عیسوی کیلنڈر کا ایک اور ورق پلٹ گیا… 2021ء ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی میں بطور انسان، بطور مسلمان اور بطور پاکستانی تلخ و شیریں یادیں چھوڑ کر اس حال میں رخصت ہوا ہے کہ کشمیر، بھارت، برما، فلسطین و شام اور دنیا کے بہت سے دوسرے خطوں میں مسلمانوں کا لہو نہایت ارزاں ہے، افغانستان میں اس سال کے دوران البتہ یہ تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی بیس برس تک کہساروں سے سر ٹکرانے اور اپنا جدید ترین اسلحہ آزمانے کے باوجود غیور افغانوں کو سرنگوں کرنے میں ناکام رہے ہیں اور عبرتناک شکست کا داغ پیشانی پر سجائے پسپائی پر مجبور ہوئے ہیں تاہم افغانستان اب بھی عرصہ محشر میں ہے کہ دشمن اب سفارتی اور معاشی پابندیوں کا ہتھیار آزما رہا ہے، افغانستان کے اثاثے منجمد کر دیئے گئے ہیں، تمام مسلمان ممالک سمیت دنیا کا کوئی ملک افغان عوام کی اپنی حکومت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں، یوں انہیں سفارتی تنہائی اور بھوک و افلاس کے ہتھیاروں سے زیر کرنے کی کوششیں جاری ہیں… اب 2022ء کا آغاز ہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا بھر کے مظلوموں کا حامی و ناصر ہو اور انہیں ظلم اور ظالموں سے نجات عطا فرمائے… آمین۔
وقت خالق کائنات کی عظیم نعمت ہے، یہ روز و شب، یہ ماہ و سال در اصل وقت ہی کا نقش ثانی ہیں، وقت ہی زندگی ہے مگر ہم اس کی قدر نہیں کرتے نہایت بے دردی سے اسے ضائع کرتے چلے جاتے ہیں، صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے، زندگی یونہی تمام ہوتی ہے اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ کس قدر قیمتی متاع سے کیسی بے خبری کے عالم میں ہم ہاتھ دھو چکے ہیں، خالص طور پر جب سے سماجی ابلاغ کے ذرائع عام ہوئے ہیں، وقت کی اہمیت بالکل ہی فراموش کر دی گئی ہے، نہ صرف نوجوان بلکہ بچے، بوڑھے، مرد و خواتین سب ہی سارا، سارا دن اور پوری پوری رات موبائل فون یا لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتے اور چٹ چیٹ کرتے گزار دیتے ہیں، کسی کو احساس ہے نہ پرواہ کہ ہم اپنی حیاتِ مستعار کا سب سے قیمتی سرمایہ کس آسانی سے برباد کر رہے ہیں۔ اہل دانش نے اس عظیم سرمائے کو برف سے تشبیہ دی ہے کہ اسے اگر مثبت اور کارآمد طریقے سے استعمال نہ کیا جائے تو اسے بہرحال بے کار میں پگھل کر ضائع ہو جانا ہے، اسے برباد ہونے سے بچانے کا واحد طریقہ اس کا مثبت، مفید اور کار آمد طور پر استعمال ہے…!!!
بحیثیت قوم ہماری نفسیات کا معاملہ عجیب ہے، ہم سنجیدگی سے اپنے مسائل کا جائزہ لے کر ان کے حل کی راہیں تلاش کرنے کی بجائے ہر وقت حیلے بہانے جشن منانے کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں، یہی حال نئے سال کی آمد ہے، جس کا بلا جواز جشن منانے پر ہم اپنے محدود مادی وسائل اور قیمتی وقت خرافات میں ضائع کرنے میں ذرہ برابر دریغ نہیں کرتے حالانکہ ایک سال کے اختتام اور نئے سال کی آمد پر سب سے اہم کام یہ ہونا چاہئے کہ ہم غور و فکر اورتدبر کریں کہ گزرے برس میں ہم نے کیا کھویا، اور کیا پایا؟ کہاں کہاں غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں، آئندہ برس کے دوران کس طرح ان کا ازالہ ممکن ہے، مگر ہمیں جشن منانے سے فرصت ملے تو اس جانب توجہ دیں حالانکہ قرآن و حدیث میں بار بار ہمیں یہ انتباہ کیا گیا ہے کہ وقت کی جو مہلت اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی کی صورت میں عطا فرمائی ہے، اس زندگی کے خاتمہ پر ہمیں جواب دینا ہو گا کہ اسے کیسے اور کن کاموں میں خرچ کیا؟ زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب ہم سے لیا جائے گا مگر ہمیں اس کی قطعی فکر نہیں…!!!
قومی سطح پر بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کیوں روز بروز مائل بہ تنزل ہیں، مادیت اور معاشی مسائل میں تو شاید بہت سی مجبوریوں، مشکلات اور مسائل ہم گنوا سکتے ہیں مگر سماجیات اور اخلاقیات میں ہم جس تیز رفتاری سے روبہ زوال ہیں اس کا کیا جواز پیش کیا جا سکتا ہے ؟ ہم اپنی اسلامی روایات اور دینی اقدار سے جس طرح لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں اس کی وجہ غربت و افلاس تو بہرحال نہیں مصور پاکستان علامہ اقبالؒ نے ایک صدی قبل ہمیں سمجھایا تھا:۔
سبب اس کا کچھ اور ہے جسے تو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
آیئے نئے سال کے آغاز پر ہم عزم کریں کہ زندگی کی صورت میں ہمارے خالق و مالک نے وقت کی جو عظیم نعمت ہمیں عطا فرمائی ہے ہم اس کا ایک ایک لمحہ انسانیت کی فلاح و اصلاح اور معاشرے میں اچھی اقدار و روایات کے فروغ کے لیے استعمال میں لائیں گے تاکہ جب یہ سال اختتام پذیر ہو تو ہمیں اس کے ضیاع پر پشیمان نہ ہونا پڑے۔ ایں دعا از من و از جملہ آمین باد۔
(حامد ریاض ڈوگر)