اس مضمون کی تیاری میں 19 دسمبر 2021ء کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی تحقیقاتی رپورٹ سے اعداد و شمار اور معلومات لی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا رپورٹس اور تھنک ٹینک کی ویب سائٹ سے بھی بنیادی معلومات اور حوالہ جات لیے گئے ہیں۔
……٭٭٭……
مشہور امریکی مزاح نگار مارک ٹوئین نے طنزاً کہا تھا کہ:
’’خدا نے جنگ تخلیق کی تاکہ امریکی، دنیا کے جغرافیے کو سمجھ سکے‘‘۔
نیو ورلڈ آرڈر کہ زیر سایہ رہنے والی دنیا کی زبانیں چاہے اسے فساد فی الارض کہتے ہوئے کانپ جاتی ہوں، چاہے ترقی یافتہ اور مہذب دنیا، اسے ’’کولیٹرل ڈمیج‘‘ کا نام دے کر اپنے ضمیر کو سلانا چاہتی ہو مگر سچ تو یہ ہے کہ امریکہ کی مسلط کی گئیں جنگوں نے ’’اہداف‘‘ کے نام پر معصوم اور بے قصور انسانوں کے چیتھڑے ہی اڑائے ہیں، چاہے ویت نام میں نیپام بم پھینکنے کا جرم ہو یا جاپان پر ایٹمی حملہ، نتیجہ ’’سویلین‘‘ کی ہلاکتوں کی صورت میں ہی سامنے آیا۔
عراق اور افغانستان میں جنگ شروع کرنے سے پہلے ٹی وی اسکرینوں پر کروڑوں انسانوں کے سامنے وعدے کیے گئے کہ ان جنگوں میں ’’جدید اور غیر معمولی ٹیکنالوجی‘‘ اور ’’جدید ڈورنز‘‘ کی مدد سے دہشت گردوں سے ان دنیا کو نجات دلائی جائے گی اور معصوم شہریوں کا نقصان نہ ہونے کے برابر ہوگا لیکن وہ جنگ ہی کیا جس میں ’’عام شہریوں‘‘ کا خون جنگ کے ایندھن کے طور پر استعمال نہ ہو۔ مشرق وسطیٰ اور افغانستان پر مسلط کی گئی جنگ کے تقریباً دو دہائیوں بعد مشہور امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کو برسوں کی قانونی کارروائیوں اور تحقیقات کے بعد جو ڈیٹا (دستاویزات اور سیٹلائٹ تصاویر کی صورت میں) حاصل ہوا وہ تقریباً 1300 دستاویزات پر مشتمل ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ان طویل دستاویزات کا لب لباب یہ نکلتا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ان اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہیں جتنی کہ امریکہ دنیا کے سامنے تسلیم کرتا رہا۔ اخبار نے پینٹاگون کی خفیہ دستاویزات ’’جاننے کے حق کہ قانون‘‘ کے تحت حاصل کیے۔ نیویارک ٹائمز کی اس تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری میں صرف پینٹاگون کے خفیہ دستاویزات سے ہی تمام معلومات حاصل نہیں کی گئیں بلکہ اخبار کے رپورٹرز نے سو سے زیادہ ’’فضائی حملوں کے مقامات‘‘ کا بھی دورہ کیا اور حملوں میں زندہ بچ جانے والے لوگوں اور موجودہ اور سابق امریکی عہدیداروں سے باضابطہ انٹرویوز بھی کیے۔ نیویارک ٹائمز میں بتایا گیا ہے کہ پانچ سالوں میں امریکہ نے افغانستان، شام اور عراق میں ’’پچاس ہزار‘‘ سے زیادہ فضائی حملے کیے۔ اس تحقیقاتی رپورٹ اور اس کے مندرجات کو مکمل یہاں شائع کرنا ممکن نہیں اس لیے راقم نے تحقیقات کے کچھ اہم نتائج اور امریکی دفاعی عہدیداروں کے بیانات کو اس مضمون کا حصہ بنایا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی اس مفصل تحقیقاتی رپورٹ پڑھنے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ ’’جنگیں‘‘ سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے اور اس نظام کو قائم رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
!فضائی حملوں کی تحقیقات: ایک شیکسپیئرئین ٹریجڈی!
بند تیمور، افغانستان کے تمام مردوں اور نوجوان لڑکوں کو یہ بات اچھی طرح پتا تھی کہ جب علاقے میں ’’ٹویوٹا ہائی لکس‘‘ گاڑی نظر آجائے تو ان کو اپنی زندگیاں بچانے کے لیے بھاگنا ہے۔ ان ہائی لکس گاڑیوں میں افغان پیرا ملٹری کے لوگ ہوتے ہیں جو عموماً اندھیرے میں نکلتے اور کسی بھی گائوں میں داخل ہوکر ’’تمام مردوں، لڑکوں اور بزرگوں کو پکڑلیتے‘‘۔ اخبار کے رپورٹر کو یہ بات بند تیمور کے ایک رہائش مطیع اللہ نے بتائی۔ اس نے مزید بتایا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ ’’طالبان‘‘ ہیں یا ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں، اگر اپ مرد ہیں تو افغان پیرا ملٹری والے آپ کو ضرور گرفتار کریں گے اور آپ کے ‘سر کی قیمت لے کر ہی آپ کو آزاد کرایا جائے گا ورنہ آپ کو قتل کردیا جائے گا۔31جنوری 2008ء کی رات، چاند بہت تیز چمک رہا تھا جب ٹویوٹا ہائی لکس کی تین گاڑیاں بند تیمور کے ایک گائوں میں داخل ہوئیں اور ساتھ ہی آسمان پر امریکی ایئر کرافٹ بھی منڈلانے لگے۔ مطیع اللہ نے بتایا کہ اس کا کزن ہدایت اللہ جو کہ پیشے کے اعتبار سے ایک ڈرائیور تھا اور تین روز پہلے اس کی شادی بھی ہوئی تھی۔ ہدایت اللہ نے افغان پیرا ملٹری کی گاڑیاں دیکھتے ہی ریگستان کی طرف اپنی گاڑی دوڑادی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ ’’سر کی قیمت‘‘ دینے کے قابل نہیں لیکن ہدایت اللہ کی قسمت اتنی اچھی نہیں تھی اور امریکی ایئر کرافٹ کے افغانی حملے نے ہدایت اللہ کے چیتھڑے ریگستان کی ریت پر پھیلا دیئے، ایک ہدایت اللہ ہی اس حادثے میں بدنصیب نہیں تھا بلکہ اس کے علاوہ درجنوں عام شہری جو پیدل اور موٹر سائیکل پر بھاگے جارہے تھے ان کو طالبان سمجھ کر اس فضائی حملے میں ہلاک کردیا گیا۔
اگست کے مہینے میں کابل میں ایک ڈرون حملے میں ایک افغان امدادی کارکن اور اس کے نو قریبی رشتے دار مارے گئے تھے، اس حملے نے دنیا کی توجہ حاصل کی اور بین الاقوامی اداروں کے ٹھنڈے کمروں میں چائے کی پیالی پر طوفان بھی برپا ہوئے لیکن پھر سب کچھ پہلے جیسا ہوگیا، جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ زیادہ تر امریکی فضائی حملے کیونکہ دور دراز اور پہاڑی علاقوں کی آبادیوں میں کیے جارے تھے جہاں نہ کیمرے ہوتے، نہ موبائل سگنل اور انٹرنیٹ تو ان علاقوں میں اب تک پہنچا ہی نہیں، اس لیے وہ ’’مہذب دنیا‘‘ کی نظروں سے اوجھل ہی رہے۔
نیویارک ٹائمز کے صحافیوں نے اس واقعے کے ایک ماہ بعد بگرام کے ایک گائوں کا دورہ کیا جہاں 15 گھر آباد تھے۔ دورے کے دوران قبائلی سرداروں کے انٹرویو کیے جن میں بند تیمور کے سردار بھی تھے۔ گھنٹوں کی گفتگوئوں کے بعد سرداروں اور گائوں کے لوگوں نے جو کچھ بتایا اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امریکی فضائی حملوں اور بدعنوان افغان سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی وجہ سے کیسے طالبان کی واپسی کا راستہ بنتا جارہا ہے۔ گائوں والوں کے مطابق ان فضائی حملوں میں ہر گھر کہ کم سے کم پانچ افراد مارے جاچکے ہیں۔ ایک باپ کو فضائی حملے میں مار دیا گیا جو جنگل لکڑیاں کاٹنے جارہا تھا، ایک بھتیجا اپنی بھیڑوں کے ریوڑ کے پاس سویا ہوا تھا کہ فضائی حملہ ہوا، ایک چچا کو امریکی فوجی نے بلاجواز اس وقت گولی ماری جب وہ بازار میں رات کے کھانے کا سامان لے رہا تھا۔ ان حادثات میں سے کسی بھی حادثے کا ذکر پینٹاگون کی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں نہیں کیا گیا البتہ ان میں کچھ عام شہریوں کی ہلاکتیں اقوام متحدہ نے ریکارڈ کیں۔
یہاں پر اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ بیشتر فضائی حملے ایسی جگہوں پر کیے گئے جنہیں ’’جنگی قوانین‘‘ کی زبان میں ’’نواسٹرئیک لسٹ‘‘ میں شمار کیا جاتا ہے جیسے اسکول، بیکری، اسپتال۔ المیہ یہ ہے کہ امریکہ نے ’’نو اسٹرائیک لسٹ‘‘ میں سے بعض حساس جگہوں کو یہ بتاکر مستثنیٰ قرار دے دیا کہ ’’شدت پسند‘‘ ان حساس جگہوں کو چھپنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ’’مہذب دنیا‘‘ کے بنائے گئے تمام جنیوا کنونشنوں اور جنگی قوانین کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ جس کے پاس طاقت ہو وہ قانون کی موم کی ناک جب دل کرے موڑ سکتا ہے۔
فروری 2017ء میں موصل میں ایک اسپتال کو بزعم خود امریکہ نے فیصلہ کرلیا اور دنیا کو یہ کہہ کر فضائی حملے کا نشانہ بنایا گیا کہ یہاں سے مقامی آبادی ہجرت کرچکی ہے اور اب اس اسپتال کو داعش کے جنگجو اپنے مقامی ہیڈکوارٹر کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ حالانکہ فضائی حملے سے چند ہفتوں پہلے کی پینٹاگون کی اپنی اندرونی رپورٹ کے مطابق سیٹلائٹ کے ذریعے ایسی تصاویر دیکھی گئیں جن میں اسپتال میں بچے اور عملہ موجود تھا اور آس پاس مقامی لوگ بھی گزرتے ہوئے دیکھے جاسکتے تھے۔ اس اسپتال پر فضائی حملے میں 4 عام شہری ہلاک ہوئے اور 6 شدید زخمی ہوئے۔ تحقیقات میں پتا چلا کہ زیادہ تر فضائی حملے اس انداز میں کیے گئے جس سے مقامی علاقوں سے ناواقفیت، ناقص حکمت عملی اور کمزور انٹیلی جنس اطلاعات ظاہر ہوتی ہیں۔ جولائی 2016ء میں توخار، شام میں امریکہ کی اسپیشل آپریشن ٹاک فورس نے داعش کے ایک بڑے گروہ کی نشاندہی کی، جس جگہ داعش کے جنگجوئوں کی موجودگی کا پتا لگایا گیا وہ جگہ اس مقام سے محض دو کلو میٹر کے فاصلے پر تھا، جہاں امریکہ کی حمایت یافتہ ملیشیا، داعش سے لڑ رہی تھی۔ جب ٹاسک فورس نے دیکھا کہ داعش کے جنگجو پک اپ گاڑیوں میں اس جانب سفر کررہے ہیں جہاں اس وقت کوئی مقامی آبادی یا عام شہری موجود نہیں تھے۔ دوپہر تین بجے کے قریب اس جگہ بمباری کی گئی اور امریکہ نے بلاتاخیر یہ دعویٰ کردیا کہ اس کی فورسز نے 85 داعش کے جنگجو ہلاک کردیئے، اس کے فوراً بعد ایسی خبریں آنا شروع ہوگئی جس میں بتایا جانے لگا کہ اس فضائی بمباری میں بہت سارے عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ٹاسک فورس نے تحقیقات شروع کیں تو ان کو پتا چلا کہ 7 سے 24 عام شہری اس بمباری میں رزق خاک ہوئے جو کہ داعش کے جنگجوئوں کے ساتھ گڈمڈ تھے۔
نیویارک ٹائمز کے رپورٹروں نے دسمبر2018ء میں توخار کا دورہ کیا، بچ جانے والے گائوں کے لوگوں نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ:
’”اس رات بھی 200 گائوں والوں نے پچھلی کئی راتوں کی طرح لڑائی کی جگہ سے دور بنے 4 مکانات میں رات گزارنے کے لیے پناہ لی تاکہ اس گھمسان کی لڑائی سے بچا جاسکے۔ گائوں کے لوگوں کے مطابق ایسے کوئی شواہد نہیں تھے کہ جس سے یہ گمان بھی کیا جاسکے کہ داعش کے جنگجو ان چار گھروں میں کہیں موجود ہوں۔ اس کے باوجود رونز دو ہفتوں سے توخار کے اس علاقے میں مستقل پرواز کررہے تھے۔ اخباری نمائندوں نے ان چاروں گھروں میں مارے جانے والے معصوم لوگوں کی معلومات جمع کیں اور اس معلومات کی دوسرے ذریعوں سے تصدیق بھی کی۔ نیویارک ٹائمز کی تحقیقات کے مطابق اس ڈرون حملے میں 120 عام شہری ہلاک ہوئے تھے جس میں ایک بھی داعش کا جنگجو نہیں تھا۔ صرف کچھ مرد بچے جو کہ ملبے سے لوگوں کے اعضا نکالتے رہے۔ توخار کو اب تک کا سب سے مہلک فضائی حملہ تصور کیا جاتا ہے، جس میں سب سے زیادہ عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ امریکہ نے بھی میڈیا کے سامنے اس حملے میں ’’سویلین آبادی‘‘ کے مارے جانے کا اقرار کیا۔
اکثر غلط یا نامکمل انٹیلی جنس یا پرانی معلومات اور انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر فضائی حملے کیے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں عام شہریوں کی اموات ہوتیں۔ ایسا ہی ایک حادثہ 15 جون 2016ء کو موصل میں ہوا، جب اطلاع ملی کہ داعش کا جنگجو موٹر سائیکل پر موصل یونیورسٹی کے قریب ایک سڑک سے گزر رہا تھا۔ رمضان کا مہینہ تھا اور دکانوں اور ریڑھیوں پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ اس وقت ایک ڈرون حملہ ہوتا ہے جس میں پانچ عام شہری ہلاک اور چار شدید زخمی ہوجاتے ہیں۔ عبدالوہاب عدنان قاسم کو ایک گولے کے ذرات لگے، جو اس وقت اپنے گھر کے دالان میں لگے درخت کے سائے میں کھڑے تھے۔ زیتون عزت الدین ایک پھل فروش کی دکان پر کھڑے تھے جو اس حملے میں ہلاک ہوئے۔ دکان کا مالک الیاس علی کی ٹانگ اس دھماکے میں ضائع ہوئی تھی۔ ایک باپ اور بیٹی دھماکے کے مقام سے کچھ فاصلے پر اپنی گاڑی میں موجود تھے جو شیشے اور گولہ لگنے سے موقع پر ہلاک ہوئے۔ نوشوان عبدالمجید عبدالحکیم بھی دھماکے کے وقت مشہور آئس کریم پارلر ہموربی پر کھڑے تھے کہ ایک گولہ ان کو بھی لگا اور وہ بھی ہلاک ہوگئے۔
امریکی افواج کا ہر سانحے کے بعد یہ ہی دعویٰ ہوتا کہ ان کے پاس ’’مستند اور قابل بھروسہ معلومات‘‘ تھی لیکن عین وقت پر ’’ٹارگٹ‘‘ وہاں پر موجود نہیں ہوتا۔ یہ اموات میں وہ 10 فیصد ہلاکتیں ہیں، جن کا اعتراف امریکی دفاعی عہدیداران کی طرف سے کیا گیا۔ یہ سب کے سب ’’عام شہری‘‘ تھے لیکن اعتراف کے فوراً بعد یہ بھی دنیا کو باور کرایا جاتا رہا کہ یہ ’’ناگزیر حادثات‘‘ تھے اور ان لوگوں کو بچانا سیکورٹی فورسز کے لیے ناممکن تھا۔
بغداد کے شمال میں ضلع ہویجا میں داعش نے ایک پرانی اور کھنڈر عمارت میں کار بم فیکٹری بنائی تھی (اس فیکٹری میں گاڑیوں میں دیسی ساخت کے بم فٹ کیے جاتے اور یہ کار بم اس وقت کام آتے جب ایک جگہ ہجوم جمع ہوں) امریکی نشانہ باز (اسنائپرز) اور اسلحے کے ماہرین کافی عرصے سے اس فیکٹری پر فضائی حملے کی تیاری کررہے تھے حالانکہ اس فیکٹری کے چاروں جانب ’’سویلین آبادی‘‘ اور رہائشی عمارتیں موجود تھیں لیکن اس بات کو نظر انداز کرنے کے لیے ’’کولیٹرل ڈ میج‘‘ کی اصطلاح کا کھاتہ کھولا گیا۔ فیکٹری کے آس پاس خالی گھروں میں وہ لوگ آکر آباد ہوگئے تھے جن کے اپنے گھر لڑائی میں تباہ کردیئے گئے تھے۔ ان ہی خانماں برباد شہریوں میں ایک خدیجہ یٰسین اور ان کا خاندان بھی تھا جو کہ اپنے آبائی علاقے یترھب سے جنگ کی وجہ سے ہجرت کرکے ہویجا میں آباد ہوگیا تھا۔ انہوں نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ2 جون 2015ء کی رات کچھ زیادہ ہی گرم تھی اس لیے کھر کے سارے لوگ باہر سو رہے تھے۔ خدیجہ کی آنکھ جنگی جہازوں کی کان پھاڑ دینے والی آوازوں سے کھلی، ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔ خدیجہ یٰسین نے اپنے آنسوئوں کو ضبط کرتے ہوئے مزید بتایا کہ زیادہ تر مرنے والے وہ لوگ تھے جو جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ آپ گن نہیں سکتے تھے، ہر طرف مرے ہوئے لوگوں کے دھڑ بکھرے ہوئے تھے۔ حادثے کے بعد کی گئی ایک فوجی تحقیق کے مطابق شمالی بغداد میں ہونے والے اس فضائی حملے میں 70 سے زیادہ عام شہری مارے گئے تھے، خود خدیجہ یٰسین نے اپنے تین پوتے پوتیاں اس حملے میں کھودیے جس میں 13 سالہ محمد، 12 سالہ احمد اور 3 سالہ زہرہ شامل تھی۔ تحقیقات میں یہ بھی پتا چلا کہ ابتدائی طور پر ہویجا فضائی حملے کی منصوبہ بندی امریکی افواج نے کی تھی لیکن بم ہالینڈ کی ایئر فورس نے گرائے۔ دستاویزات سے یہ بھی پتا لگا کہ اس وقت کے امریکی وزیر دفاع نے تحقیقات کے نتائج کو چھپاتے یا دبانے کی کوشش بھی کی تھی۔ تاہم ان سنگین جرائم کو امریکی اور اتحادی افواج نے اتنی اہمیت بھی نہیں دی جتنی ان کے اپنے ملکوں میں کسی پالتو کتے کے سڑک پر مر جانے پر واویلا کیا جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک فضائی حملہ جس میں سب سے زیادہ عام شہریوں کی ہلاکتیں رپورٹ کی گئیں وہ 17 مارچ 2017ء کو کیا جاتا ہے جس میں امریکی فوج، موصل میں دو داعش کے نشانہ بازوں (اسنائپرز) کو مارنے کے لیے عمارت میں ایک فضائی حملہ کرتی ہے، جس کے نتیجے میں 103 عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکی انتظامیہ عام شہریوں کی اموات کو سرے سے رد کرتی رہی ہے اگر کسی موقع پر اس بات کو مجبوراً مانا بھی گیا تو اس کے اعداد و شمار ہمیشہ غلط بتائے گئے مثال کے طور پر پینٹاگون کے کاغذات میں بچوں کی اموات یا زخمی ہونے کا تناسب 27 فیصد بتایا گیا جبکہ نیویارک ٹائمز کی تحقیقات میں یہ تناسب 62 فیصد تک ہے۔ 40 فیصد فضائی حملوں میں زندہ بچ جانے والے کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان عام شہریوں کی مجبور زندگیوں کا کوئی ڈیٹا یا معلومات کو پینٹاگون کی خفیہ دستاویزات میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔
احتساب میں ناکامی
شام ہو یا عراق یا پھر افغانستان جب بھی کوئی فضائی حملہ کیا جاتا تو حملے کے فوراً بعد امریکی وزارت دفاع کے اہلکار ٹی وی اسکرینوں اور پریس کے سامنے اپنی کامیابی کا شور مچاتے ہیں کہ یہ امریکی انٹیلی جنس کی کامیابی ہے لیکن ہر حملے کے بعد شکوک و شبہات کا اظہار ہر طرف سے کیا جاتا۔ ایک فضائی حملے کے بعد خود داعش نے ایک پوری ویڈیو سیریز اسپتال کے کیمروں سے لی اور اسے آن لائن پوسٹ کردیا جس میں دیکھا جاسکتا تھا کہ ایک ڈرون حملے کے بعد بچوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ پینٹاگون نے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی بورڈ تشکیل دیا جس کا کام عام شہریوں کی اموات کا سبب تلاش کرنا تھا۔ اس ضمن میں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ’’پینٹاگون ریویو پروسس‘‘ وہ ادارہ ہے جو امریکی افواج کا احتساب کرسکتا ہے۔ شام اور عراق میں داعش کے خلاف جنگ میں 2014ء سے 2018ء تک8662 ریویو پروسس بورڈ اس لیے بنائے گئے کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کے واقعات میں ملوث امریکی افواج میں ذمے داروں کا تعین کیا جاسکے مگر صرف ایک درجن سے کچھ زیادہ ریویو بورڈ کی رپورٹیں منظرعام پر اب تک آسکیں اور ان چند رپورٹوں کے فیصلوں اور احکامات پر کس قدر عمل کیا گیا اس بارے میں پینٹاگون کے دستاویزات میں ایک سطر بھی نہیں لکھی گئی۔
اس بارے میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے ترجمان کیپٹن بل اربن نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ پینٹاگون اس بارے میں بہت سنجیدگی سے کام کررہی ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکتیں کم سے کم ہوسکیں۔ غلطیاں ہوتی ہیں اور ہم کوشش کررہے ہیں کہ غلطیوں سے سیکھیں لیکن ساتھ ہی ساتھ سینٹرل کمانڈ کے ترجمان نے اس بات سے اختلاف کیا کہ پینٹاگون کو ’’احتساب اور سزا‘‘ سے مکمل برات حاصل ہے۔ ترجمان نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ہر معلومات کا جائزہ کسی بھی فضائی حملے سے پہلے لیا جاتا ہے لیکن اکثر معلومات نامکمل یا ناقص قرار پائی جاتیں۔ہائے! اس زود پشیماں کا پشیمان ہونا!
پینٹاگون کے دستاویزات خود اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ معلومات اکثر ’’ناقابل اعتبار‘‘ پائی گئی تھیں، جیسے ایک گھریلو ساخت کے بم بنانے والی فیکٹری میں امونیم نائیٹریٹ (یہ ایک کیمیائی کمپائونڈ ہوتا ہے جو کہ جنگجو بم بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ کیمیائی کمپائونڈ بنانے پر پابندی ہے) کے بے شمار تھیلوں کی اطلاع ملی جبکہ اصل میں وہ کپاس کے تھیلے تھے۔ ایک گھر جس کے بارے میں یہ مان لیا گیا تھا کہ وہ داعش کا علاقائی مرکز ہے جب کہ اس گھر میں دو بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سالہاسال سے آباد تھے، یاپھر ’’ایک بالغ مرد‘‘ جس کا تعلق داعش سے بتایا گیا تھا اصل میں ایک ’’بوڑھی عورت‘‘ نکلی۔ چند مرد پانچ موٹر سائیکلوں پر سوار تیزی سے کہیں جارہے تھے لیکن خبر یہ نکلی کہ موٹر سائیکلوں پر سوار مرد کسی جگہ پر حملے کے لیے نکلے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عراق اور شام سے صومالیہ اور افغانستان تک فضائی طاقت نے اتحادی افواج کی بے انتہا مدد کی کہ وہ داعش اور طالبان سے علاقے خالی کروائیں۔ ڈرون حملوں کی مدد سے القاعدہ، الشہاب اور بوکوحرام کو ان علاقوں میں فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا جو سرکاری طور پر عملاً ’’میدان جنگ‘‘ میں شمار ہی نہیں کیے جاتے تھے۔ اپریل 2016ء تک پینٹاگون کی دستاویزات بناتے ہیں کہ امریکی فضائی حملوں میں 2500 کے لگ بھگ داعش کے شدت پسند ہلاک کیے گئے اور ان حملوں میں صرف 21 عام شہریوں کی اموات ہوئیں۔ ’’یہ سب کچھ ہماری غیر معمولی ٹیکنالوجی کی بدولت ہوا‘‘۔اسی سال سابق امریکی صدر اوباما نے یہ دعویٰ پریس بریفنگ میں کیا۔ سرکاری بیانیے کے دوسری جانب عراق اور شام میں ہر طرف لاتعداد رپورٹیں تھیں، جن میں واضح طور پر اس بات کا ذکر ہے کہ اتحادی افواج کے فضائی حملوں میں جو کہ داعش اور القاعدہ کو شہروں سے باہر دھکیلنے کے لیے ہوتے تھے ان میں ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تصدیق مختلف ذرائع سے ہوئیں۔
المیہ تو یہ ہے کہ مرنے والوں کو کوئی مردہ تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں کیونکہ جب افغانستان میں فضائی حملے میں مرنے والوں کے لواحقین ’’ڈیٹھ سرٹیفکیٹ‘‘ کے لیے حکومتی انتظامیہ کے پاس جاتے ہیں تو سرکاری اہلکاروں کا سوال یہ ہوتا ہے کہ موت کا ثبوت اور سبب لائو، اب ان بے حس امریکی ڈالروں کے بھکاری اہلکاروں کو کون سمجھائے کہ جنگی علاقوں میں فضائی حملوں کا نشانہ بننے والوں کی نہ کوئی قبر ہوتی ہے اور نہ ہی سرکاری کاغذوں میں ان کی کوئی شناخت!
پاکستان میں ڈرون حملے
پاکستان میں پہلا امریکی ڈرون حملہ 18 جون 2004ء کو ہوا۔ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں شدت پسند کمانڈر نیک محمد کو۔اس حملے میں ہلاک کیا گیا۔اس حملے میں دو معصوم بچوں کی بھی ہلاکتیں ہوئیں۔ 2004 سے 2017 تک پاکستان میں 409 ڈرون حملوں میں تین ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں۔ ان حملوں(باقی صفحہ 41پر)
میں صرف 20 فیصد “مطلوبہ ” افراد مارے گئے اور 80 فیصد ہلاکتیں عام شہریوں کی ہوئیں۔ پروفیسر مائیک اسپیگیٹ نے ایک تحقیقاتی مضمون میں لکھا کہ ڈیٹا اس طرف نشاندہی کرتا ہے کہ،پاکستان میں جیسے جیسے امریکہ نے ڈرون حملوں میں اضافہ کیا،اسی تناسب سے پاکستان میں خودکش حملے بڑھتے چلے گئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہر ایک ڈرون حملے کے 30 دن کہ اندر پاکستان میں ایک خودکش حملہ ہوتا۔ اسی تحقیق میں پروفیسر مائیک نے یہ بھی بتایا کہ 2011ء سے 2019ء کے درمیان پاکستان میں 199 ڈرون حملے ہوئے اور اس کے نتیجے میں اس عرصے کے دوران 182 خودکش حملے بھی کیے گئے، اس تحقیق میں اس رائے کو چیلنج کیا گیا ہے کہ شدت پسندوں کو ’’ہوائی طاقت‘‘ کے ذریعے ہرایا جاسکتا ہے۔ تحقیق میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ عالمی طاقتیں اس ’’دیرپا اثرات‘‘ کو نظر انداز کرتی آرہی ہیں جو ان فضائی حملوں میں عام شہریوں پر ہوتے ہیں۔
nn