بتایا کہ ان کی حکومت نئی نوکریاں پیدا کرنے اور ترقی کو تیز کرنے کے لیے لگ بھگ 6 ارب ڈالر خرچ کرے گی۔ ان کے بہ قول اس حکمت عملی کا مقصد 5 فیصد سے زیادہ ملکی جی ڈی پی کی ترقی کی شرح حاصل کرنا تھا۔ شاید اکتوبر تک اس حکمت عملی پر تیزی سے عمل جاری رہا نتیجتاً معاشی طور پر مثبت اعداد و شمار دیکھنے کے لیے ملے۔ اس کے بعد وزیر خزانہ کے انداز میں ایک دم ڈرامائی تبدیلی ظاہر ہوگئی۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا واشنگٹن سے بیان جاری ہوا کہ ترقی کو اعتدال پر لانا پڑے گا تاکہ میکرو اکنامک خطرات کو روکا جاسکے۔ شوکت ترین کے اس بیان کا یہ مطلب کہ ’’پاکستان اتنی تیزی سے ترقی کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا‘‘ انداز اور لہجہ کی یہ تبدیلی محض معیشت تک محدود نہیں ہے۔ سول ملٹری کشیدگی، مخالف پارٹیوں کے احتجاج اور افغانستان کی سرحد سے ملنے والی پاکستان کی شمال مغربی علاقوں میں ایک مرتبہ پھر سے سر اٹھانے والی دہشت گردی کے بارے میں قیاس آرائی صورت حال کو مزید پیچیدہ کررہی ہے۔ یہ پیش رفت ایک مکمل طوفان پیدا کرنے کا خطرہ ہے جو 2023ء کے عام انتخابات میں وزیراعظم عمران خان کو دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات کو بہت حد تک دفن کررہے ہیں۔ زیادہ تر قلیل المیعاد معاشی عدم استحکام عالمی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کے سبب ہوا۔ بہرحال یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مہنگائی کے طوفان نے پاکستان کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور یہ دیگر پڑوسی ممالک کی معیشتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ جنوری 2020ء تا ستمبر 2021ء پاکستان میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں تقریباً 18 فیصد اضافہ ہوا جبکہ سرحد پار ہندوستان میں لگ بھگ 6 فیصد اضافہ ہوا۔ اس فرق کا زیادہ تعلق پاکستان میں زرعی پالیسیوں کی کمی اور گندم جیسی اہم اشیا کا غیر فعال مارکیٹوں سے ہے، جہاں پر حکومت قیمتوں میں مداخلت کرتی ہے۔ مہنگائی کا یہ سلسلہ ایک وبائی مرض کی بنا پر عروج پر پہنچا ہے جس کے دوران پاکستان کی معیشت 0.4 فیصد کی منفی ترقی کی شرح تک گر گئی اور وبائی مرض سے پہلے بھی حکومتی پالیسیوں نے شہریوں کی قوت خرید کو ایک لحاظ سے ختم کر ڈالا۔ تین برس سے زائد کی بدحالی کے بعد شہریوں کو ابھی مزید مشکلات کا سامنا کرنا ہے، حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق تاحال کئی ایسے فیصلے کرچکی ہے جن کی وجہ سے عوام کی تکالیف میں اضافہ ہوا ہے۔ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے، گیس بحران، اس کے علاوہ حکومت ایک انتہا پسند تنطیم کی جانب سے پر تشدد احتجاج کے نتیجے میں اس کے ساتھ خفیہ معاہدے کرکے ایک مرتبہ پھر دبائو کا شکار ہوگئی۔ پارٹی کے گرفتار ممبران کو آزاد کرنے، ان کے ضبط شدہ بینکس اکائونٹس کو بحال کرنے اور دیگر سارے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کا وعدہ کیا گیا۔ یہ صورت حال مزید گھمبیر اس وقت ہوگئی جب عمران خان اور اسٹیبلشمٹ میں کشیدگی کی خبریں ٹاک شوز کی زینت بنیں اور کئی دنوں تک اس کے باعث غیر یقینی کی صورتحال چھائی رہی، جس سے یہ تاثر مزید مضبوط اور اجاگر ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان اب اس ایک صفحہ پر نہیں رہے ہیں جس پر حکومتی وزرا فخر کیا کرتے تھے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں کیا ہورہا ہے اس کے بارے میں مکمل وضاحت یا معلومات کا حصول ناممکن ہے۔ خان اور اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں کے مابین اس وقت تعلقات کی نوعیت سے نہ صرف خان حکومت کے مستقبل بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جاری پاکستان میں 2007-8ء سے جمہوری تجربات کے لیے بھی دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔
اس کے سوا پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں میں دہشت گرد حملوں میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ امسال اکتوبر تک سارے ملک میں دہشت گردی کے حملوں میں 169 سیکورٹی اہلکار نشانہ بنے۔ 2017ء کے بعد حالیہ (موجودہ) سال یعنی 2021ء میں پاکستانی فورسز کے لیے سب سے زیادہ خطرناک سال ثابت ہوا ہے۔ اس کے باوجود حکومت کا ٹی ٹی پی سے روا رکھا گیا مذاکرات میں نرم رویہ انتہائی حیران کن ہے اور واقعہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستانی فورسز پر اپنے حملوں میں تیزی اور شدت لائی ہے۔ رپورٹس یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ امریکہ اور پاکستان ایک معاہدے پر پہنچنے کی سعی کررہے ہیں جس کے توسط سے امریکہ کو افغانستان میں فوجی اور انٹیلی جنس آپریشن کرنے کے لیے پاکستان اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دے گا۔ یہ سب اور دیگر پیش رفت پی ٹی آئی کی حکومت کو مستقبل میں سہارا فراہم کرنے کے لیے کی جارہی ہے۔ چند ہفتے پیشتر حکومت کی باتیں کرنے والوں کو 2022ء میں تیزی سے معاشی ترقی کرنے، عوام میں مقبولیت بحال کرنے اور آئندہ عام انتخاب جیتنے کے لیے ضروری اداروں کے اتفاق رائے کو برقرار رکھنے کی صلاحیت پر کامل اعتماد تھا، یہ بات کہنے والے اعتماد سے بتایا کرتے کہ واحد قابل عمل راستہ خان کی پارٹی (پی ٹی آئی) ہے اور وزیراعظم ایک بار پھر 2023ء میں بڑے مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں واپس آئیں گے، لیکن اب یہ اعتماد ختم ہوچکا ہے جبکہ زیادہ تر حکومتی نمائندے اس حوالے سے اب بھی امید کا اظہار کررہے ہیں کہ آنے والے ایام اور ہفتوں میں چیزیں (صورتحال) تبدیل ہوجائیں گی۔ معاملہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی کے لیے انتہائی نازک وقت ہے۔ مہنگائی عوام کے عدم اطمینان اور اضطراب کو تیز تر کررہی ہے۔ خاص طور پر شہری متوسط طبقے میں، سیاسی اشرافیہ خصوصاً جو راولپنڈی سے آنے والی ہوائوں کو پڑھ اور سمجھ کر ایک بار پھر سے پینترے بدل رہی ہے وہ بھی اپنے سیاسی ریڈار کو بڑی تیزی سے بحال کررہی ہے اور حزب مخالف کے رہنما بلوچستان میں گارڈز کی تبدیلی پر خوش ہوئے ہیں۔ جہاں پر حکومتی اتحادی وزیراعلیٰ کو زبردستی ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور 2018ء کے بعد سول ملٹری اتحاد میں پھوٹ پڑ گئی ہے۔ حکومتی ترجمانوں کو یہ امید ہے کہ دوریاں اتنی زیادہ بھی نہیں بڑھی ہیں کہ دوبارہ ایک صفحہ پر یک جا نہ ہوا جاسکے۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی اس مشکل وقت سے بہ خوبی عہدہ برا ہوسکتی ہے، لیکن اگر کے پی کے میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی الیکشن پر نظر ڈالی جائے تو مستقبل کا منظرنامہ تو بالکل ہی مختلف سا دکھائی دیتا ہے، جنہیں پاکستان کی تاریخ سے بہ خوبی آگہی اور معلومات حاصل ہے وہ شاید یہ اندازہ اچھی طرح سے لگا سکتے ہیں۔ عارضی واقعات نے تاریخی طور پر چند ماہ کے اندر ہی اسٹیٹس کو تبدیل کر ڈالا ہے اور اس قدر سخت تبدیلیاں رونما ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے اقتدار کی راہداریوں میں موجود بہت سارے تصورات کو زک پہنچی ہے اور وہ رد ہوگئے ہیں۔ nn