نیو سینٹرل جیل ملتان اور تفہیم القرآن کی طباعت

مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن لکھنے کا آغاز 1942ء میں کیا تھا۔ جماعت اسلامی قائم ہوچکی تھی اور آپ اس کے امیر تھے۔ جماعتی ذمہ داریوں کی انجام دہی اور تحریکِ پاکستان کےہنگامہ خیز ایام کے پیش نظر مسلمانانِ ہند کی سیاسی رہنمائی جیسی مصروفیات کی وجہ سے تفہیم القرآن کی طباعت کا موقع نہ مل سکا۔
پاکستان کے قیام کے بعد حکمرانوں کی طرف سے دستور سازی اور اسلامی نظام کے قیام میں نہ صرف غفلت بلکہ عوام میں ذہنی انتشار پیدا کرنے کی منظم جدوجہد شروع ہوگئی۔ اس لیے تمام دیگر امور ملتوی کرکے مولانا نے جماعت کو دستور سازی اور اسلامی دستور کی جلدازجلد تیاری کی مہم میں مصروف کردیا جس کو مطالبۂ نظام اسلامی کی جدوجہد کا نام دیا گیا۔ اس وجہ سے تحریری اور اشاعتی کام بہت زیادہ سست روی کا شکار رہا، اور سورۂ یوسف تک تفسیر مکمل ہونے کے باوجود تفہیم القرآن کی پہلی جلد بھی شائع نہ ہوسکی۔
مطالبۂ اسلامی دستور کی ملک گیر کامیاب تحریک سے گھبرا کر حکومت نے یہی سمجھا کہ اگر مودودی کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جائے تو یہ تحریک دب جائے گی۔ لیکن سلطانِ کائنات اپنے بندے کو کچھ آرام دینے اور اپنی آخری کتاب کی عام فہم تفسیر کو امت کی رہنمائی کے لیے طباعت کے لیے تیاری مکمل کرنے کا وقت دینا چاہتا تھا، اس لیے 4 اکتوبر 1948ء کو حکومت نے گرفتار کرکے نیو سینٹرل جیل ملتان بھجوا دیا، جہاں آپ نے تقریباً چھ سو دن نظربندی کے گزارے۔
نیو سینٹرل جیل ملتان میں پہلے پینتالیس دن کتب فراہم کرنے کی اجازت دینے میں ضائع کرنے کے بعد اجازت دی بھی تو وہ مشروط تھی، اور مختلف مراحل کی جانچ پڑتال کے بعد کتب ملتیں، جس کی وجہ سے وقت کا ضیاع ہوتا تھا۔ اس لیے متبادل ذریعۂ ترسیل کی اشد ضرورت تھی۔
مولانا مودودیؒ نے اپنی قید و بند کا زیادہ عرصہ ملتان کی دونوں جیلوں میں گزارا۔ پہلی قید کا سارا عرصہ نیو سینٹرل جیل میں، اور سزائے موت کے عمرقید میں تبدیل ہونے کے بعد کا سارا عرصہ ڈسٹرکٹ جیل ملتان میں گزارا۔ اسی لیے مولانا کو ملتان اور رفقائے ملتان سے خصوصی انس رہا۔ مئی 1967ء میں مولانا نے ملتان کا آخری دورہ کیا۔ اس موقع پر آپ کو اہلِ ملتان کی طرف سے استقبالیہ دیا گیا جس میں خطاب کا آغاز آپ نے ان جملوں سے کیا:
’’مجھے جہاں بھی دورے کی دعوت ملتی ہے مَیں قبول کرنے میں غور و فکر کرتا ہوں، لیکن ملتان کی دعوت مَیں فی الفور قبول کرلیتا ہوں کہ مجھے معلوم ہے ملتان والوں نے دو گھر ایسے بنا رکھے ہیں کہ اگر میں خوشی سے نہ بھی آنا چاہوں تو یہ زبردستی بلوا لیتے ہیں۔‘‘
دو گھر سے مراد دونوں جیلیں ہیں جہاں مولانا مقیم رہ چکے تھے۔ ان جملوں سے سامعین نے بڑا لطف لیا اور ملتان کی جیلوں کی قسمت پر رشک کیا کہ جہاں تفہیم القرآن کا بڑا حصہ مرتب ہوا۔ پہلی جلد مکمل ہوئی اور اسے طباعت کے لیے پریس بھیجا گیا۔ تفہیم القرآن کا دیباچہ تحریر ہوا، اس پر 11 ستمبر 1949ء کی تاریخ بمقام نیو سینٹرل جیل ملتان تحریر ہے۔ تفہیم القرآن کا مقدمہ، حدیث کی کتاب ابودائود کا انڈکس، مسئلہ ملکیتِ زمین، سود اور اسلام اور جدید معاشی نظریات کی تکمیل بھی نیو سینٹرل جیل میں ہوئی، اور تفہیم القرآن کی دوسری جلد کو سورۂ یوسف تک طباعت کے لیے تیار کیا گیا۔
اتنے ضخیم تحریری کام کے لیے حوالہ جات اور ضروری معلومات کی فراہمی کے لیے بے شمار کتب کی ضرورت تھی، سرکاری انتظام ناقص اور ادھورا تھا، اس لیے غیر سرکاری چینل بنانا ضروری تھا۔ یہ سعادت ملتان جماعت کے نوجوان رکن محمد عقیل صدیقی مرحوم کے حصے میں آئی۔ یہ بات ثابت ہے کہ حکومتوں کی مخالفت اور انتقامی کارروائیوں کے باوجود ہر جگہ، ہر مقام، ہر ادارے اور ہر شعبے میں مولانا محترم سے محبت کرنے اور عزت کرنے والے اعلیٰ افسران اور بااختیار سرکاری ملازمین موجود رہے، اور مولانا سے تعلق کی بنا پر اگر کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی تو اس نے خوش دلی اور عزیمت کے ساتھ صورتِ حال کا مقابلہ کیا۔ اسی سہولت نے متبادل چینل قائم کرنے میں مدد دی۔
نیو سینٹرل جیل میں ہمارے ایک عزیز جیل کے شعبۂ مالیات کے انچارج تھے جن کی وجہ سے معمول سے ہٹ کر جیل آنے جانے، مولانا سے مطلوبہ کتب کی فہرست حاصل کرنے، کتب مولانا تک پہنچانے، استفادے کے بعد واپس لینے اور کتب کے علاوہ ملک غلام علی اور دیگر ذمہ داران کے نام ہدایات نامے برائے حوالہ جات وصول کرنے میں آسانی ہوگئی۔
ہمارے حقیقی تایازاد بھائی آر۔ایم۔ ایس (ریلوے میل سروس) میں ملازم تھے، وہ ہفتے میں دو دفعہ اپنی ڈیوٹی پر ملتان آتے تھے۔ مرکزِ جماعت سے ذمہ دار فرد کتب اور دیگر لوازمات لاہور ریلوے اسٹیشن پر ہمارے بھائی کو بنڈل کی صورت میں حوالے کرتے، ملتان ریلوے اسٹیشن پر برادر نعیم صدیقی یا سلیم صدیقی وصول کرتے اور اگلے دن محمد عقیل صدیقی، محمد نعیم صدیقی اور محمد سلیم صدیقی میں سے کوئی سائیکل پر جاکر جیل پہنچاتے۔ بسا اوقات مولانا محترم سے سلام دعا ہوجاتی۔ کتب اور کاغذ کی واپسی بھی مذکورہ طریق پر ہوتی۔ مطلوبہ کتب مولانا کی ذاتی لائبریری کے علاوہ پنجاب پبلک لائبریری سے بھی حاصل کی جاتیں، جس کے مولانا ممبر تھے،پنجاب پبلک لائبریری سے کتب کے حصول کی ساری جدوجہد پروفیسر عبدالحمید صدیقی مرحوم کی ہوتی تھی۔ متبادل چینل استوار کرنے کا ہی نتیجہ تھا کہ بیس ماہ سے زائد کی قید میں مولانا کا بہت کم وقت ضائع ہوا اور تفہیم القرآن کی دو جلدوں کے علاوہ مذکورہ بہت سا تحریری سرمایہ قابلِ اشاعت ہوا۔