کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی کے ادارتی صفحے پر معروف کالم نگار انعام بھٹی نے بروز پیر 20 دسمبر 2021ء کو محولہ بالا عنوان سے جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش کیا جارہاہے۔
’’یونیورسٹی کے زمانے میں اکثر اردو بازار کراچی جانا ہوا کرتا تھا، جہاں سے تدریسی اور ادبی کتب سستے داموں خریدا کرتا تھا۔ کراچی کے اردو بازار کا ایک حصہ جس کے وسط سے گلی گزرا کرتی تھی اور اس کے دونوں اطراف دکانیں ہوا کرتی تھیں، وہ گلی اتنی شاندار لگتی تھی گویا کوئی خاص بازار کتابوں کی دکانوں کے لیے کسی مخصوص زمین پر بنوایا گیا ہو۔ لیکن ایک مرتبہ اس مارکیٹ میں بڑا دھماکا ہوا جس کے بعد خبر پڑی کہ یہ مارکیٹ اصل میں گندے پانی کے ایک نالے پر تعمیر کی گئی تھی۔ کچھ عرصے کے لیے شور شرابہ اور واویلا ہوا، پھر شاید وہی اردو بازار اسی مقام پر تعمیر کردیا گیا اور گندے پانی کا نالہ اس کے نیچے ہی رہ گیا۔ جب تک کوئی نئی بارش نہ پڑے یا کوئی بھیانک واقعہ سرزد نہ ہو، اُس وقت تک ہر کوئی پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوجاتا ہے۔ کراچی کے کتنے گندے نالوں پر کہاں کہاں کون سی عمارتیں بنی ہوئی ہیں اور ان کے نیچے سے گزرنے والے ان نالوں میں سے گندا پانی گزر بھی رہا ہے یا وہ بند ہوکر قدرتی گیس بنانے کے کنویں بن چکے ہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں؟ کراچی کے گٹر نالوں پر تعمیرات کے بارے میں شاید ہی اس طرح کا کوئی سروے کبھی ہوا ہوگا۔ اس وقت تک ایسے کئی ہلکی پھلکی نوعیت کے واقعات ان گندے نالوں اور گٹروں میں سے خارج ہونے والی بائیوگیس کو لگنے والی آگ اور دھماکوں کے سالہاسال سے کراچی میں ہوتے رہتے ہیں، لیکن اس بارے میں کبھی بھی سرکار یا کسی سرکاری ادارے نے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے کہ ان گٹر نالوں پر تعمیر کردہ عمارتوں کے نیچے بائیو گیس کے کنویں میں کبھی کوئی دھماکہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں بہ کثرت جانوں کا اتلاف بھی ممکن ہے، اور کروڑوں روپے کی ملکیت بھی تباہی سے دوچار ہوسکتی ہے۔ کراچی کے علاقے شیرشاہ میں ایسے ہی ایک گٹر نالے پر تعمیر کردہ عمارت کے نیچے بائیو گیس کا جو کنواں بن چکا تھا، وہ کل جب پھٹا تو ایک خطرناک بم جیسے دھماکے سے بینک سمیت جتنی بھی عمارتیں تھیں وہ گر پڑیں اور ملبے کا ایک ڈھیر سا بن گئیں جس کے نتیجے میں 15 (بعدازاں 17، مترجم) قیمتی جانیں موت کے منہ میں چلی گئیں اور درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس وقت تک کی خبروں کے مطابق کہا جارہا ہے کہ دھماکے کی وجہ اس عمارت کے نیچے گیس لائن کا پھٹنا ہے، لیکن گیس کمپنی کے کہنے کے مطابق مذکورہ عمارت کے نیچے سے کوئی بھی گیس لائن نہیں گزرتی۔ خدشہ یہ تھا کہ شاید یہ کوئی بم دھماکہ ہو اور کسی تخریب کاری کا عنصر بھی اس دھماکے میں شامل ہو، لیکن بم ڈسپوزل اسکواڈ کی رپورٹ کے مطابق اس دھماکے کی وجہ کسی بھی دھماکے دار مادے کا پھٹنا نہیں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ دھماکہ اس گٹر نالے کے اندر پیدا شدہ بائیو گیس کے بننے کے عمل کا نتیجہ ہے۔
شعبۂ کیمیکل سے وابستہ ہونے کے ناتے تمام قارئین کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ یہ بائیوگیس کا عمل ہوتا کس طرح سے ہے؟ آج کے دور میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جسے یہ خبر نہ ہو کہ جانوروں کے گوبر، گندے کچرے (فضلہ) سے بائیو گیس پیدا کی جاتی ہے۔ دنیا بھر سمیت سندھ کے متعدد دیہاتوں میں بھی بائیو گیس کے چھوٹے بڑے پلانٹ بناکر بائیو گیس کو آگ جلانے کے لیے بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔ بائیو گیس کے ان پلانٹس میں مخصوص ترکیب اور مقدار سے کھاد کو گوبر اور پانی کے ساتھ ملاکر ایک بند کنویں میں داخل کیا جاتا ہے جس میں سے ہوا کا گزر بالکل نہیں ہوتا۔ آکسیجن کی عدم موجودگی میں اس کیمیائی عمل کے نتیجے میں کھاد گل کر بائیو گیس اور کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتی ہے۔ کاربن ڈائی گیس اس کنویں میں سے خارج کردی جاتی ہے جبکہ بقیہ رہ جانے والی بائیوگیس کو کسی چولہے میں بطور ایندھن کے آگ جلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے اگر کسی شہر کے سارے گندے خارج شدہ پانی کو کہیں اکٹھا کرکے کنووں میں بند کردیا جائے تو ان میں سے بھی بائیو گیس پیدا ہوسکتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس طرح کے شہر کے گندے پانی کے اخراج کے مقامات پر پلانٹس نصب ہیں جن سے گیس پیدا کرکے اس سے بجلی بھی پیدا کی جاتی ہے۔ اس تمام تر عمل میں بائیولوجیکل پراسس شامل ہوتا ہے، جس میں اس گندے پانی کے اندر آکسیجن کی عدم موجودگی میں جراثیم کچرے کو گلا کر گیسز پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس عمل کے باعث جو گیسز پیدا ہوتی ہیں ان میں بائیو گیس، جو میتھین گیس کی طرح کی ہوتی ہے، اور کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔
اس سارے عمل کو سمجھنے کے بعد کل شیرشاہ کی مارکیٹ میں ہونے والے دھماکے پر غور کیا جائے تو یہ بات باآسانی سمجھ میں آجائے گی کہ معاملہ کس طرح سے رونما ہوا ہوگا۔ کئی برس سے اس گندے پانی کے نالے پر تعمیر شدہ عمارت کے نیچے پانی کا اخراج تو آہستہ آہستہ ہوتا رہا ہوگا لیکن سارا کچرا اس کے نیچے ہی اس عرصے میں جمع ہوتا رہا ہوگا، جس میں انسانی فضلہ اور گھروں سے نکلنے والے گندے پانی کے ساتھ جو بھی کچرا وغیرہ ہوتا ہوگا وہ بھی اس نالے میں نیچے جمع ہوتا رہا ہوگا۔ برسہابرس کے اس سارے عمل کے ساتھ ساتھ اس نالے میں جراثیم کا کچرے کو گلانے کے بعد اس میں گیسوں کے بننے کا عمل بھی شروع ہوگیا ہوگا۔ آہستہ آہستہ جب یہ نالہ مکمل طور سے بند ہوگیا ہوگا اور اس میں ہوا کے عدم اخراج کی بنا پر آکسیجن کی مقدار کم ہوگئی ہوگی جبکہ بائیوگیس اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے بننے کی مقدار تیزی سے بڑھ گئی ہوگی، ایسی حالت میں جب کسی بھی بند نالے کے اندر اگر گیسیں اکٹھی ہوں گی تو ایک مقدار کے بعد وہ شدید دبائو پیدا کرکے دھماکے سے اس تعمیر کو مسمار کرکے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرسکتی ہیں۔ جس نالے کے اوپر کوئی عمارت تعمیر ہوجائے، اس میں ملک کے ایک مشہور بینک کی شاخ بھی کھل جائے، اور جب یہ گندے پانی کا نالہ، نالہ نہ رہے بلکہ ایک بائیو گیس کا پلانٹ یا ری ایکٹر بن جائے تو اس سارے عمل میں ملزم اور مجرم آخر کسے قرار دیا جائے؟ محض کراچی ہی نہیں بلکہ اس ملک کے تمام شہروں کے اندر جتنی بھی عمارتیں بنتی ہیں، ان کی منظوری میں متعلقہ اداروں کی مکمل کوتاہی شامل ہوتی ہے۔ جن اداروں کو ان عمارتوں کی منظوری کے وقت جن دیگر متعلقہ اداروں کی منظوری درکار ہے وہ بھی رشوتوں کے نتیجے میں بنا کسی تحقیق کے حاصل ہوجاتی ہے۔ سول ڈیفنس اتھارٹی، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ان تعمیرات کے اندر دیگر سہولیات گیس، بجلی اور ٹیلی فون لائنیں مہیا کرنے والے ادارے کسی بھی قسم کی قانونی ضروریات کی تکمیل کو جانچنے، پرکھنے یا ان مطلوبہ تقاضوں کو پورا کیے بغیر ہی بس رواروی میں رشوت کے بدلے منظوری دے دیتے ہیں۔ کراچی میں ایسے گٹر نالوں کے اوپر بہت ساری کثیرالمنزلہ عمارات بن چکی ہیں، جو نہ صرف گندے پانی کے اخراج کے راستے میں باعثِ رکاوٹ ہیں بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک بائیو گیس پلانٹ کا مواد بنتی ہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کے اندر اس طرح کی جتنی بھی تعمیرات ہیں انہیں بغیر کسی تاخیر کے ختم کردیا جائے اور گندے پانی کے بہائو اور اخراج کے تمام مقامات اور راستوں کو بحال کرکے انہیں بند ہونے سے روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ بصورتِ دیگر یہ گٹر نالے بائیو گیس کے بم بن کر کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں۔‘‘ nn