قیامِ پاکستان کے لیے یا تحریکِ پاکستان کے دوران جو عوامل کارفرما رہے، وہ یہ تھے کہ اس خطے کی سب سے بڑی قوم ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمان ہر اعتبار سے علیحدہ قوم ہیں۔ لہٰذا ان دونوں قوموں میں مذہبی اور تہذیبی اعتبار سے نمایاں فرق ہے اور ان کے مقاصدِ حیات بھی علیحدہ ہیں، اس لیے ایک بڑی تعداد والی قوم کے ساتھ مسلمانوں کا مستقبل متحدہ ہندوستان میں محفوظ نہیں رہ سکتا۔ چوں کہ ماضی کی طویل تر تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں کو ہندوئوں کی طرف سے تلخ تجربات حاصل ہوتے رہے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو ہندوستان میں مکمل اور یقینی تحفظ حاصل رہنا چاہیے یا ہندوستان کی تقسیم ہونی چاہیے۔ پھر تقسیم کے بعد مسلمان اپنے زیرِ اقتدار علاقوں یا پاکستان میں اسلامی مملکت قائم کریں گے۔ اس طرح پاکستان کا قیام دراصل مسلمانوں کی اس طویل ہزار سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہے، جس کے تحت مسلمان ہر زمانے میں اپنی جداگانہ ہستی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان کی اس انفرادیت کو مٹانے اور انھیں اپنے اندر ضم کرنے کی غرض سے ہندوئوں نے ان پر مختلف محاذوں سے حملہ کیا۔ ایک محاذ تو میدانِ جنگ تھا کہ وقت آنے پر وہ اپنی تمام فوجی قوتوں کو متحد کرکے مسلمانوں کے مقابلے میں لے آتے تھے۔ محمد بن قاسم سے احمد شاہ ابدالی تک جس نے بھی ہندوستان میں اسلامی سلطنت کا آغاز یا احیاء کیا، اسے اسی صورت ِحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندوئوں کا دوسرا محاذ سیاسی اور تہذیبی تھا۔ عملاً مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم تسلیم کرنے کے باوجود ہندو ان کی جداگانہ حیثیت کو ماننے پر تیار نہ تھے۔ سیاسی میدان میں ہندوؤں کی جانب سے اگرچہ ہمیشہ ہندو مسلم بھائی چارے کا نعرہ گونجا، اور دونوں کو ایک ہی قوم ثابت کرنے میں سارا زور صرف کردیا گیا، لیکن عمل درپردہ اس کے برعکس رہا۔ مقصد صرف ایک تھا کہ اکثریت کے بل بوتے پر حکومت کے اختیارات ہندوئوں کے ہاتھ میں رہیں اور مسلمان ان کے محکوم بنے رہیں۔ ان کے نفرت انگیز رویّے نے کبھی اردو زبان کی مخالفت کا روپ دھارا اور کبھی ’گاؤ ماتا‘ کے تحفظ کا۔ کسی نے مسلمانوں کو غیر ملکی حملہ آور قرار دے کر عرب لوٹ جانے کی تلقین کی، اور کسی نے اس بات پر زور دیا کہ وہ اپنے مذہب، تاریخ، روایات اور تہذیب ہر شے کو ترک کرکے اپنے آپ کو ہندو قومیت میں جذب کردیں اور ’اکھنڈ بھارت‘ کا جزو بن جائیں۔ یہ کوششیں آج تک کے بھارت میں کسی نہ کسی صورت میں نمایاں دیکھی جاسکتی ہیں، اور اب تو ان میں آئے دن اضافہ ہی ہورہا ہے!
مسلمانوں نے اس صورتِ حال کا ہر موقع پر پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ ان کے لیے یہ مسئلہ انگریزی عہد میں زیادہ شدید صورت اختیار کر گیا تھا، کہ انگریز مسلمانوں سے ان کا اقتدار چھیننے کے بعد یہ ضروری سمجھتے تھے کہ مسلمان اپنے زوال کی انتہا تک پہنچ جائیں۔ اس کی وجہ محض یہ نہ تھی کہ مسلمان یہاں کے سابق حکمران تھے، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی تھا کہ وہ دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ دینی اخوت کے رشتے سے بندھے ہوئے تھے۔ یہ رشتہ انگریزوں کے لیے بھی تشویش کا باعث تھا۔ کیوں کہ دیگر اسلامی ممالک میں بھی وہ استعماری عزائم رکھتے تھے۔ چناں چہ ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ہندوستان میں اسلام ایک قوت نہ بن سکے۔ مسلمانوں کے سامنے ہندوئوں اور انگریزوں کے مشترکہ مقاصد پوری طرح نمایاں تھے۔ وہ محض ہندوستان میں بسنے والی ایک قوم کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنے قومی وجود کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ہندوؤں کے مصلحت آمیز عمل کے مقابل متعدد مرتبہ بغاوت کی۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ (1564ء۔1624ء) نے ان کے ملّی وجود کو غیر قوموں کے ساتھ اشتراک سے روکا تھا۔ شاہ ولی اللہؒ(1703ء۔1762ء) نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کی قومی حیثیت کو مزید تقویت پہنچائی تھی۔ سید احمد شہید(1786ء۔1831ء) اور ان کے رفقاء نے ایک طویل عرصے تک دشمنانِ اسلام کے خلاف جہاد کیا، جو ان کے پیروئوں کے طفیل بیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی میں بھی مسلمان ہی پیش پیش تھے، بلکہ یہ انھی کے دم قدم سے شروع ہوئی تھی اور انھی کی تباہی پر ختم ہوئی۔ بعد میں بھی اسی اضطراب اور بے چینی کے نتیجے میں مسلمانوں نے اکثر مواقع پر اپنے اس مزاج کا مختلف تصوراتِ آزادی اور ایک آزاد اسلامی مملکت کے تصور کی شکل میں اظہار کیا۔ اسی طرح فی الحقیقت مجدد الف ثانیؒ سے لے کر قراردادِ پاکستان تک، بلکہ قراردادِ مقاصد کے متفقہ طور پر منظور ہونے تک، ایک ہی رویہ اور ایک ہی نظریہ مختلف صورتوں اور مختلف تحریکوں میں کارفرما رہا۔ مسلمانوں کی سیاست جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ہمیشہ ایک متوازی راستے پر چلی ہے اور کبھی ہندو سیاست کے جال میں گرفتار نہ ہوئی۔ مسلمانوں نے اپنی ساری جدوجہد میں اسلام کے اس نظریے اور اس مزاج کا بار بار اظہار کیا کہ وہ غیروں کی غلامی کو کسی صورت قبول نہیں کرسکتے۔ پاکستان کا قیام دراصل اسی مزاج اور اسی نظریے کی عملی تعبیر ہے۔
جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے صرف ایک آزاد مملکت کا حصول ہی حتمی اور آخری مقصد نہیں تھا، بلکہ اس کا حصول اس سرزمین پر ایک اسلامی معاشرے کے قیام، شریعتِ اسلامی کے نفاذ اور عدل و انصاف کی ترویج کا ذریعہ تھا۔ پاکستان کی بنیادیں واضح اور ٹھوس نظریاتی اساس پر رکھی گئی تھیں۔ قرارداد پاکستان سے ان بنیادوں کی نشان دہی ہوتی تھی۔ یہ مسئلہ کہ یہ بنیادیں نئی مملکت میں کس آئین کے توسط سے استوار ہوں گی، قیام پاکستان سے پہلے بھی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ قراردادِ پاکستان میں، جو ہمارے ملّی تشخص اور قومی نصب العین کا مظہر ہے، آئینی نظام کی کس قدر جھلک نظر آتی ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران قائداعظم نے پاکستان کے آئین کی تفصیلات پر اظہارِ خیال سے ہمیشہ گریز کیا۔ انھوں نے ہر موقع پر یہی کہا کہ یہ کام پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کرے گی۔ قائداعظم محض اپنی مرضی سے کوئی لائحہ عمل ترتیب نہیں دینا چاہتے تھے۔ وہ خود قانون دان تھے اور آئین پسندی کا دامن کسی حالت میں بھی ترک نہ کرتے تھے۔ انھوں نے آئین کی تیاری کو دستور ساز اسمبلی کی صوابدید پر منحصر رکھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی قومی سیاسیات کو بالکل ابتدا ہی میں بڑے دشوار حالات کا سامنا تھا۔ آزادی کے بعد پہلا سال ایک نئی انتظامیہ کو ترتیب دینے اور لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری اور ریاستوں کے بے حد مشکل اور ہمہ گیر مسائل سے عہدہ برآ ہونے میں صرف ہوگیا۔ پھر چند ہی ماہ بعد بھارت نے کشمیر میں جنگ چھیڑ دی اور گویا پاکستان پر حملہ کردیا۔ پاکستان کے لیے ایک نئے آئین کی تیاری بھی اس وقت کا ایک اہم اور ضروری مسئلہ تھا۔ قیام پاکستان کے وقت قانونِ آزادیٔ ہند کے تحت 1935ء کے قانون کو ہی بعض تبدیلیوں کے ساتھ وقتی طور پر ملک کا کام چلانے کے لیے اختیار کیا گیا تھا۔ چوں کہ یہ پرانا قانون ملک کی نظریاتی ضرورتوں اور تقاضوں پر پورا نہ اتر سکتا تھا، اس لیے نظریۂ پاکستان اور عام قومی احساسات سے ہم آہنگ آئین مرتب کرنے کے لیے فوری طور پر ایک نئی دستور ساز اسمبلی تشکیل دی گئی، جس نے اپنا فریضہ انجام دینا شروع کردیا۔ اس دوران ملک کے اندرونی مسائل اور بیرونی خطرات نے قومی جذبات کو مسلسل مضطرب اور منتشر رکھا، اور اس دوران قوم کو قائداعظم کی رحلت کے شدید اور المناک سانحے سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ چناں چہ آئین سازی کا فریضہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان (1895ء۔1951ء) کے ذمے آیا۔
عام سازگار حالات میں بھی آئین سازی کا کام بہت مشکل اور ہمت آزما ہوتا ہے۔ چوں کہ آئین میں زیادہ سے زیادہ نقطہ ہائے نظر کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے، اس لیے کہ نظریاتی کش مکش اور مفادات میں تصادم کے ساتھ ساتھ لسانی اور علاقائی سوالات بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں آئین ساز اسمبلی کو جن مسائل اور مشکلات سے عہدہ برآ ہونا پڑا، وہ گوناگوں اور بہت پیچیدہ ہونے کے علاوہ تعداد کے اعتبار سے بھی بہت زیادہ تھے۔ اس کے باوجود حصولِ پاکستان کے مقاصد، قومی احساسات اور تقاضوں، اور پھر آئین سازوں کے عزم و استقلال کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے مارچ 1949ء میں ایک قرارداد منظور کی جو ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان نے اس قرارداد کی منظوری کو حصولِ آزادی کے بعد اس ملک کی زندگی کا اہم ترین واقعہ قرار دیا۔ یہ قرارداد مستقبل کے آئین کی بنیاد بننے والے رہنما اصولوں پر مشتمل تھی۔
اس قرارداد میں پاکستان کا دستور قرآن اور سنت کے مطابق بنانے کا عہد کیا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا کہ ساری کائنات کی حاکمیت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، اور اس کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے اہلِ پاکستان اقتدار کا استعمال کریں گے۔ پاکستان میں اسلام کے اصولوں کے مطابق جمہوریت، آزادی اور معاشرتی عدل کو پوری طرح ملحوظ رکھا جائے گا، اور پاکستان کے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے اپنی زندگی کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھال سکیں۔ اقلیتوں کو اپنے مذہب و ثقافت کے فروغ اور اس پر عمل درآمد کی معقول ضمانت دی جائے گی۔ پھر بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا، عدلیہ کی آزادی محفوظ رہے گی اور ملک کی سالمیت اور آزادی کا تحفظ کیا جائے گا۔
اب یہ موقع تھا کہ مسلمان ایک طویل جدوجہد کے بعد اپنے مقاصد، اپنے خواب اور تصور کو اس قرارداد کی صورت میں ایک حقیقت کی صورت میں ڈھلتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ ان کی زندگی میں کئی صدیوں کی طویل اور صبر آزما جدوجہد اور کئی نسلوں کی قربانیوں سے یہ خوش گوار اور مسرت انگیز مرحلہ آیا تھا، لیکن افسوس کہ سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود نہ وہ خواب پورے ہوئے جس کے لیے ملک حاصل کیا گیا تھا، نہ حقیقی اسلامی مملکت قائم ہوسکی کہ معاشرے میں انصاف اور اخلاقیات کو فروغ حاصل ہوتا، باہمی اتحاد و یگانگت قائم رہتی اور ترقی و استحکام سے خوش حالی آتی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ قیام پاکستان سے مسلم ملّت کے اس حصے کو جو پاکستان میں آباد ہے، بھارت میں آباد مسلم ملّت سے کہیں زیادہ خوش حالی اور ترقی کے مواقع میسر آئے ہیں اور معیارِ زندگی بلند ہوا ہے۔ لیکن بھارت کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ بحالتِ مجبوری اور بادلِ ناخواستہ اُس نے پاکستان کے قیام کو قبول تو کیا لیکن کبھی برداشت نہ کیا۔ چناں چہ روزِ اوّل سے اس کی کوشش اسے نیست و نابود کرنے میں صرف ہورہی ہے۔ تمام اخلاقی اور بین الاقوامی اصولوں کو نظرانداز کرکے کشمیر پر اس کا قبضہ، اور اس قبضے کے لیے کشمیر یا پاکستان پر حملہ، پاکستان کے خلاف اس کا اوّلین اقدام تھا۔ پھر سیاسی ریشہ دوانیوں، بیرونی اثرات اور خاموش دراندازی کے ذریعے اس نے سندھ طاس معاہدوں کے جال میں گرفتار کرکے پاکستان کو معاشی طور پر کھوکھلا کرنے کی کوششوں میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کرلی، اور اس کی خاموش دراندازی نے یہاں وہ صورتِ حال پیدا کردی کہ مشرقی پاکستان الگ ہوجائے، اور اب کراچی سے بلوچستان کے آخری شمال مغربی سرے تک کا علاقہ پاکستان سے الگ ہوجائے کہ جس کے بعد نہ پنجاب آزاد و خودمختار رہ سکتا ہے، نہ صوبۂ خیبر پختون خوا۔ یہاں کی ہر بدامنی کے پیچھے اصل ہاتھ بھارت کا تلاش کیا جاسکتا ہے جو یہاں اپنے پیدا کردہ مُہروں اور ایجنٹوں کے ذریعے ویسی ہی کامیابیاں حاصل کررہا ہے جیسی کامیابی اسے مشرقی پاکستان میں میسر آئی تھی۔
یہ کامیابیاں تو بھارت کو سیاسی محاذ پر حاصل ہورہی ہیں جس کا ایک بڑا سبب ہمارے سیاست دانوں کی عاقبت نااندیشی، ذاتی اغراض و مفادات جیسی ترجیحات اور تاریخی و قومی شعور سے محرومی ہے، لیکن بھارت نے ہمارے دانش وروں میں بھی روزِ اوّل ہی سے ایک ایسا طبقہ پیدا کردیا ہے یا اس کی حوصلہ افزائی کے یہاں مواقع عام کردیے ہیں جو بڑی مصلحت، چالاکی اور خوبصورتی کے ساتھ عوام کے ذہنوں میں اپنی مذہبی، تہذیبی، فکری اور معاشرتی روایات اور اقدار کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کررہا ہے اور ہمارے مُسلّمات کو متنازع بناکر ہماری مذہبی اور اخلاقی اقدار سے ہمیں دور کرنے کے ساتھ ساتھ تاریخی حقائق کو جھٹلانے اور ہمارے اکابر اور قائدین سے ہمیں بدظن کرنے میں پیش پیش ہے۔ اس ضمن میں قیام پاکستان کو متنازع بنانے، ہمارے اکابرین کو نظریۂ پاکستان یا پاکستان کے بحیثیت ایک اسلامی مملکت قیام سے منحرف قرار دینے سے بھی نہیں چوک رہا۔ اس سلسلے میں ہمارے ففتھ کالمسٹ (Fifth Colomnist) دانشوروں کا یہ اصرار رہا ہے کہ پاکستان کا تصور پیش کرنے والے مفکر یا خودی کا سرِّ نہاں، لا الہٰ الّا اللہ کہنے والے اقبال اشتراکیت پسند تھے، یا قائداعظم سیکولر یا لادینی ریاست کے حامی تھے۔ اس الزام کے پس پشت جہاں کم علمی اور سطحیت کارفرما ہے، وہیں ہندو پروپیگنڈے اور تجارتی ترغیبات کی چاشنی بھی ہم پر اثرانداز رہی ہے، جو ثقافتی یلغار کی صورت میں بھی ایک فیشن کے طور پر ہمارے معاشرے میں سرایت کرچکی ہے، اور ہم ’’امن کی آشا‘‘ اور ’’بولی ووڈ‘‘ کی پیروی کرکے ہندو عقائد و نظریات اور معاشرتی اقدار کو اپنی زندگی کا حصہ بنارہے ہیں۔
پاکستان کو ایک اسلامی مملکت کے قیام کے تصور اور مقصد سے مختلف سمجھنا، اور خصوصاً قائداعظم کو سیکولر نظریات کا حامل سمجھنا محتاط سے محتاط لفظوں میں شدید غلط فہمی، کم علمی یا ارادۃً ہندو نظریات کی پیروی کا عمل ہے۔ میں تفصیل میں نہیں جائوں گا کہ پاکستان کے آزاد اسلامی مملکت ہونے کے تصور کے لیے ’’قرارداد پاکستان‘‘ (1940ء) اور پھر ’’قراردادِ مقاصد‘‘ (1949ء) سب سے بڑے ثبوت اور سب سے مصدقہ دستاویزات ہیں۔ جو افراد اس خیال کے حق میں نہیں، یا کسی مختلف خیال کے حامی ہیں انھیں دوبارہ ان دستاویزات کو غیر جانب داری کے ساتھ بغور پڑھ لینا چاہیے، اور اس ضمن میں اگر کہیں قائداعظم کے تعلق سے ایسے بیانات نقل ہوئے ہوں جن میں اُن کے سیکولر خیالات کا اظہار ہوتا، یا اُن کی جانب سے پاکستان کو ایک سیکولر مملکت بنائے جانے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہو تو ان بیانات کو ان کی مجرد صورت میں محض ان کے اقتباسات تک محدود رکھ کر نہیں بلکہ ان کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ اس ضمن میں مذکورہ دستاویزات نایاب یا کمیاب نہیں، بآسانی دستیاب ہوجاتی ہیں۔ یہی صورت قائداعظم کے خیالات اور بیانات کی بھی ہے، جو ان کی تقاریر، بیانات اور فرمودات کے مجموعوں میں دستیاب ہیں، جن کے متعدد مستند نسخے یا ایڈیشن موجود ہیں۔ چوں کہ ان مجموعوں میں قائداعظم کے متعلقہ بیانات و خیالات مکمل طور پر یکجا صورت میں کسی ایک عنوان کے تحت مرتب نہیں ہیں، اس لیے یہ مناسب ہوگا کہ محض نمونۃً یہاں چند ایسے اقتباسات پیش کردیے جائیں جن سے قائداعظم کے وہ خیالات سامنے آئیں جن سے ان غلط بیانیوں کی تردید ہوسکے جو اس سلسلے میں الزام کی صورت میں قائداعظم سے منسوب کی جاتی ہیں۔ نظریۂ پاکستان کو سمجھنے اور متعین کرنے کے لیے قائداعظم کے یہ خیالات بنیادی مآخذ میں شمار ہوسکتے ہیں:
”ہمارے لیے بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی قوم کو منظم کریں۔ یہ اُس وقت ہوسکتا ہے کہ جب ہم طاقت ور ہوں اور اپنی قوم کی مدد کریںنہ صرف استقلال و آزادی کے لیے،بلکہ اس کو برقرار رکھنے کے لیے اور اسلامی تصورات اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے۔
پاکستان کا مقصد صرف آزادی و خودمختاری ہی نہیں، بلکہ اسلامی نظریہ ہے، جو ایک بیش قیمت عطیے کی حیثیت میں ہم تک پہنچا ہے۔‘‘( ص366۔ 367)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اپنے ضابطۂ حیات، اپنی روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کرسکیں۔ ہمارا مذہب، ہمارا کلچر اور ہمارے اسلامی نظریات ہی وہ محرکات ہیں جو ہمیں خود مختاری حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھاتے ہیں۔‘‘ (ص 437۔ 442)
۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’آل انڈیا مسلم لیگ کا مطالبہ ہے کہ ہندوستان کے اُن علاقوں میں جہاں مسلمان تعداد کے لحاظ سے اکثریت میں ہیں، ایسی مملکت قائم کریں جہاں وہ اسلامی شریعت کے تحت حکومت کرسکیں۔‘‘ (ص 405)
مذکورہ تمام خیالات، قائداعظم کی تقاریر و بیانات کے مستند ترین مجموعےSpeeches and writings of Mr. Muhammad Ali Jinnah. مرتبہ: جمیل الدین احمد، جلد اوّل، لاہور، 1960ء سے ماخوذ ہیں۔
ان واضح الفاظ میں وہ سب کچھ موجود ہے جو قیام پاکستان اور اس کے ایک اسلامی مملکت قرار دیے جانے کے بارے میں کسی بھی قسم کی مخالفت کا جواب دینے کے لیے کافی ہے۔ لیکن ایک ایسی منظم کوشش کو جو مصلحۃً اور ارادۃً نظریۂ پاکستان کی غلط تعبیرو تشریح پر مبنی ہے، پاکستان کے ان حالات میں جب باہمی اتحاد و اتفاق خطرے کی حدود میں داخل ہوچکا ہے اور ملک مزید تقسیم در تقسیم کے مرحلے تک پہنچ چکا ہے، انتہائی تشویش ناک ہے۔ افسوس کہ ہمارے متعلقہ قومی ادارے ایسی منظم تدابیر اختیار کرنے سے قاصر رہے ہیں جو اس منفی صورتِ حال اور ایسے ناروا پروپیگنڈے کا مؤثر اور مناسب تدارک کرسکیں۔