کتاب
:
ڈاکٹر سید احسان اللہ شاہؒ
حیات و خدمات
مرتب
:
سید ضیا اللہ شاہ ایڈووکیٹ
صفحات
:
468 قیمت: 600 روپے
ناشر
:
ادارہ معارفِ اسلامی، منصورہ ملتان روڈ، لاہور
یہ کھاریاں کے ڈاکٹر سید احسان اللہ شاہ شہیدؒ کی یاد اور حالات پر مشتمل گراں قدر تصنیف ہے۔ ڈاکٹر حافظ ساجد انور صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’جماعت اسلامی کی تشکیل کچھ ایسی نیک گھڑی میں ہوئی کہ اس کے ارکان اللہ کے دین کی اقامت کے لیے شب و روز محنت تو کرتے ہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں استقامت و ثابت قدمی کے ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں انہیں اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے، اور وہ اپنے اللہ کے لیے راضی ہوکر تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ کہہ سکتے ہیں:
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے کہ انہوں نے ایک پُرآشوب دور میں مسلمانوں کو اقامتِ دین کا فرض ادا کرنے کے لیے یکسو کردیا۔ اس دور میں مسلمانوں کا شیرازہ منتشر ہوچکا تھا۔ ایک استعماری طاقت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلمان جدوجہد کررہے تھے۔ ایک قابلِ ذکر تعداد غیر مسلموں کے ساتھ اتحاد و اتفاق کی پینگیں بڑھا رہی تھی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے ہند، احرار پارٹی، خاکسار پارٹی اور نہ جانے کتنی پارٹیاں اپنے اپنے خیال میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کررہی تھیں، ان حالات میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت اسلامی کی تشکیل کی، اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اقامتِ دین کا علَم سربلند کیا۔ یہ جماعت آج بھی سرگرم عمل ہے۔
سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا کے پار ہو گا
اسی قافلۂ سخت جاں کے سختی کشانِ عشق، اپنے اپنے وقت میں اللہ کے حضور پہنچ گئے۔ ایسے بلاکشانِ راہِ محبت و عشق کے بارے میں کہا گیا ہے:
’’ایمان لانے والے لوگوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا ہے اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انہوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘‘(الاحزاب 23:33)
جماعت اسلامی کے ایسے ہی سرفروشوں میں ڈاکٹر سید احسان اللہ شاہ شہید بھی شامل تھے، جنہیں اقامتِ دین کی جماعتی سرگرمیوں میں اس قدر دلچسپی، لگائو اور انہماک تھا کہ شب وروز اسی محنت میں گزرتے تھے۔ ان کا حلقۂ تعارف بہت وسیع تھا۔ جماعت کے تمام شعبوں سے رابطہ رکھتے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے، کہیں خواتین کے درسِ قرآن کا بندوبست کررہے ہیں، کہیں طلبہ کے پروگراموں میں حاضری دے رہے ہیں، کہیں اساتذہ کی ہمت افزائی ہورہی ہے اور کہیں طالبات کے قرآنی دعوت کے پروگرام کی تنظیم کررہے ہیں۔ ایک ایسا اسپتال بھی ان کی نگرانی میں کام کررہا ہے جس کی سرگرمیاں اور توجہات الگ ہیں۔ اس اسپتال میں مستحقین کا مفت علاج ہوتا ہے۔ ان تمام کاموں کو خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے۔ جماعت اسلامی کے پروگراموں میں بھی ہمہ تن مصروف رہتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی عمل سے بھرپور زندگی رفقا کے لیے مہمیز کا کام دیتی تھی اور کارکنوں کے لیے تحرک کا باعث بنتی تھی۔
زیر نظر کتاب میں سید احسان اللہ شاہ شہید کی زندگی کے متنوع پہلو سامنے آتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ نمایاں پہلو جماعتی سرگرمیوں کا پہلو ہے، جسے وہ کسی صورت نظرانداز نہیں ہونے دیتے تھے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کارِ جہانبانی کی گوناگوں صفات سے نوازتا ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کو دیکھا جائے تو انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ یہ لوگ اسی معاشرے کے افراد ہیں جہاں دنیا جہاں کی خرابیاں اپنی تباہ کاریوں سمیت موجود ہیں۔ جہاں اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانیاں ہوتی ہیں، جہاں اللہ کی قائم کردہ حدود کو توڑا جاتا ہے اور انہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسی معاشرے میں دیانت، امانت، خدا خوفی اور خدا ترسی کے پیکر یہ مجاہدینِ اسلام سرگرم ِعمل ہیں۔ا نہیں کسی سے مادی مفادات کی غرض نہیں، انہیں صرف اس کی فکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون نافذ ہوجائے۔
سید احسان اللہ شاہ شہید کو اللہ تعالیٰ نے مردم شناسی کی خوبی بھی عطا کی تھی۔ انہوں نے اپنے ماحول سے ایسے باصلاحیت افراد کو چنا اور انہیں اقامتِ دین کی سرگرمیوں میں اس قدر فعال کردیا کہ وہ آج بھی جماعتی پروگراموں میں یکسو ہوکر فرائض ِمنصبی ادا کررہے ہیں۔ سید شہید نے ڈاکٹروں کی تنظیم پیما (PIMA) میں بھی بھرپور کردار ادا کیا اور ہر لحاظ سے انہیں اپنا تعاون پیش کیا۔ ان کے رفقا اور دم ساز اس بات کے گواہ ہیں کہ سید شہید قول کے پکے، کام کے سچے، جماعتی پروگراموں کے فعال کارکن تھے۔ ہم نے ہر شعبۂ زندگی کے کارکنوں سے سنا ہے کہ سید شہید ان کے ساتھ نہایت مخلصانہ روابط کے ساتھ بے لوث تعاون فرماتے تھے۔ یہ تعاون کسی پر احسان نہ ہوتا تھا۔ انہیں کام کرتے دیکھ کر محسوس ہوتا کہ وہ کام اس جذبے سے سر انجام دیتے تھے جیسے یہ ان کا کام ہو۔
سید شہید اپنے رفقا میں یہ جذبہ بھی پیدا کرتے تھے کہ ان کا اصل کام اقامت ِدین کا کام ہے۔
ہمیں امید ہے کہ قارئین کتاب کے مطالعے سے ایک ایسے رکنِ جماعت اور ذمہ دار سے واقفیت حاصل کریں گے جس نے اپنی زندگی اللہ کے دین کی اقامت کے لیے وقف کیے رکھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی کو قبول فرمائے۔
ادارہ معارفِ اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کی سوانح عمری شائع کرتا رہتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ قارئین اس کتاب کی بہتری کے لیے اپنے مفید مشوروں سے ضرور نوازیں گے‘‘۔
ڈاکٹر سید احسان اللہ شاہ کا تعلق لالہ موسیٰ اور کھاریاں ضلع گجرات سے تھا، لیکن ان کی پیدائش 10 اکتوبر 1958ء کو کراچی میں ہوئی۔ ان کے والد سید عبداللہ شاہ ترمذی پاکستان نیوی میں ملازمت کے سلسلے میں کراچی میں مقیم تھے۔ سید احسان اللہ شاہ نے اسلامیہ ہائی اسکول لالہ موسیٰ سے میٹرک کا امتحان نمایاں حیثیت سے پاس کیا اور اسکول میں اوّل رہے۔ ڈی جے سائنس کالج کراچی سے ایف ایس سی، پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ زمانۂ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم رہے، کئی دفعہ گرفتار اور ’’سرکاری مہمان‘‘ بھی رہے۔ 26 دسمبر 1987ء کو جماعت کی رکنیت منظور ہوئی۔ رکنیت کی منظوری کے بعد سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور لالہ موسیٰ میں اپنا کلینک بنالیا۔ انہیں اپنی خوش اخلاقی اور حسنِ سلوک سے بہت جلد کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کی واضح مثال لالہ موسیٰ جی ٹی روڈ پر سید عبداللہ شاہ اسپتال ہے جو مرجع خلائق کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔
شاہ صاحب جماعت اسلامی ضلع گجرات کے امیر، صوبہ پنجاب کے نائب قیم، مرکزی شوریٰ اور مرکزی عاملہ کے رکن رہے۔ شاہ صاحب کا پورا گھرانہ تحریکی ہے۔ ان کی اہلیہ ناظمہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی صوبہ پنجاب (شمالی)، چھوٹے بھائی آج کل امیر جماعت اسلامی ضلع گجرات ہیں۔ 11 مارچ 2015ء کو تحریک اسلامی کا گلِ سرسبد شہادت کا رتبہ پاکر راہیِ ملکِ عدم ہوا۔
رکے تو چاند جیسا تھا چلے تو ہوائوں جیسا تھا
وہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھائوں جیسا تھا
کتاب کے مضامین چار حصوں میں منقسم ہیں۔ پہلے حصے میں تحریکی احباب کی یادیں 52 مضامین کی صورت میں درج ہیں، دوسرے حصے میں ’’درونِ خانہ‘‘ کے عنوان سے 16 مضامین ہیں جو اُن کے اہلِ خانہ اور رشتے داروں نے تحریر کیے ہیں، تیسرے حصے میں ’’بیرونِ خانہ‘‘ کے تحت 46 مضامین ہیں، چوتھے حصے میں پیغامات کے تحت 8 پیغام ہیں۔
راجا شوکت وکٹر، لالہ موسیٰ کے مسیحی رہنما تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر سید احسان اللہ شاہ مرحوم مسیحی برادری پر بہت شفقت کرتے تھے۔ مرحوم بہت غریب پرور تھے اور مسیحی برادری کے ساتھ جتنی شفقت اور ہمدردی ڈاکٹر سید احسان اللہ شاہ کرتے تھے وہ کبھی کسی اور کی طرف سے اس برادری کو نہیں ملی۔ مسیحی برادری علاج کے لیے انہی کے پاس آتی تھی، اور جب بھی برادری کے لوگوں کو بل کا مسئلہ ہوتا تھا، ڈاکٹر صاحب اسے حل فرما دیتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو جو دیا جاتا وہ اسے قبول کرلیتے اور ہماری درخواست بھی مان لیتے تھے۔ وہ حقیقت میں بہت ہی انسان دوست شخصیت کے مالک تھے۔ کسی تقریب یا کھانے پینے کے پروگرام میں مسیحی برادری کو نہ بھولتے تھے۔ راشن تقسیم کرتے تو بھی ہمارا حصہ ہمیں ضرور ملتا۔ مذہبی تہواروں پر بھی غریب مسیحیوں کو ان کا حصہ ضرور ملتا تھا۔ اس لیے مسیحی برادری کو ان کی جدائی بہت محسوس ہوتی ہے۔ میں جب بھی اسپتال کے قریب سے گزرتا ہوں تو بڑی حسرت ویاس سے اسپتال کی طرف دیکھتا ہوں۔ وہ اچھے دن میری نظروں کے سامنے گھومتے ہیں۔ ہم ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں‘‘۔
کتاب مجلّد ہے، سفید کاغذ پر خوب صورت طبع ہوئی ہے۔