دینی، علمی اور تحریکی حلقوں میں یہ خبر بہت افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ ممتاز اور نام ور عالم دین مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ کا گزشتہ شب 1:15 بجے انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا ایک ماہ سے تنفّس اور قلب کے عوارض میں مبتلا تھے۔ پہلے انہیں مرادآباد کے ایک اسپتال میں داخل کیا گیا، پھر نوئیڈا کے فورٹس اسپتال میں منتقل کیا گیا۔ ان کی حالت سنبھلتی اور بگڑتی رہی۔ کئی مرتبہ ان کے انتقال کی افواہ اڑی اور عالمی سطح پر ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ بالآخر یہ افواہ سچ ثابت ہوئی۔
مولانا یوسف کی ولادت 1932ء میں بریلی (ریاست اترپردیش) میں ایک علمی گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد مولانا عبدالقدیم خان ؒ تفسیر و حدیث کے بڑے عالم تھے۔ تجوید و حفظِ قرآن اور ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے بریلی اسلاميہ كالج سے ہائی اسکول پاس کیا۔ پھر والدِ ماجد کی خواہش پر مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور میں داخل ہوئے، جہاں دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ چلے گئے، اور وہاں کے اساتذہ، خاص طور پر مولانا اختر احسن اصلاحیؒ سے کسبِ فیض کیا۔ انھوں نے امتیازی نمبروں سے سندِ فضیلت حاصل کی۔ مدرسۃ الاصلاح سے فارغ ہوتے ہی وہ جماعت اسلامی ہند کے رکن بن گئے تھے۔ اُس وقت ان کی عمر صرف 25 برس تھی۔
جماعت اسلامی ہند نے علمی کاموں کی انجام دہی کے لیے اپنے مرکز میں، جو اُن دنوں رام پور میں تھا، ادارۂ تصنیف قائم کیا۔ مولانا صدرالدین اصلاحیؒ کو اس کا ذمے دار بنایا گیا۔ مولانا محمد فاروق خاں، مولانا سید جلال الدین عمری اور دیگر حضرات کے ساتھ مولانا یوسف اصلاحی بھی اس سے وابستہ ہوگئے۔ مولانا کی ابتدائی تصنیف ”آدابِ زندگی“ کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ ہندی، انگریزی اور بعض دیگر زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے، ہند و پاک میں اس کے بے شمار ایڈیشن طبع ہوئے اور لاکھوں افراد نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ یہ بڑی مؤثر کتاب ہے۔ اس میں بہت سادہ اور آسان زبان میں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے آداب بیان کیے گئے ہیں۔
1970ء میں ادارۂ تصنیف علی گڑھ منتقل ہوا تو مولانا اصلاحی نے وہاں جانے سے معذرت کرلی اور رام پور میں ہی رہ کر تجارت شروع کی اور علمی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے 1972ء میں ادارۂ ذکری قائم کیا، جس سے ایک ماہ نامہ ذکری نکالنے لگے اور ایک مکتبہ کی بھی بنیاد ڈالی۔ یہ دونوں چیزیں ان کے صاحب زادگان سنبھالے ہوئے ہیں اور ان کے ذریعے علمی و دینی خدمات انجام پارہی ہیں۔
رام پور میں جماعت اسلامی ہند کی بزرگ شخصیت مولانا ابو سلیم عبدالحئی نے لڑکیوں کی دینی تعلیم کے لیے ”بچیوں کا مدرسہ“ قائم کیا تھا، جو ترقی کرکے ”جامعۃ الصالحات“ بنا۔ اُس زمانے میں لڑکیوں کی دینی تعلیم کے ادارے خال خال تھے، اس بنا پر اسے ملک و بیرونِ ملک میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ مولانا عبدالحئی کے انتقال کے بعد اس کا نظم جناب توسّل حسین، اور ان کے انتقال کے بعد مولانا یوسف اصلاحی کے سپرد ہوا تو انھوں نے اسے ترقی کے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ رام پور میں ہی جماعت کی راست نگرانی میں ابتدائی تعلیم کے لیے مرکزی درس گاہ قائم تھی۔ ایمرجنسی (1975ء) کے بعد ایک مقامی کمیٹی بناکر اس کا نظم اس کے حوالے کردیا گیا تو مولانا اصلاحی کو اس کی مجلس منتظمہ کا صدر بنایا گیا۔ یہ دونوں ادارے مولانا کی زندگی کے آخری ایام تک ان کی سرپرستی میں سرگرمِ عمل رہے اور آئندہ بھی ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنے رہیں گے، ان شاء اللہ۔
مولانا جماعت اسلامی ہند کی مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ وہ کئی میقاتوں سے جماعت کی اعلیٰ اختیاراتی باڈی مجلسِ نمائندگان، مرکزی مجلس شوریٰ اور ریاستی مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ وہ ان کے اجلاسوں میں پابندی سے شریک ہوتے اور اپنے مشوروں سے نوازتے تھے۔
مولانا موصوف کے خطابات اور دروسِ قرآن بہت مؤثر ہوتے تھے۔ ان میں سے بہت سے یوٹیوب پر اپ لوڈ ہیں۔ ان میں الفاظ کا شکوہ اور بیان کی گھن گرج تو نہیں ہوتی تھی، لیکن ابلاغ و ترسیل کمال کی ہوتی تھی، اور ”از دل خیزد بر دل ریزد“ والا معاملہ ہوتا تھا۔ وہ تصنیف و تالیف کا بھی عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ قرآنیات، حدیث، سیرت، فقہ اور دیگر موضوعات پر ان کی کم و بیش پانچ درجن چھوٹی بڑی تصانیف ہیں، جن میں سے بعض کے دیگر زبانوں میں تراجم بھی ہوئے اور انہیں برصغیر ہند و پاک اور دیگر ممالک میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان میں قرآنی تعلیمات، آدابِ زندگی، داعیِ اعظمﷺ، آسان فقہ، روشن ستارے، شمعِ حرم، شعورِ حیات، تذکیر القرآن (تفسیر سورۂ یٰس)، تذکیر القرآن (تفسیر سورۂ صف)، درسِ قرآن، قرآن کو سمجھ کر پڑھیے، مطالعۂ قرآن کیوں اور کس طرح؟، تفہیم الحدیث، گلدستۂ حدیث، حدیثِ رسولﷺ، استقبالِ رمضان، قیادت کے اوصاف اور امت کی ذمہ داریاں، ختمِ نبوت قرآن کی روشنی میں، عقیدئۂ ختم نبوت اور تقاضے، اسلامی معاشرہ اور اس کی تعمیر میں خواتین کا حصہ، حسنِ معاشرت اور اس کی تکمیل میں خواتین کا حصہ، خاندانی استحکام، وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ مولانا نے دعوتی اسفار بھی بہت کیے ہیں اور برصغیر کے ممالک کے علاوہ انگلینڈ، امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور خلیج کے اکثر ممالک میں بھی تشریف لے گئے ہیں۔
میری ابتدائی تعلیم مرکزی درس گاہ جماعت اسلامی ہند رام پور میں ہوئی ہے۔ وہاں میرا داخلہ 1970ء میں ہوا تھا۔ بورڈنگ ہاؤس سے قریب کی مسجد کو ”اونچی مسجد“ کہا جاتا تھا۔ اس کے سامنے ہی مولانا کا بڑا مکان تھا۔ انہیں میں نماز پڑھنے کے لیے برابر آتے جاتے دیکھا کرتا تھا۔ درس گاہ سے فراغت کے بعد میں اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ آگیا۔ وہاں مضمون نویسی کا شوق پیدا ہوا تو میں نے اپنے مضامین جن رسائل میں اشاعت کے لیے بھیجے ان میں ماہ نامہ ذکری بھی تھا۔ اس میں میرے کئی مضامین شائع ہوئے۔ اس دور کے مولانا کے ہاتھ کے لکھے ہوئے کئی خطوط میرے پاس محفوظ ہیں۔ میری چھوٹی بہن ڈاکٹر سطوت ریحانہ نے جامعۃ الصالحات میں اور چھوٹے بھائی ڈاکٹر سیف الاسلام نے مرکزی درس گاہ میں تعلیم حاصل کی۔ انہیں لینے اور پہنچانے رام پور جانا ہوتا تھا۔ میری اہلیہ کی بھتیجیوں کا داخلہ کروانا ہوا تو میری درخواست پر مولانا نے خصوصی طور پر داخلے کی منظوری دی۔ بعد میں جماعت اسلامی ہند حلقۂ اترپردیش کی مجلس شوریٰ اور مرکزی مجلسِ شوریٰ میں مولانا کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملتا رہا۔ مولانا بہت محبت سے ملتے، احوال دریافت کرتے، میرے علمی کاموں کی ستائش کرتے اور کبھی ان میں اصلاح طلب باتوں کی طرف رہ نمائی کرتے۔
چند برس قبل جماعت اسلامی ہند حلقۂ اترپردیش (مغرب) کے دفتر (مرادآباد) میں اصلاح معاشرہ کے موضوع پر ایک پروگرام تھا۔ طلاق، ہم جنسیت اور قائم مقام مادریت کے موضوعات پر میری تقریریں ہوئیں۔ مولانا کو میری گفتگو بہت پسند آئی۔ کہنے لگے: ”آپ کی یہ تقریریں جامعۃ الصالحات کے اعلیٰ درجات کی طالبات کے سامنے بھی ہونی چاہئیں۔ آپ کو ان شاء اللہ جلد بلاؤں گا۔“ افسوس کہ اس کی نوبت نہ آسکی۔
مولانا یوسف اصلاحی نے نصف صدی تک دعوت و ارشاد کے میدان میں سرگرم زندگی گزاری۔ ان کے خطابات، دروس اور تصانیف سے لاکھوں افراد کی زندگیاں بدل گئیں۔ یہ سب ان کے حق میں صدقۂ جاریہ ہے، جس کا اجر انہیں تاقیامت ملتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین، یارب العالمین۔