عبدالجبار صدیقی مرحوم : ”نکل کر خانقاہوں سے اداکررسم ِ شبیری ‘‘کی عملی تفسیر

بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنھیں دیکھ کر اللہ کی یاد آجاتی ہے، درحقیقت ایسے ہی لوگ اللہ کے ولی ہوتے ہیں، جو ہنستے بھی ہیں، جو میسر ہوکھا لیتے ہیں اور جودستیاب ہو مہمانوں کے لیے پیش کردیتے ہیں۔ نرم مزاج، مشفق انداز رکھتے ہیں۔ عبدالجبار صدیقی مرحوم بھی ایسی ہی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ انہیں عمر کے جس حصے میں دیکھا وہ پیرانہ سالی کا تھے۔گھنی سیاہ سفید پلکیں، قلب گزیں بڑی بڑی روشن آنکھیں، قدرے بڑی سفید داڑھی، سفید رنگت اور سفید لباس زیب تن کیے، ایک ہاتھ میں لاٹھی اور دوسرے ہاتھ میں تھیلا پکڑے نظر آتے تھے۔ نہ جانے اپنے ساتھ لاٹھی کیوں رکھتے تھے! خود سہارا لیتے تھے یا لاٹھی کو دیتے تھے! ہوسکتا ہے کہ عصائے موسوی سمجھ کر ساتھ رکھتے ہوں، البتہ تھیلے کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اس سے ہینڈبل، اخبار یا رسالے کا اقتباس یا کتابچہ برآمد ہوتا اور وافر تعداد میں عنایت ہوتا۔
عبدالجبارصدیقی مرحوم سندھ میں سیہون اور پاٹ شریف کے ایک سندھی علمی و ادبی گھرانے میں 1939ء میں پیدا ہوئے۔ سندھ یونی ورسٹی سے میٹرک اورسچل سرمست آرٹس کالج تلک چاڑی حیدرآباد سے انٹر کیا۔ جب فوج میں ملازمت اختیار کی تو جنرل محمد ایوب خان نے صدرِ ِپاکستان میجر جنرل ریٹائرڈ اسکندرمرزا کے حکم پر مارشل لا نافذ کیا اور پھر خود ہی سیاہ وسفیدکے مالک بن بیٹھے۔ ایوب خان نے ایک حکم نامے کے ذریعے سپاہ سے حلف ِوفاداری لیا۔ عبدالجبار صدیقی نے اِس حلف ِذات کو قرآن وسنت سے متصادم سمجھتے ہوئے فوج سے استعفیٰ دے دیا۔ استعفیٰ دینا تھاکہ محکمہ جاتی تفتیش شروع ہوگئی۔ خاندان کا حسب نسب اور رابطے تلاش کیے گئے، مگر کچھ ہاتھ نہ آیا، اس کے باوجودکورٹ مارشل کا قوی خدشہ تھا۔ والد صاحب نے جو خود بھی ایک عالم دین اور پیر ایرانی کے حلقے میں شامل تھے، خود دعائیں کیں اور پیرایرانی سے خصوصی دعاکرائی۔ یہ دعائیں رنگ لائیں اورفوج سے زندہ سلامت، بقایا جات اور پنشن کے ساتھ رخصت مل گئی۔ ایس کے رحیم اسکول کلاتھ مارکیٹ میں بحیثیت معلم خدمات انجام دیں۔ معروف شاعر پروفیسر عنایت علی خان مرحوم اور سابق میئرحیدرآباد آفتاب احمد شیخ بھی یہیں تعینات تھے اور ان کے ساتھ اچھادوستانہ تھا۔ کچھ عرصہ ٹیکنیکل کالج وحدت کالونی حیدرآباد میں ملازمت کی۔ بی ڈی ممبری سے کونسلری، اور بعد تک مختلف چھوٹی موٹی ملازمتیں کی۔
مخدوم عبدالجبارصدیقی کو عموماً تین حوالوں سے جانا جاتا ہے :1۔پیرایرانی کے مریدوخلیفہ، 2۔کونسلر، 3۔ ہینڈ بل، خطوط اور کتابچوں کے ذریعے اربابِ اختیارکو متوجہ کرنے والے۔ جب کہ تصنیف وتالیف و ترجمہ کا ایک اورشخصی حوالہ بنتا ہے۔
عبدالجبارصدیقی مرحوم سندھ کے معروف روحانی بزرگ حضرت پیرایرانی کے مریدِخاص اور خلیفہ تھے۔ حضرت پیرایرانی کا اصل نام سید مصطفی صبغتہ اللہ شاہ ایرانی اور المعروف پیرایرانی ہے،آباء واجداد کا تعلق تہران، ایران سے تھا۔ اسی نسبت سے پیرایرانی کہلائے۔ 1930ء میں ہندوستان میں موہڑہ شریف آئے، وہاں سے پہلے سکھر، پھر کراچی اور حیدرآباد پہنچے۔ حیدرآباد کینٹ جیسے حساس علاقے میں قیام کو انگریزراج نے پسند نہ کیا تو فیض آباد یوپی چلے گئے اورپھر مستقل حیدرآباد تشریف لے آئے اوراپنی وفات 27 دسمبر 1938ء تک فقیرکاپڑ پر رہائش پذیر رہے۔ پیرایرانی ایک عالمِ دین، صاحب، کرامات بزرگ اور پابندِ شریعت تھے، 1986ء میں ان کی وفات ہوئی۔تدفین ادارۂ مصطفائیہ شادی شہیدگائوں خیرپورمیرس میں ہوئی۔ان کا اصلاح کرنے کا اندازبھی نہایت خوب تھا۔ایک دفعہ مخدوم عبدالجبار صدیقی مرحوم کی نمازِعشاء قضاہوگئی۔ رات خواب میں پیرایرانی کی زیارت ہوئی۔ جب اس خواب کاذکر آپ نے پیرایرانی سے کیاتوانھوں نے کہا:’’ہوسکتاہے کہ میری کوئی نمازقضاہوگئی ہواورآپ ایسے شخص کے مریدہیں جس کی نمازبھی رہ جاتی ہے۔‘‘اس پرانھیں اپنی گزشتہ قضاء نمازیادآگئی۔پیرصاحب کی جانب سے اسپیشل پاورآف اٹارنی ملاجس کے تحت جام شورومیں موجودزرعی زمینوں کی نگرانی،حساب کتاب، وصولی اور متعلقہ دفتر سے معاملات کااختیاردیاگیا۔جھرک سائٹ ضلع ٹھٹہ میں ایک قدرے غیر آبادسی مسجدمیں گوشہ نشین رہنے لگے اورپھر پیر صاحب کے حکم پر جھرک سائٹ ضلع ٹھٹہ میں ادارہ مصطفائی گلشن قائم کیا،اسی جگہ مستقل قیام کیا۔
ان کی شخصیت کا دوسرا غالب پہلو خلق ِ خداکی خدمت تھی۔ ایک دفعہ بی ڈی ممبر اور دو مرتبہ کونسلر رہے۔ ایوب خان نے بنیادی جمہوریت (BD) کے مقامی حکومت کے انتخاب کا اعلان کیا، وحدت کالونی قاسم آباد حیدرآباد سرکاری ملازمین کی کالونی تھی، وہاں سے ایک شرابی شخص نے فارم بھردیا، مقابلے پر کوئی امیدوار نہ تھا، لہٰذا بلامقابلہ منتخب ہونے کا امکان پیداہوگیاجس سے ملازمین میں تشویش پیدا ہوئی کہ اگر یہ شخص منتخب ہوگیا تو پھر دھڑلے سے غلط کام کرے گا اورکوئی اسے روک نہ سکے گا۔ کالونی ملازمین کی نگاہِ انتخاب عبدالجبار صدیقی پر پڑی، وہ سرکاری ملازم ہونے کے سبب اہل تھے نہ ہی راضی تھے۔ کالونی کے ملازمین پیرایرانی کے پاس گئے اور یہ پیشکش بھی کی کہ اگرعبدالجبارصدیقی ملازمت سے استعفیٰ دے کر انتخاب لڑتے ہیں تو ان کے ملازمت کا انتظام ہم کردیں گے۔ انھوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ پرنسپل نے استعفیٰ رکھتے ہوئے کہا: اگر تم جیت گئے تواستعفے پر آج کی تاریخ ڈال دوں گا، ورنہ دوبارہ جوائن کرلینا۔ یوں عبدالجبارصدیقی بی ڈی ممبر منتخب ہوگئے اور شہر حیدرآباد میں اپنے اور پرائے سب کے مطابق مثالی کونسلر ثابت ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں دو مرتبہ مسلسل کونسلر منتخب ہوئے۔ جس حلقے سے منتخب ہوتے رہے وہ فقیرکاپڑ اور اردگردکے علاقے پر مشتمل سب سے بڑا حلقہ تھا۔
ان کی شخصیت کا تیسرا نمایاں پہلو ارباب ِاختیارکی اصلاح کرنا اور مختلف معاملات پر توجہ دلانا تھا۔ اس کے لیے وہ کسی خبر کے تراشے کو منتخب کرتے اور فوٹوکاپی یا کمپوزکرواکے ارسال کردیتے، اورکبھی کھلاخط بھجواتے جس میں لکھا ہوتاکہ یہ آپ کی وجہ سے ہورہا ہے، یاآپ صاحب ِ اختیار ہیں، ایسا ہونے سے روک سکتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرامین کو بطور ِ حوالہ بھی منسلک کردیتے۔ یہی چیزیں مختلف دینی وسیاسی جماعتوں کے سربراہان، وکلا، صحافیوں سمیت بہت سے لوگوں کو ارسال کرتے تھے۔ ان کے اس عمل سے کچھ کام بن جاتے اورکچھ بگڑ جاتے تھے، لیکن وہ جسے حق سمجھتے تھے اس کے لیے ڈٹ جاتے تھے۔ اسلام اور پاکستان سے محبت گویا ان کی گھٹی میں رچی بسی تھی۔ ان کی پوری زندگی ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم ِ شبیری‘‘کی عملی تفسیر نظرآتی ہے۔ اس رسم کو انھوں نے آخر تک نبھانے کی کوشش کی۔
آپ نے تصنیف وتالیف کا بھی کام کیا ہے۔ پیرایرانی کے حکم پر المصطفیٰ رسالے کو سالانہ شماروں کے حساب سے 12،12 جلدوں میں یکجا کرکے ریکارڈ محفوظ کیا۔ وقتاً فوقتاً لکھے گئے متفرق مضامین اور انتخاب پرمشتمل ’’مجھے ہے حکم اذاں‘‘، مصطفائی سلسلے پر مشتمل کتابچہ ’’شجرۂ مصطفائیہ‘‘، آپ بیتی ’’جب قواعد و قوانین قرآن وسنت کے مطابق ڈھالے جائیں گے‘‘، تصوف پر’’اللہ ماسوائے انسان اور اللہ‘‘، ’’مینائے مصطفیٰ‘‘ اور سندھی میں تراجم میں حکمت ودانائی کے اقوال پر مشتمل ’’کتا ب الحِکَم‘‘،’’ قصیدہ بردہ شریف‘‘، سہروردیہ سلسلے کے بانی شیخ شہاب الدین سہروردیہ کی کتاب ’’عوارف المعارف ‘‘، دسویں صدی ہجری کی مولانا غوثی مانڈوی کی فارسی تصنیف ’’گلزارِابرار‘‘ اور مولانا رومی کی تشبیہات پر مولانا عبدالحکیم کی تصنیف ’’تشبیہات ِ رومی‘‘ شامل ہیں۔
ان کا روزکا معمول تھاکہ صبح سویرے جھرک سے حیدرآباد آتے تھے۔ سب سے پہلے روزنامہ جسارت خریدتے تاکہ حالاتِ حاضرہ سے درست واقفیت حاصل ہوسکے۔ وہ اوپی ڈی اور سول اسپتال میں مریضوں کی تیمارداری کرتے اور اپنی استطاعت کے مطابق مریضوں کی ہرممکن مددکرتے تھے۔ طبی عملے اور انتظامیہ سے انھی معاملات پر ہلکان ہوئے جاتے تھے۔ اگرچہ اپنے پاس موبائل فون نہیں رکھتے تھے، اس کے باوجود سب سے رابطہ رکھتے۔ واقفانِ حال کوبخوبی معلوم تھا کہ وہ روزانہ صبح سے سہ پہر تک سول اسپتال میں کہیں نہ کہیں مل جائیں گے۔ اس کے بعد جھرک چلے جاتے تھے۔ جمعہ کو جھرک میں قیام کرتے اور وہیں نمازِجمعہ پڑھاتے تھے۔ جھرک میں رابطے کے لیے انھوں نے ایک ماسٹر احمد مصطفائی کا موبائل نمبر دیا ہوا تھا۔ میری اکثر ان سے ملاقاتیں دفتر جماعت اسلامی یا سول اسپتال کے آس پاس ہوتی تھیں جہاں سے وہ جھرک جانے کے لیے ٹھٹہ کی وین میں سوارہوتے تھے۔ مجھ سمیت اکثر لوگ انھیں جماعت اسلامی کا سمجھتے تھے، اگرچہ وہ تنظیمی طورپر کبھی جماعت کاحصہ نہیں رہے لیکن نظریاتی طور پر خودکوجماعت اسلامی سے جدا بھی نہیں سمجھتے تھے۔ حیدرآباد کے سابق امیر میاں محمد شوکت ؒاور عبدالوحیدقریشی سے بطورِ خاص تعلق قائم تھا، جماعت نے کونسلر کے انتخاب میں انھیں سپورٹ کیا۔
مخدوم عبدالجبار صدیقی مرحوم کا تعلق ایک علمی خاندان سے تھا۔ دادا احمدصدیقی اعزازی مجسٹریٹ اورلاڑکانہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے پہلے منتخب صدر تھے، منصفی کے فرائض کے سبب قاضی کہلائے، یہی وجہ ہے کہ اولاد میں بہت سے افراد نے صدیقی کے ساتھ ساتھ ’’قاضی‘‘کے سابقے کو اپنے نام کاجزو بنایا۔ والد مولوی علی گوہر صدیقی پاٹ شریف دادو سے مستقل حیدرآباد آگئے تو یہاں گورنمنٹ ہائی اسکول لطیف آباد میں عربی استاد اورجامع مسجد وحدت کالونی میں پیش امام مقرر ہوئے۔ عبدالجبارصدیقی بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ دوسرے بھائی قاضی عبدالستارصدیقی ہیں۔ یہ اطلس کیبل فیکٹری کوٹری کے جنرل منیجر رہے ہیں۔ تیسر ے بھائی ڈاکٹرعبدالشکورقاضی جناح اسپتال کراچی کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔ چوتھے عبدالغنی صدیقی ایس ایس پی اینٹی کرپشن تھے کہ کوئٹہ میں مع اہلِ خانہ شہید کردیے گئے، ان کی یاد میں غنی ٹرسٹ قائم کیا جس کے تحت سندھی مسلم ہائوسنگ سوسائٹی میں غنی اسپتال ہے، عبدالجبارصدیقی ٹرسٹ کے چیئرمین تھے۔ چوتھی ہمشیرہ ہے، پانچویںحافظ میاں کلیم اللہ صدیقی حیدرآباد ائیرپورٹ کے سیکورٹی سپرنٹنڈنٹ تھے،آج کل انورولاز میں غنی ایجوکیشنل سوسائٹی کے قائم کردہ سٹی ماڈل اسکول کے مالک ہیں۔ چھٹے اورسب چھوٹے مخدوم سلیم اللہ صدیقی سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ ’’پاٹ ہائوس‘‘ کے بانی و پبلشر ہیں۔ والدین نے شادی کی تھی لیکن زوجین کی نبھ نہ سکی البتہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، بیٹاکاروبار سے منسلک ہے اور صاحبزادی اسلام آباد میں خاتون ِخانہ ہیں۔ 3نومبر 2020ء بمطابق 17ربیع الاول1441ھ بروزمنگل دوپہر ڈیڑھ دوبجے کے درمیان دورانِِ وضوخالق ِحقیقی سے جاملے اور آبائی علاقے پاٹ شریف دادو میں والدین کی قبور کے ساتھ ہی آسودۂ خاک ہوئے۔
آسماںتیری لحدپہ شبنم افشانی کرے۔ آمین