’’ مسلم کشمیر ‘‘کا ڈوبتا سورج؟

انتخابی حد بندی کمیشن کی متنازع رپورٹ کشمیر کی ’’انڈینائزیشن‘‘ کی طرف فیصلہ کن پیش قدمی

5 اگست 2019کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے ایک حقیقت میں کشمیر کا تشخص اور شناخت ختم کرنے کی طویل سیڑھی کے پہلے زینے پر قدم رکھا تھا ۔اب بھارت گردوپیش سے بے نیاز ہوکر زینہ بہ زینہ آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ڈی لمٹیشن کے نام پر نئی حلقہ بندیاں اس راہ کا ایک اور قدم ہے ۔جموں وکشمیر تنظیم نو قانون 2019کے تحت نئی حلقہ بندیوں کی تجاویز مرتب کرنے کے لئے مارچ 2020ء میںایک کمیشن قائم کیاگیا تھا ۔ا س کمیشن کی ساخت پر کشمیری سیاست دانوں کو پہلے ہی اعتراض تھا اب جبکہ کمیشن نے اپنی رپورٹ بھارتی حکومت کو پیش کر دی ہے تو یہ اعتراض حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے ۔اس رپورٹ میں ہندو اکثریتی علاقے جموں کے لئے چھے جبکہ مسلم اکثریتی علاقے وادی کشمیر کے لئے صرف ایک نشست کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی کی کل نشستیں 107تھیں جن میں 24نشستیں آزادکشمیر کے عوام کے لئے خالی ہیں۔ان خالی نشستوں کو نکالیں تو اسمبلی کی سیٹیں 83رہ جاتی تھیں ۔اب سات نشستوں کے اضافے کے بعد یہ تعداد 90ہوجائے گی۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں آخری حد بندی 1995میں کی گئی جب کشمیر میں صدر راج نافذ تھا۔اس سے پہلے 1993میں گورنر جگ موہن کے دور میںمجموعی نشستوں کی تعداد بڑھا کر 87کردی گئی تھی۔اس حد بندی پر بھی کشمیرکی مسلمان قیادت کی طرف سے اعتراض کیا گیا تھا ۔2002میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت نے آئین کشمیر میں ترمیم کرکے کشمیر میں 2026تک کسی بھی نئی حد بندی پر پابندی عائد کر دی تھی۔یہ سب حیلہ جوئی کشمیر کی مسلمان قیادت کی طرف سے نصب بھارتی عزائم کے آگے چھوٹے چھوٹے سپیڈ بریکرز کی مانند تھی۔بھارتی حکومت ان سپیڈ بریکرز کو ہٹانے کی قدرت نہیں رکھتی تھی۔2008میں جب امرناتھ تنازعہ شروع ہوا تو بھارتیہ جنتا پارٹی نے کشمیر میں نئی حد بندی کا مطالبہ دہرانا شروع کیا ۔آخر کار پانچ اگست کو بھارت نے ایک طوفان برپا کرکے اپنی راہ کی سب رکاوٹیں دور کردیں ۔کشمیر کا پرچم آئین اور قوانین سب ختم کر دئیے اور جموں وکشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دے کر ہر طرح کے اقدامات کی آزادی حاصل کر لی ۔اب بھارت پوری قوت سے اپنا طویل المیعاد ایجنڈا لاگو کرنے میں آزاد ہے۔حد بندی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اب جموں کی نشستیں 43جبکہ وادی کی 47کی جائیں گی ۔جبکہ وادی کے کئی اضلاع کو کاٹ کر جموں کے ساتھ جوڑنے کی تجویز بھی شامل ہے۔جس ریاست میں وزارت اعلیٰ پر جموں یا وادی کے کسی مسلمان کا حق تھا اب اس پر ہندو بھی فائز ہوسکتا ہے ۔بھارتیہ جنتا پارٹی اس نئی حد بندی کے ذریعے مقبوضہ علاقے میں ہر قیمت پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے ۔جموں میں کلین سویپ کرنے کے بعد وادی میں چند آزاد امیدواروں یا اپنی پارٹی ٹائپ کسی ٹیسٹ ٹیوب جماعت کو ساتھ ملا کر بھارتیہ جنتا پارٹی اپنا وزیر اعلیٰ لا سکتی ہے۔ ایک طرف بی جے پی کشمیر پر مسلط ہونے کی تیاریاں کر رہی ہے تودوسری طرف جموں وکشمیر کے مسلمانوں کو کشمیری جموں گوجر بکروال میں تقسیم کرکے سب سے بڑی آبادی کا اتحاد پارہ پارہ کررہا ہے تو دوسری طرف بی جے پی کے بینر تلے ہندو وں کو منظم اور متحد کیا جا رہا ہے ۔یہ سب کشمیر کی خصوصی حیثیت اور شناخت کے خاتمے اور ریاست کی انڈینائزیشن کی طرف فیصلہ کن پیش قدمی ہے ۔وادی کی سیاسی جماعتوں کا اتحاد’’ پیپلزالائنس فار گپکار ڈیکلریشن ‘‘اس ساری صورت حال کی مزاحمت کررہا ہے مگر ہندوتوا کے سیلاب کے آگے اس کی حیثیت اس قدر کمتر ہے کہ مخالفت کی ہر آواز صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہے ۔آزادعدلیہ ناانصافیوں کے خلاف کمزوروں کی آخری امید ہوتی ہے مگر بھارت کی عدلیہ ایک بے جان ڈھانچہ بن کر رہ گئی ہے ۔دوسال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے ابھی پانچ اگست کے فیصلے کے خلاف اپیل کی فائل کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔کشمیری سیاست دانوں کی بے بسی اس بات سے عیاں ہے کہ چند دن قبل ڈاکٹرفاروق عبداللہ بھارت کے مشہور اینکر کرن تھارپر کے پروگرام میں آنسوئوں سے رو تے ہوئے کہہ رہے تھے کہ let us come frogive and forget and save India and save people of this nation,the Muslims ,the Christains ,the Hindus,the Sikhs.فاروق عبداللہ کے یہ آنسو بے بسی اور کسمپرسی کی کہانی سنارہے ہیں ۔فاروق عبداللہ کی اس آنسوئوں بھری بے بسی کی تصویر کو ان کے ماضی کی اس تصویر کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے جو پانچ اگست کے فیصلے سے چند دن پہلے ایک جلسے میں ان کی تقریر کے الفاظ سے بنی تھی تو حالات کا ایک تاریک منظر بن رہا ہے ۔فاروق عبداللہ نے ایک جلسے میں پورے دبدبے سے بھارتی ہندو ذہنیت کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ یہ سمجھتے ہیں باہر سے لوگ لائیں گے بسائیں گے اور ہماری تعداد کم کریں گے ہم کیا سوتے رہیں گے ۔ہم اس کا مقابلہ کریں گے ہم اس کے خلاف کھڑے ہوں گے۔ کہتے ہیں 370ختم کریں گے تو کرلیں پھر الحاق کدھر رہے گا ۔ اللہ کی قسم کہتا ہوں ،شاید اللہ کو یہی منظور ہے ہم ان سے آزاد ہوجائیں گے۔میں بھی دیکھتا ہوں کون ان کا جھنڈا ُٹھاتا ہے‘‘ ۔ڈھائی سال میں فاروق عبداللہ کے لہجے کے اس طنطنے کا ٹی وی اینکر کرن تھارپر کے سامنے بے بسی کے آنسوئوں میں ڈھلنا حالات کی سنگینی کا پتا دے رہا ہے۔جس کشمیر کے مسلم نقش اُبھرنے اور رنگ نکھرنے کا آغاز چودہویں صدی میں ہواتھا جب شمال مغرب ترکستان سے سید عبدالرحمان عرف بلبل شاہ اور حضرت حسین سمنانی نے اس حسین وادی میں تبلیغ کے لئے پہلا قدم رکھا تھا ۔اس کے بعد میر علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدان مبلغین کی ایک جماعت لے کر کشمیر آئے اور یوں ان کے حسن کردار سے ہند واور بودھ اکثریتی معاشرہ اسلام کی طرف مائل ہوتا چلا گیا۔سید علی ہمدانی کے اس کردار کو علامہ اقبال نے یوں خراج عقیدت پیش کیا تھا ۔
خطہ را آن شاہ دریا آستیں ۔داد علم وصنعت وتہذیب ودیں( خطہ کشمیر کو اس سخی اور کشادہ ظرف راہنما شاہ ہمدان نے علم ،صنعت وحرفت تہذیب وتمدن اور دین اسلام کی دولت سے مالامال کیا)۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کا نقش سنورتا گیا اور یہاں سلطان شہاب الدین اور سلطان زین العابدین جیسے طاقتور مسلمان حکمرانوں کا اقتدار قائم ہوا جن کے دور میں کشمیر ایک آزاد ملک کے طور پر خطے میں اپنی طاقت کا لوہا منواتا چلا گیا ۔صدیوں کے اس سفر کو ریورس گیئر لگانے کا کام اب زوروں پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلم کشمیر کے ڈوبنے اور سقوط کی دردناک اور قطرہ قطرہ زہر کی اس پالیسی میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟