آنحضورﷺ کو خصوصی حکم

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (المائدہ5:67)
اے پیغمبر! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچادو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔ یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلے میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا۔
آپؐ کو اپنی قوم کو ڈرانے کا حکم
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ (المدثر74:2-1)
”اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور خبردار کرو۔“
اس موقع پر رسول اللہؐ کو يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ یا يَا اَیُّھَا النَّبِیُّکہہ کر مخاطب کرنے کے بجائے يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ کہہ کر کیوں مخاطب کیا گیا ہے۔ چونکہ حضورؐ یکایک جبریلؑ کو آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے دیکھ کر ہیبت زدہ ہوگئے تھے اور اسی حالت میں گھر پہنچ کر آپ نے اپنے اہلِ خانہ سے فرمایا تھا کہ مجھے اڑھائو، مجھے اڑھائو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ کہہ کر خطاب فرمایا۔ اس لطیف طرزِ خطاب سے خودبخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اے میرے پیارے بندے! تم اوڑھ لپیٹ کر لیٹ کہاں گئے، تم پر تو ایک کارِ عظیم کا بار ڈالا گیا ہے جسے انجام دینے کے لیے تمہیں پورے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔
یہ اسی نوعیت کا حکم ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کو نبوت کے منصب پر مامور کرتے ہوئے دیا گیا تھا کہ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (نوح17:1) ”اپنی قوم کے لوگوں کو ڈرائو قبل اس کے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آجائے“۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے! اٹھو اور تمہارے گرد و پیش خدا کے جو بندے خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ان کو چونکا دو۔ انہیں اُس انجام سے ڈرائو جس سے یقیناً وہ دوچار ہوں گے اگر اسی حالت میں مبتلا رہے۔ انہیں خبردار کردو کہ وہ کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہیں جس میں وہ اپنی مرضی سے جو کچھ چاہیں کرتے رہیں اور ان کے کسی عمل کی کوئی بازپرس نہ ہو۔ (تفہیم القرآن، ششم، ص:142، المدثر، حاشیہ:2-1)
رب کائنات کی بڑائی کا اعلان کرنے کا حکم
وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (المدثر74:3)
”اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔“
یہ ایک نبی کا اوّلین کام ہے جسے اِس دنیا میں اُسے انجام دینا ہوتا ہے۔ اس کا پہلا کام ہی یہ ہے کہ جاہل انسان یہاں جن جن کی بڑائی مان رہے ہیں اُن سب کی نفی کردے اور ہانکے پکارے دنیا بھر میں یہ اعلان کردے کہ اس کائنات میں بڑائی ایک خدا کے سوا اور کسی کی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کلمہ اللہ اکبر کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اذان کی ابتدا ہی اللہ اکبر کے اعلان سے ہوتی ہے۔ نماز میں بھی مسلمان تکبیر کے الفاظ کہہ کر داخل ہوتا ہے اور بار بار اللہ اکبر کہہ کر اٹھتا اور بیٹھتا ہے۔ جانور کے گلے پر چھری بھی پھیرتا ہے تو بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر پھیرتا ہے۔ نعرئہ تکبیر آج ساری دنیا میں مسلمان کا سب سے نمایاں امتیازی شعار ہے، کیونکہ اس امت کے نبیؐ نے اپنا کام ہی اللہ کی تکبیر سے شروع کیا تھا۔
اس مقام پر ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جیسا کہ ان آیات کی شانِ نزول سے معلوم ہوچکا ہے، یہ پہلا موقع تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا عظیم الشان فریضہ انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور یہ بات ظاہر تھی کہ جس شہر اور معاشرے میں یہ مشن لے کر اٹھنے کا آپؐ کو حکم دیا جارہا تھا وہ شرک کا گڑھ تھا۔ بات صرف اتنی ہی نہ تھی کہ وہاں کے لوگ عام عربوں کی طرح مشرک تھے، بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ تھی کہ مکہ معظمہ مشرکینِ عرب کا سب سے بڑا تیرتھ بنا ہوا تھا اور قریش کے لوگ اس کے مجاور تھے۔ ایسی جگہ کسی شخص کا تن تنہا اٹھنا اور شرک کے مقابلے میں توحید کا علَم بلند کردینا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ اس لیے ’’اٹھو اور خبردار کرو‘‘ کے بعد فوراً ہی یہ فرمانا کہ ’’اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو‘‘ اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ جو بڑی بڑی ہولناک طاقتیں اس کام میں تمہیں مزاحم نظر آتی ہیں اُن کی ذرا پروا نہ کرو اور صاف صاف کہہ دو کہ میرا رب اُن سب سے زیادہ بڑا ہے جو میری اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے کھڑے ہوسکتے ہیں۔ یہ بڑی سے بڑی ہمت افزائی ہے جو اللہ کا کام شروع کرنے والے کسی شخص کی، کی جاسکتی ہے۔ اللہ کی کبریائی کا نقش جس آدمی کے دل پر گہرا جما ہوا ہو وہ اللہ کی خاطر اکیلا ساری دنیا سے لڑجانے میں بھی ذرہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے گا۔ (تفہیم القرآن، ششم، ص: 143-142، المدثر، حاشیہ:3)