اسلحہ منڈی کی گرم بازاری

کورونا کی وبا کےباجود جنگی ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ سوئیڈن کے تحقیقی ادارے کی رپورٹ

دنیا چاہے کسی بھی ڈگر پر چل رہی ہو، معیشتوں کے لیے چاہے جیسی بھی صورتِ حال کھڑی ہوگئی ہو، اسلحے کی خرید و فروخت میں کمی نہیں آتی۔ دنیا بھر میں کہیں جنگ ہورہی ہو یا نہ ہورہی ہو، خانہ جنگی کا معاملہ تو رہتا ہی ہے۔ بہت سے ممالک میں علیحدگی پسند تحریکیں چلائی جارہی ہیں۔ اس معاملے میں اسلحے کا استعمال بھی عام ہے۔ دہشت گردی کے لیے بھی اسلحے کا استعمال بڑھ چکا ہے۔ ایسے میں اسلحہ ساز اداروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں رہتی ہیں اور سر کڑھائی میں۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سِپری) نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسلحہ بنانے والے 100 نمایاں ترین اداروں نے ایک سال کے دوران کم و بیش 531 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے۔ دنیا بھر میں کورونا کی وبا بھی اسلحے کی منڈی کو متاثر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اسلحے کی عالمی منڈی میں امریکہ اور چین اب بھی نمایاں ترین پوزیشن میں ہیں۔
امریکہ اسلحے کا سب سے بڑا بیوپاری ہے۔ سِپری کی رپورٹ کے مطابق اسلحے کی سب سے بڑی دکان امریکہ نے کھول رکھی ہے۔ اسلحہ بنانے والے 100 نمایاں ترین اداروں میں 41 امریکہ کے ہیں۔ ان اداروں نے 2020ء میں کُل ملاکر 285 ارب ڈالر کا اسلحہ اور فوجی ساز و سامان فروخت کیا۔ سِپری ہی کی رپورٹ کے مطابق کورونا کی وبا کے باوجود 2020ء کے دوران دنیا بھر میں اسلحے کے سب سے بڑے خریداروں میں امریکہ، برطانیہ، روس، چین اور بھارت شامل تھے۔ بھارت اور چند دوسرے ترقی پذیر ممالک اب اسلحہ برآمد بھی کرتے ہیں۔ گزشتہ دو برس کے دوران دفاعی اخراجات کے معاملے میں بھارت کا تیسرا نمبر رہا ہے۔ چین اور بھارت دو سال سے دفاعی اخراجات کے حوالے سے پانچ نمایاں ترین ممالک میں شامل ہیں۔ سوئیڈن کی پارلیمنٹ نے 1966ء میں ایک قرارداد کے ذریعے سِپری قائم کیا تھا جس کا مقصد دنیا بھر میں کیے جانے والے فوجی یا دفاعی اخراجات پر نظر رکھنا تھا۔ یہ ادارہ تب سے یہ کام بخوبی کرتا آیا ہے۔
دفاعی اخراجات کے حوالے سے چین بھی پیچھے نہیں رہا۔ دو عشروں کے دوران چینی معیشت کے فروغ کے ساتھ ساتھ اُس کا دفاعی بجٹ بھی بڑھتا گیا ہے۔ چین جس انداز سے دفاعی بجٹ میں اضافہ کررہا ہے اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی فوج کو عالمی قوت کے طور پر منوانے کا خواہش مند ہے۔ یہ بات تو اب پوری دنیا پر عیاں ہے کہ چین کم و بیش تمام معاملات میں امریکہ سے مسابقت کا حامل ہے۔ وہ اب صرف امریکہ کو اپنا حقیقی حریف مانتا ہے۔ صدر شی جن پنگ کے عہدِ صدارت میں چینی دفاعی بجٹ بڑھتا رہا ہے۔ آج کل چین اپنے دوسرے طیارہ بردار جہاز کی کمیشننگ کی تیاری کررہا ہے۔ چین نے راڈار کو دھوکا دینے والے طیارے بھی بڑی تعداد میں بنا رکھے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ فضا میں زمین پر بہت دور تک مار کرنے والے میزائل بھی بڑی تعداد میں تیار کرچکا ہے۔ اس وقت فوجیوں کی تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑی فوج چین کی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ چین اپنی فوج کو جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجیز سے لیس کرنے پر غیر معمولی توجہ دے رہا ہے۔ روایتی لڑائی میں بھی چین جدید ترین طریقے اپنانے کی راہ پر گامزن ہے۔
ایک عشرے کے دوران بھارت نے بھی دفاعی معاملات پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ اُس کا دفاعی بجٹ کم و بیش پچاس فیصد بڑھ چکا ہے۔ پاکستان، چین، نیپال اور بنگلہ دیش سے اس کے سرحدی تنازعات چل رہے ہیں۔ ایسے میں بھارتی فوج پر بھی بجٹ اور کارکردگی کے حوالے سے غیر معمولی دباؤ ہے۔ چین سے سرحدی معرکہ آرائی کے باعث بھارتی قیادت پر لازم ہوچکا ہے کہ فوج کی قوت بڑھانے اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر متوجہ رہے۔ یہی سبب ہے کہ ملک میں کم و بیش 80 کروڑ افراد کے انتہائی قابلِ رحم حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہونے پر بھی بھارتی قیادت بجٹ کا ایک معقول حصہ دفاعی معاملات پر خرچ کرتی ہے۔ بھارتی قیادت کہتی تو بہت ہے کہ وہ دفاعی معاملات میں اپنے وسائل پر بھروسا کرے گی، مگر ایسا ممکن نہیں بنایا جاسکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ درآمد شدہ ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان پر انحصار گھٹنے کے بجائے بڑھ ہی رہا ہے۔ اعلیٰ معیار کے لڑاکا طیارے ملک ہی میں بنانے کا دعویٰ تو بھارتی قیادت بہت کرتی ہے مگر اب تک اس حوالے سے کارکردگی قابلِ ذکر نہیں رہی۔ یہی معاملہ چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کا بھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ فوج کو لڑنے کے قابل بنائے رکھنے کے لیے مغربی ممالک سے درآمد شدہ ہتھیاروں ہی پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔
ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ بھارتی فوج کا کم و بیش 67 فیصد اسلحہ اور فوجی ساز و سامان پُرانا، ناکارہ اور غیر متعلق ہوچکا ہے۔ ایسے ہتھیاروں کو اصطلاحاً vintage کہا جاتا ہے۔ فی زمانہ فوج کو جس انداز کی تیاریوں کا حامل ہونا چاہیے وہ یقینی بنانے کے لیے بھارتی قیادت کو بجٹ کا اچھا خاصا حصہ فوج کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کے لیے مختص کرنا پڑے گا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بھارتی فوج کے پاس جدید ترین ہتھیار اور متعلقہ ساز و سامان نہیں، اس کے باوجود فوج کو آپریشنز کرنا پڑتے ہیں۔ آج کی جنگ ہائی ٹیک کی جنگ ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز کا نمونہ قرار دی جانے والی چیزیں نہ ہوں تو فوج کچھ نہیں کر پاتی۔ یہی معاملہ بھارتی فوج کا بھی ہے۔ سِپری کی رپورٹ کے مطابق خود بھارتی فوج بھی تسلیم کرتی ہے کہ اُس کے پاس جدید ترین ہتھیار صرف 25 فیصد تک ہیں۔ 45 فیصد ہتھیار پُرانے ہوتے جارہے ہیں اور 20 فیصد ہتھیار اب صرف پھینکے جانے کے قابل ہیں۔ علاوہ ازیں ہتھیاروں اور دیگر فوجی ساز و سامان کے فاضل پُرزوں کے حوالے سے بھی فوج عمومی سطح پر شِکوہ سنج ہی رہتی ہے۔
بھارتی قیادت دعویٰ کرتی رہتی ہے کہ وہ درآمد شدہ ہتھیاروں پر انحصار گھٹانا چاہتی ہے، اور اس حوالے سے اقدامات کا اعلان بھی کیا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ بھارت کا شمار آج بھی سب سے زیادہ ہتھیار درآمد کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔
2015ء سے 2019ء تک بھارت اسلحے کی خریداری کے حوالے سے سعودی عرب کے بعد دوسرے نمبر پر رہا۔ اسلحے کی عالمی درآمدات میں بھارت کا حصہ 9.2 فیصد ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے دفاع کے معاملات میں بھارت ترقی یافتہ ممالک پر کس حد تک انحصار پذیر ہے۔
دفاعی اخراجات کے مقابلے میں صحتِ عامہ اور تعلیمِ عامہ پر بھارت کے اخراجات بھی اُتنے ہی کم ہیں جتنے دیگر ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کے۔ بھارت نے رواں سال صحتِ عامہ پر 67 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ اگر بھارت کی پوری آبادی پر یہ رقم تقسیم کردی جائے تو فی کس 500 روپے بنتے ہیں۔ امریکہ دوسرے بہت سے معاملات پر چاہے جو کچھ بھی خرچ کرتا ہو، صحتِ عامہ کے حوالے سے اُس کا بجٹ غیر معمولی ہے۔ آج بھی امریکہ میں صحتِ عامہ کا بجٹ 1200 اور 1300 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کا دفاعی بجٹ بھارت کے دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے، مگر اس حقیقت کو کیسے نظرانداز کردیا جائے کہ امریکہ میں صحتِ عامہ کا بجٹ آج بھی بھارت سے کم و بیش 128 گنا ہے۔ امریکہ میں ہر شہری پر حکومت صحت کے حوالے سے کم و بیش 10 ہزار ڈالر خرچ کرتی ہے۔ چین میں صحتِ عامہ کا بجٹ بھارت کے صحتِ عامہ کے بجٹ سے کم و بیش ڈھائی گنا ہے۔
سِپری کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 1990ء کے بعد جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں رونما ہونے والی کمی اب رک گئی ہے۔ جن ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں وہ اب اپنے جوہری اسلحہ خانے کو جدت سے ہم کنار کررہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافے کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ اس وقت امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس، روس، بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا کے پاس مجموعی طور پر 13080 جوہری ہتھیار ہیں۔ سِپری کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد 13400 تک تھی۔ ایک سال کے دوران 320 جوہری ہتھیار کم ہوئے ہیں، تاہم ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا آیا ہے۔ پُرانے جوہری ہتھیاروں کا تلف کیا جانا لازم ہے۔ اگر پرانے جوہری ہتھیاروں کو ایک طرف ہٹادیا جائے تب بھی فعال اور کارآمد جوہری ہتھیاروں کی تعداد 9620 ہے جو انتہائی پریشان کن ہے۔ صرف ایک سال میں جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں جدید ٹیکنالوجیز کے حامل فعال اور کارآمد 240 جوہری ہتھیاروں کا اضافہ ہوا ہے۔ معاملہ یہیں تک نہیں۔ دنیا بھر میں افواج نے جوہری ہتھیار نصب بھی کررکھے ہیں۔ مختلف خطوں میںنصب کیے جانے والے جوہری ہتھیاروں کی مجموعی تعداد 3825 تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں سے تقریباً دو ہزار جوہری ہتھیار تو مکمل تیاری کی حالت میں ہیں، یعنی دشمن کو نشانہ بنانے کے لیے جب جی میں آئے، بٹن دبا دیجیے۔
جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے سب سے خطرناک صورتِ حال جنوبی ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ بھارت، چین اور پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ چین اور پاکستان سے بھارت کے سرحدی تنازعات بھی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت تین بار جنگ لڑچکے ہیں جبکہ بھارت اور چین کے درمیان بھی ایک باضابطہ جنگ ہوچکی ہے۔ ماہرین جوہری ہتھیاروں کی تعداد اور بین المملکتی تنازعات کے تناظر میں جنوبی ایشیا کو انتہائی خطرناک فلیش پوائنٹ قرار دیتے ہیں۔ چند برسوں کے دوران پاکستان، بھارت اور چین کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی دوڑ سی جاری رہی ہے۔
اب شمالی کوریا بھی جوہری ہتھیاروں کے میدان میں کود گیا ہے۔ اُس کی پالیسیاں بھی خطرناک ہیں۔ دوسری طرف ایران کے حوالے سے بھی اطلاعات ہیں کہ وہ خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کررہا ہے۔
آج بھی دنیا بھر میں امن کی باتیں ہورہی ہیں اور دوسری طرف جنگوں اور خانہ جنگیوں کا بازار بھی گرم ہے۔ افریقا اور ایشیا کے بہت سے ممالک میں شدید نوعیت کی خانہ جنگیاں جاری ہیں۔ یہ خانہ جنگیاں ہی اسلحے کی منڈی کو تیزی سے ہم کنار رکھتی ہیں۔ خانہ جنگیوںکے نتیجے میں بہت سے ممالک محض کمزور ہی نہیں پڑے بلکہ اُن کا وجود ہی داؤ پر لگ گیا ہے۔ آج بھی یہ انگریزی مقولہ درست ثابت ہورہا ہے کہ ’’وار اِز دی بیسٹ بزنس‘‘ یعنی جنگ بہترین کاروبار ہے۔ دنیا بھر میں رونما ہونے والی خرابیاں اسلحہ ساز اداروں کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑھائی میں کیے ہوئے ہیں۔ جب تک بین المملکتی سطح پر شورشیں برپا ہوتی رہیں گی تب تک اسلحہ ساز اداروں کی چاندی ہوتی رہے گی۔ ایسے میں یہ کیوں نہ سوچا جائے کہ وہ اس صورتِ حال کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے رہتے ہیں؟ بڑی طاقتوں کا مفاد بھی اِس بات میں ہے کہ ہتھیاروں کی دوڑ جاری رہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں خرابیاں پیدا کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔