موسمی آفتیں: ہمارے ذرائع پیداوار کیا ہیں 51 ارب ٹن سالانہ کاربن کا19 فیصد

چھٹا باب
میرے گھرانے میں پنیر برگر بہت پسند کیا جاتا ہے۔ جب میں بچہ تھا، اپنے اسکاؤٹ گروپ کے ساتھ لمبی مہم پر نکل جاتا تھا، اور سارے ہی لڑکے گھر واپسی پر میرے والد کی گاڑی میں بیٹھنے کی کوشش کرتے تھے، کیونکہ وہ راستے میں دکان پر گاڑی روک کر سب کو برگر کھلاتے تھے۔ کئی سال بعد، مائیکروسوفٹ کے ابتدائی دنوں میں، برگر ماسٹر پر نہ جانے کتنے ہی لنچ ڈنراور رات گئے کھانے کھائے، یہ سیاٹل کی سب سے پرانی برگر چین ہے۔
بعد میں جب مائیکروسوفٹ کی شہرت ہوئی، مگر ابھی میلنڈا اور میں نے فاؤنڈیشن شروع نہ کی تھی، میرے والد نے گھر کے پاس ہی برگر ماسٹر کی ایک برانچ میں ایک بے قاعدہ سا دفترکھول کربیٹھنا شروع کردیا تھا۔ وہ ریسٹورنٹ میں بیٹھتے، وہیں کھانا کھاتے، اور (مائیکروسوفٹ کو) چندے کے لیے ملنے والی درخواستیں وصول کرتے تھے۔ ایک وقت آیا کہ انہیں اُسی پتے پر“Bill Gates Sr., in care of Burgermaster.” کے حوالے سے خطوط موصول ہونے لگے۔
اگرچہ میں آج بھی ایک لذیذ پنیر برگر کھانا پسند کرتا ہوں، لیکن کم کم ہی کھاتا ہوں۔ وہ پہلے والی بات نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ جان لینا ہے کہ گائے کا گوشت اورگوشت کی دیگر اقسام بدلتے موسم پر کس قدر مضر اثرات مرتب کررہی ہیں۔
خوراک کی پیداوار کے لیے مویشیوں کی نشوونما گرین ہاؤس گیس اخراج کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ ’’زراعت، کھیتی باڑی وغیرہ‘‘ انسانی سرگرمیوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اس شعبے میں کئی اقسام کی گیسوں کا اخراج سامنے آتا ہے۔ زراعت سے خارج ہونے والی سب سے بڑی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ نہیں بلکہ میتھین ہے۔ یہ فی مالیکیول 28 گنا زیادہ حدت پیدا کرتی ہے، اور نائٹرس آکسائیڈ265گنا زائد حرارت خارج کرتی ہے۔
ہر سال میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ کی اخراج کردہ گیسوں کا حجم سالانہ سات ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابرہے۔ انہیں تمام گیسوں کا اسّی فیصد سے زائد بھی کہا جاسکتا ہے۔ اگر ہم نے اس اخراج کا کوئی سدباب نہ کیا تو دنیا کی آبادی کے ساتھ ساتھ خوراک کی ضرورت اس میں اضافہ کرتی چلی جائے گی۔ اگر ہم صفر کاربن تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ کس طرح پودوں اور مویشیوں کی افزائش کے ساتھ ساتھ کاربن اخراج میں کمی لائی جائے۔
کاشت کاری واحد مسئلہ نہیں ہے۔ ہمیں جنگلات کی کٹائی بھی روکنی ہوگی اور اراضی کا دیگر منفی استعمال بھی بند کرنا ہوگا، جس کے سبب 1.6ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل ہورہی ہے اور جنگلی حیات کو تباہ کررہی ہے۔ یہ ایک بڑا وسیع موضوع ہے۔
میرا ایک ہیرو ہے، نوبیل انعام یافتہ ماہر زراعت (agronomist) کہ جس نے ایک ارب افراد کو بھوک سے بچایا، مگر جسے عالمی ترقیاتی حلقوں سے باہر کی دنیا کم ہی جانتی ہے۔ ہم یہاں ایک مشہور پیش گوئی سے بات آگے بڑھاتے ہیں جو تاریخی طور پر غلط ثابت ہوئی۔
سن 1968ء میں ایک امریکی Paul Ehrlich نے بیسٹ سیلنگ کتاب The Population Bomb شایع کی، جس میں اُس نے مستقبل کی بڑی خطرناک تصویر کھینچی، کہ جیسے ہنگر گیمز ہوں ’’ایک جنگ کہ جس میں ساری دنیا خوراک پر جھپٹ پڑی ہو‘‘۔ ایلرچ نے لکھا ’’1970 اور1980کی دہائیوں میں کروڑوں لوگ بھوک سے مرجائیں گے، خواہ ان کی خوراک پوری کرنے کے لیے کیسا ہی پروگرام بنالیا جائے۔‘‘ ایلرچ نے مزید لکھا کہ ’’بھارت ممکنہ طورپر1980ء تک 20کروڑ لوگوں کو خوراک مہیا نہیں کرپائے گا۔‘‘ مگر یہ پیش گوئیاں صحیح ثابت نہ ہوئیں۔
اُس وقت سے The Population Bomb باہر آگیا ہے۔ بھارت کی آبادی ایک ارب سے زائد ہوچکی ہے۔ یہ 1968ء کے مقابلے میں دگنی تعداد ہے۔ مگر اب بھارت میں گندم اور چاول کی پیداوار بھی تین گنا ہوچکی ہے۔ بھارت کی معیشت میں بھی نمو دیکھی گئی ہے۔ ایشیا اور جنوبی ایشیا میں پیداواری شرح اسی تناسب سے بڑھی ہے۔
نتیجے کے طورپر، باوجود اس کے کہ دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے، لاکھوں کروڑوں لوگ بھوک سے نہیں مررہے۔ درحقیقت خوراک اب زیادہ آسانی سے دستیاب ہے۔ امریکہ میں آج ایک گھرانہ تیس سال قبل کی نسبت کم خرچ میں خوراک کی ضرورت پوری کررہا ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ دنیا کے کچھ حصوں میں ناقص خوراک کا مسئلہ موجود نہیں ہے۔ بہرحال ایلرچ کی پیشگوئی درست ثابت نہیں ہوئی۔ کیوں؟ کون سی بات ایلرچ اور دیگر ماہرین کی نظر میں نہ آسکی تھی؟ دراصل یہ ماہرین جدت کی قوت نظرانداز کرگئے تھے۔
(جاری ہے)