مشفق خواجہ کوئی اور نہیں

ادب کی دنیا میں اعتراف (recognition) آج کے ادیب اور شاعر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ہم سب اِلَّا ماشاء اللہ، اسی انسانی کمزوری کا شکار ہیں۔ جو کچھ ہم لکھتے ہیں، اس پر ہمیں داد ملنی چاہیے۔ اگر کتاب چھپے (اور کیوں نہ چھپے بلکہ اگر ہر سال ایک نئی کتاب چھپے تو کیا خوب ہے!)فلیپ پر تعریفی کلمات، ایک تحسینی دیباچہ، چند توصیفی تقریظیں… پھر اخبارات و رسائل میں کچھ تبصرے، ایک دو شہروں میں بلکہ اگر ہوسکے تو بیرونِ ملک اُردو کی نئی بستیوں میں تقریباتِ اجرائی و رونمائی… صاحبِ کتاب کے بارے میں کسی ادبی رسالے کا خاص نمبر یا گوشہ ہی سہی۔ اگر صاحبِ کتاب شاعر ہیں تو ان کا بلند پایۂ کلام ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر بھی ہونا چاہیے۔ اب صاحبِ کتاب کو، اس کتاب پر کوئی ادبی ایوارڈ بھی ملے اور ”صدارتی تمغائے حسنِ کارکردگی“ کی خواہش تو بالکل فطری ہے۔ مشفق خواجہ ان سب باتوں سے بے نیاز بلکہ نفور تھے۔
خواجہ صاحب ایک مہذّب، مستغنی اور شائستہ انسان تھے۔ انھوں نے اس درجہ اپنی تہذیبِ نفس کرلی تھی کہ وہ ہر طرح کے نام و نمود، جاہ و منصب اور مال و منال کی ہر خواہش سے بے نیاز ہوچکے تھے۔ علّامہ اقبال کا یہ مصرع ان پر صادق آتا ہے:
ایّام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر
ہماری بعض جامعات میں، زندہ شخصیاتِ ادب پر سندی مقالے لکھوانے کی روایت موجود ہے۔ خواجہ صاحب ہر اعتبار سے اس کا استحقاق رکھتے تھے کہ ان کے علمی و ادبی کارناموں کو موضوعِ مقالہ بنایا جائے، مگر وہ اسے پسند نہیں کرتے تھے کہ ان پر کچھ لکھا جائے۔ وہ علمی و تحقیقی کام کرنے والوں کی ممکنہ حد تک اور خوش دلی کے ساتھ مدد کرتے، مگر اپنے معاملے میں وہ کسی طرح کا تعاون کرنے سے صاف انکار کردیتے تھے۔2001ء کی بات ہے کہ پروفیسر تحسین فراقی صاحب نے اپنے ایک شاگرد حافظ محمد قاسم (متعلم ایم اے اردو، اورینٹل کالج لاہور) کے تحقیقی مقالے کا موضوع تجویز کیا:”مشفق خواجہ بطور مدوّـن۔“ خواجہ صاحب تک یہ خبر پہنچی تو وہ فراقی صاحب سے خفا ہوئے۔ فراقی صاحب نے تو یہ موضوع میرٹ پر تجویز کیا تھا اور خواجہ صاحب بہرحال اس کا استحقاق رکھتے تھے، مگر خواجہ صاحب کا خیال تھا کہ لوگ اسے ”حقِ دوستی“ پر محمول کریں گے۔ (یہ معلوم ہے کہ خواجہ صاحب، فراقی صاحب کو بہت عزیز رکھتے تھے اور اس مقالے کے نگران اورنگ زیب عالمگیر صاحب سے بھی خواجہ صاحب کو خاص تعلقِ خاطر تھا۔) بایں ہمہ مقالہ نگار نے اپنا کام جاری رکھا۔
ڈاکٹر اورنگ زیب عالمگیر صاحب نے خواجہ صاحب کے برادرِ بزرگ خواجہ عبدالقیوم اور بعض دیگر عزیزوں سے رابطہ قائم کیا تاکہ مقالے کے باب اوّل کے لیے، خواجہ صاحب کے کچھ سوانحی حالات معلوم کیے جائیں۔ خواجہ عبدالقیوم اپنے چھوٹے بھائی کے مزاج سے واقف تھے، اس لیے اُنھوں نے ازراہِ احتیاط، معلومات فراہم کرنے سے پہلے، مشفق خواجہ سے بات کی تو انھوں نے منع کردیا، چنانچہ عالمگیر صاحب اور مقالہ نگار کو، خواجہ صاحب کے سوانحی اور شخصی حالات کے ضمن میں کوئی نئی بات یا مزید معلومات نہ مل سکیں۔ مقالہ بہرحال مکمل ہوگیا، طالب علم کو ڈگری مل گئی۔ کچھ عرصے کے بعد، شعبۂ اردو کے مجلے بازیافت (مدیر: تحسین فراقی) میں کلیاتِ یگانہ پر مذکورہ طالب علم کا تبصرہ شائع ہوا تو خواجہ صاحب نے پھر تحسین صاحب سے خفگی کا اظہار کیا۔
فی الحقیقت وہ خلوصِ دل سے سمجھتے تھے کہ عالم اور شاعر و ادیب کے لیے شہرت اور نام و نمود مہلک ہے۔ ایک بار راقم الحروف کو خط لکھا: ”ہوس، دولت و شہرت کی ہو، نفسِ امّارہ یا کتابوں کی، اس کی کوئی انتہا نہیں۔ الحمدللہ میں ہر معاملے میں قناعت پسند ہوں۔“ ڈاکٹر طاہر مسعود کی روایت ہے: ”وہ مجھ سے کہا کرتے تھے: آدمی اپنے کام سے پہچانا جاتا ہے، لہٰذا اصل اہمیت کام کی ہے، نام میں کیا رکھا ہے۔ شیطان سے زیادہ مشہور کون ہوگا۔ آپ کتنی ہی کوشش کرلیجیے شیطان سے زیادہ مشہور تو نہیں ہوسکتے۔“ (قومی زبان، کراچی، مارچ 2005ء، ص 23)
مشفق خواجہ کی شخصیت کا ایک نہایت لائقِ تحسین پہلو یہ تھا کہ وہ اپنے نیازمندوں، اساتذہ اور باصلاحیّت طلبہ کو علمی و ادبی تحقیقی و تنقیدی سرگرمیوں کے لیے آمادہ کرتے، کام کے موضوعات تجویز کرتے، اور جو جس لائق ہوتا، اُسے ویسا ہی کام تجویز کرکے سونپ دیتے۔ کسی کتاب یا مخطوطے کی تدوین کا فیصلہ ہوتا تو خود فوٹو کاپی بنوا کر دیتے۔ متعلقہ موضوع پر جس قدر لوازمہ اور مواد اُن کی دسترس میں ہوتا، بلاتامّل مہیا کرتے، اور جو چیز ان کے پاس نہ ہوتی، اس کی نشان دہی بھی کردیتے۔ راقم اپنی فہم و دانست کے مطابق کسی نہ کسی علمی کام میں مصروف رہتا، مگر جب بھی خواجہ صاحب سے ملاقات ہوتی تو وہ میرے لیے تدوین کا کوئی کام تجویز کردیتے۔ ایک بار اُنھوں نے مجھے جسونت سنگھ پروانہ کا کلیات فوٹو کراکے بھیج دیا کہ اسے مدوّن کردو۔ میں نے معذرت کی کہ یہ کام میرے بس کا نہیں ہے کیونکہ مجھے عروض میں مہارت حاصل نہیں اور اس کے بغیر شاعری کی تدوین ناقص ہوگی۔ انھوں نے میری معذرت قبول کرلی۔ اب انھوں نے عبدالرزاق کان پوری کی یاد ایام کا عکس بھیج دیا اور ساتھ ہی تدوین اور املا کے سلسلے میں چند ہدایات بھی لکھ بھیجیں۔ اسی طرح خواجہ صاحب نے تحسین فراقی صاحب کے لیے کئی علمی کام تجویز کیے۔ اُن میں سے کچھ پایۂ تکمیل کو پہنچے، جیسے عجائباتِ فرنگ کی تدوین یا مقالہ: ”اردو تنقید کے دس سال“ اور کچھ ناتمام رہ گئے، جیسے: مسیر طالبی کا ترجمہ یا عبرت الغافلین کی تدوین، وغیرہ۔
ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب سے اُنھوں نے گلشنِ ہمیشہ بہار مرتّب کرایا۔ ڈاکٹر اورنگ زیب عالمگیر صاحب کو وہ خواجہ محمد شفیع دہلوی کی آپ بیتی ریکارڈ کرانے پر اکساتے رہے۔ ایک خط میں انھیں لکھا:”یہ کام بہت اہم ہے۔ اسے آپ دوسرے تمام کاموں پر ترجیح دیجیے۔ کسی نشست میں ان کے خاندانی حالات ٹیپ کرلیجیے، کسی میں دہلی کی ثقافتی زندگی کی تفصیلات، خواجہ صاحب کا وسیع حلقۂ احباب تھا۔ پہلے ان کے نام پوچھ لیجیے، پھر فرداًفرداً ہر ایک کی شخصیت کے بارے میں ان کے تأثرات، خواجہ صاحب نے ۴۷ء کا زمانہ نہایت پریشان کن حالات میں گزارا تھا۔ ہجرت کے حالات تفصیل سے پوچھیے۔ بمبئی میں فلمی دنیا کے حالات تو وہ خود ہی مزے لے لے کر بیان کریں گے۔ غرض کہ بات سے بات نکلتی آئے گی۔“ (غیر مطبوعہ مکتوب بنام اورنگ زیب عالم گیر،6 جون1986ء)
مقتدرہ قومی زبان نے ڈاکٹر جمیل جالبی کے زمانۂ صدر نشینی میں قومی انگریزی اردو لغت شائع کی تھی۔ دوسرا منصوبہ ”قومی اردو انگریزی لغت“ کا تھا، جس کے مدیر اعلیٰ جناب مظفر علی سیّدمقرر ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں خواجہ صاحب نے انتخابِ الفاظ کا کام ڈاکٹر عالمگیر سے کرایا تھا(آخر میں کچھ معاونت محمد احسن خاں صاحب نے بھی کی) مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی کیونکہ اُردو سے انگریزی ترجمے کا کام جن اصحاب کے سپرد کیا گیا، اُنھوں نے تھوڑا تھوڑا کام کرنے کے بعد، اس بھاری پتھر کو چوم کررکھ دیا۔
خواجہ صاحب ایک بے لوث، بے غرض اور نیک نفس انسان تھے۔ علمی و ادبی منصوبے تیار کرنا اور ایسے منصوبوں میں مصروف تحقیق کاروں اور عالموں کی فراخ دلی سے مددو اعانت کرنا ان کا شیوہ تھا۔ اپنی اس خوبی کی وجہ سے وہ ادبی دنیا کے تمام گروہوں، دھڑوں اور حلقوں میں یکساں طور پر مقبول تھے۔ ہر ایک کو ان کا تعاون میسر رہتا، اور یہ کام جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، وہ کسی دنیاوی غرض کے لیے نہیں کرتے تھے، کیونکہ ان کے بقول:”نیکی کا اجر خدا ہی دے سکتا ہے، بندے کے بس کی بات نہیں۔“ (غیر مطبوعہ مکتوب بنام اورنگ زیب عالمگیر،6سمبر1997ء)
مشفق خواجہ صاحب ایک باکمال اورکھرے ادیب، مزاح نگار، شاعر اور محقق تھے۔ تخلیق اور تحقیق دونوں میں انھوں نے قدرِ اوّل کی چیزیں یادگار چھوڑی ہیں۔ مرحوم”اپنی ذات میں ایک انجمن تھے“… یہ ایک روایتی جملہ ہے، لیکن یہ جملہ اگر کسی پر صادق آتا ہے تو مشفق خواجہ پر۔ انھوں نے اپنی دیگر مصروفیات کے باوجود، تنِ تنہا ایسے بلند پایہ اور معیاری و مثالی تحقیقی کام سرانجام دیے جو اداروں کے کرنے کے تھے۔ ادب کا ایسا خدمت گزار اور نادرِ روزگار شخص اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔
ہمارے لیے ان کی شخصیت اور ادبی کارناموں میں کیا سبق پوشیدہ ہے؟یہ کہ ستائش کی تمنا کیے بغیر اپنا کام محنت و کاوش اور دیانت داری کے ساتھ کیے چلے جاؤ۔ عزت، احترام، محبت اور شہرت بھی اگر حاصل ہوگی تو کام ہی کی بدولت حاصل ہوگی۔
ان کی شخصیت کا ایک قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ وہ اسلام، پاکستان اور اقبال کے ساتھ ایک غیر متزلزل وابستگی رکھتے تھے، اور یہ وابستگی انہیں اپنے والد خواجہ عبدالوحید سے ورثے میں ملی تھی۔ ”خامہ بگوش“ کے قلمی نام سے وہ اپنے مخصوص شگفتہ اسلوب میں اشتراکیت، اباحیت، الحاد، آمریت پر تنقید کرتے، علمی و ادبی دنیا میں جعل سازی اور بناوٹی روَیـّوں پر خوب خوب چوٹ کرتے اور شہرت کی ہوس میں مبتلا قلم کاروں پر اپنے مخصوص انداز میں کچھ ایسا لطیف طنز کرتے کہ مخالف بلبلا اٹھتا مگر لطف بھی لیتا۔ یہی وہ خوبی تھی جس کی بنا پر ان کا کالم نہ صرف پاکستان کے تمام ادبی حلقوں، بلکہ بھارت میں بھی مقبول تھا اور وہاں کے متعدد رسالوں اور اخباروں میں نقل کیا جاتا تھا۔ خامہ بگوش کی کالم نگاری میں وقفے بھی آجاتے تھے، چنانچہ ان کا تازہ کالم میسر نہ آتا تو بعض رسائل، اپنے قارئین کے تفننِ طبع کے لیے پرانے کالم ہی شائع کرتے رہتے تھے۔
مشفق خواجہ اوّل و آخر اور سرتاپا ایک علم دوست شخص تھے۔ راقم کو ان سے بارہا ملنے اور ان کی صحبت میں کئی کئی گھنٹے گزارنے کا بارہا موقع ملا، بلکہ دو ایک بار تو ناظم آباد کراچی میں، ان کے ہاں چند دن مقیم رہنے کا موقع بھی ملا۔ میں تو دن بھر ان کے کتب خانے کی سیر کرتا، کتابیں دیکھتا، نوٹس لیتا اور شام کو ہم روزانہ لمبی سیر کرتے۔ کسی جگہ کھانا کھاتے اور دنیا جہان کی باتیں کرتے، لیکن ہر ملاقات یا صحبت کے اختتام پر تشنگی باقی رہتی اور یہ خواہش بھی کہ کچھ اور موقع ملے، باتیں ہوں، کچھ اور استفادہ کیا جائے۔
مشفق خواجہ انسان تھے، ان کی کمزوریاں بھی تھیں، مگر بقول جمیل الدین عالی: ”ان کی خوبیاں، ان کی کمزوریوں کے مقابلے میں کئی ہزار گنا تھیں۔“(قومی زبان، مارچ 2005ء، ص 100) میں دعاگو ہوں کہ باری تعالیٰ ان کی کمزوریوں، عمل کی کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف کرے، ان کی مغفرت کرے اور ان کے درجات بلند کرے،آمین۔
ابھی کتنے ہی کام مشفق خواجہ کے پیشِ نظر تھے جو وہ انجام دینا چاہتے تھے، مکمل کرنا چاہتے تھے۔ بسے گفتنی ہا کہ نا گفتہ ماند۔ مرحوم اس آرزوئے ناتمام کے ساتھ عالمِ جاودانی رخصت ہوئے ہوں گے کہ کچھ اور مہلت ملے تو اپنے علمی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا دوں۔ لیکن رہے نام اللہ کا۔ ان کی بہت سی تحریریں، بہت سے مضامین، بہت سے تبصرے غیر مدوّن ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد کاوش نے ان کا غیر مدوّن قلمی سرمایہ کئی جلدوں میں مدوّن کیا ہے اور یہ سب زیرِ طبع ہیں۔
مشفق خواجہ کی شخصیت اور ان کی علمی نہاد و افتادِ طبع کو سمجھنے کے لیے ان کے مکاتیب ایک بڑے قیمتی ذریعے اور ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جناب محمد عالم مختارِ حق نے اپنے نام مرحوم کے خطوط حواشی کے ساتھ مرتّب کردیے۔ راقم کے نام مکاتیبِ مشفق خواجہ کا مجموعہ بھی چھپ گیا۔ طیب منیر مرحوم اور تحسین فراقی صاحب نے بھی اپنے نام خطوط کتابی صورت میں شائع کر دیے۔حال ہی میں محمود احمد کاوش نے خواجہ صاحب اور رشید حسن خاں کی باہمی مراسلت پر مشتمل ضخیم کتاب چھاپ دی ہے۔
وہ ایک بے مثال شخص تھے۔ اپنے اصول و نظریات اور آدرشوں کے ساتھ، اسلام، پاکستان، اردو اور ادب کے ساتھ ان کی وفاداری اور تعہّد (commitment) نہایت محکم، مستحکم اور اُستوار تھا۔ وہ ایک مخلص اور بے ریا انسان تھے۔ سچائی، راستی اور خیر کے قدردان اور علَم بردار تھے۔ شہرت، نمودونمائش، تصنع اور بناوٹ کو سخت ناپسند کرتے تھےاور انہیں یہ گوارا نہ تھا کہ کوئی شخص خصوصاً ادیب، شاعر یا محقق یہ طرزِ عمل اختیار کرے۔
پاکستان ہی میں نہیں، بھارت ہی میں نہیں، پوری دنیا میں جہاں جہاں اردو زبان و ادب کا چرچا ہے:
ثبت است برجریدۂ عالم دوام ما
کے مصداق مشفق خواجہ کا نام زندہ رہے گا۔ وہ اردو ادب، اردو تحقیق و تدوین اور اُردو طنزومزاح کے ایک قابلِ فخر سپوت کی حیثیت سے یادرکھے جائیں گے اور بقائے دوام کے دربار میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا رہے گا۔
میرے عزیز دوست سجاد میرنے کیا عمدہ بات کہی ہے کہ ادبی تحقیق کے:”میدان میں[بڑے]بڑے نام ہیں مگر سچ کہتا ہوں:کوئی دوسرا مشفق خواجہ نہیں ہے… ان جیسا کوئی نہیں ہے۔ اس شہر ہی میں نہیں، اس ملک میں بھی اور پورے برصغیر میں بھی، جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں وہاں تک…“