وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور ہدایت الرحمان بلوچ کے درمیان معاہدے پر دستخط
یقیناً بلوچستان کے اندر بدامنی دو عشروں سے زائد پر مبنی ہے۔ اس عرصے میں صوبہ بھاری جانی و مالی نقصان اٹھا چکا ہے۔ علی الخصوص اگر 1999ء میں منتخب حکومت آمریت کے زیر عتاب نہ آتی، اگر آمر حکمران قومی مفاد پسِ پشت نہ رکھتے، شخصی و گروہی حکومت کو دوام نہ دیتے تو یہ منطقہ ضرور تعمیر و ترقی کا لمبا اور شاندار سفر طے کرچکا ہوتا۔ ان برسوں میں پُرتشدد سیاست کو دوام ملتا رہا۔ نوجوان علیحدگی کی سوچ اور نعرے سے متاثر ہوکر مسلح تنظیموں کا حصہ بنتے رہے۔ مگر افسوس تب کی حکومت اور اقتدار سے جڑی سیاسی اشرافیہ نے حالات کی سنگینی پر توجہ دی اور نہ اس پر قابو پانے کی راست کوشش کی۔ سوبگاڑ چہار سو پھیل گیا۔ نتیجتاً صوبہ مختلف النوع بحرانوں و مسائل میں الجھتا رہا۔ گوادر کی، گہرے پانیوں کی بندرگاہ کی تعمیر کا شور بلند ہوا، البتہ کوسٹل ہائی وے کی تعمیر ہوئی۔ بندرگاہ کی تعمیر کے لیے پورٹ آف سنگاپور سے معاہدہ ہوا۔ ایک لمبا عرصہ اس معاہدے کے تحت ضائع ہوا۔ بعد میں معاہدہ توڑ کر بندرگاہ چین کے حوالے کردی گئی۔ تاہم چین کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے میں بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی۔ شومیِ قسمت بندرگاہ پوری طرح فعال اب بھی نہیں ہوسکی ہے۔ یہاں تک کہ چین پاکستان معاشی راہداری (سی پیک) کا ملک کے اندر غلغلہ بلند ہے، مگر اس کے معاشی و اقتصادی اثرات و ثمرات بلوچستان اور اس کے عوام پر مرتب دکھائی نہیں دیتے۔ بلاشبہ کام ہوئے ہیں، لیکن ایسے منصوبے قلیل مدت میں خطے اور عوام کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ بہرحال گوادر بندرگاہ کے ذریعے تجارت ہو یا سی پیک… یہ امن اور سیاسی استحکام سے جڑے ہیں۔ گویا امن و قرار کے ذیل میں سب کچھ جوں کا توں ہے۔
گوادر کے شاہراہِ ترقی پر سفر کی حقیقت یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں… اور حالیہ طویل دھرنا حقِ روزگار نہ چھیننے اور دوسرے بنیادی و انسانی حقوق و ضروریات کے لیے تھا۔ عوام کے اس احتجاج پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کو بولنا پڑا ہے کہ ’’میں حیران ہوں کہ گوادر اور بلوچستان کو دیا جانے والا پیسہ آخر جاتا کہاں ہے کہ لوگ اپنی ضروریات اور روزگار کے لیے احتجاج کررہے ہیں‘‘۔ ظاہر ہے شفافیت نہیں ہے۔ حکومتی اور سرکاری مشینری قزاق صفت افراد کے ہاتھ میں ہے۔ چین سے سی پیک کے تناظر میں معاملات سے شاید صوبے کی حکومت کماحقہٗ آگاہ نہ ہو۔ دوئم، حکومت میں بیٹھے حکمران جماعت کے اکثر اراکین اگرچہ اپنے حلقوں سے ووٹ لے کر اسمبلی میں پہنچے ہیں، مگر صوبے کی خاموش اکثریت انہیں حقیقی نمائندوں کے بجائے کٹھ پتلی اور تابع مہمل سمجھتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ حکومت کی باگیں اس منش و سطح کے افراد کے ہاتھ میں ہوں گی تو منطقی طور پر جمہور معاشرہ متنفر ہی ہوگا۔ بلاشبہ عوام کی ریاست سے وفاداری مشروط طور پر ہوتی ہے۔ جہاں عوام بنیادی حقوق اور حقِ نمائندگی سے محروم ہوں، ان پر ناپسندیدہ، بری شہرت و صفت اور کئی ناشائستہ علتوں میں مبتلا لوگ حاکم بنائے جاتے ہوں، تو ایسے میں معاشرہ اگر اظہار نہ بھی کرے تو دل و دماغ میں مختلف سوالات ضرور اٹھتے ہیں۔ بلوچستان کی حد تک منظرنامہ ایسا ہی ہے۔
گوادر بندرگاہ اور سی پیک سے ایران، بھارت، امریکہ سمیت کئی ممالک ناخوش ہیں۔ پاکستان کو اس ذیل میں کئی مشکلات بھی درپیش ہیں۔ چناں چہ یہ ممالک اور دنیا کیا سوچتی ہوگی کہ گوادر کی چھوٹی آبادی 15نومبر سے 16دسمبر2021ء تک برابر ایک مہینہ جینے کا حق مانگنے دن رات احتجاج پر بیٹھی رہی۔ ان ممالک پر پاکستان کی حکومتوں اور محکموں کی شفافیت، اخلاص، سنجیدگی اور کمٹمنٹ واضح ہوئی ہوگی۔ کیا اس دھرنے سے ترقی و خوشحالی کے بلند بانگ دعووں کی نفی نہیں ہوئی ہے؟ یقیناً پاکستان کی سبکی نہ ہوتی اگر فی الواقع صوبے کے عوام اپنے وسائل پر حق و اختیار رکھتے۔ تعلیمی، معاشی، اقتصادی ترقی سے ان کی زندگیوں میں واضح تبدیلی آتی۔کم ازکم اس عرصے میں گوادر کے عوام کی تقدیر بدل جانی چاہیے تھی،کہ ان کے ساحل پر دنیا کی ایک بڑی بندرگاہ روبہ تعمیر ہے۔ اور اسی بندرگاہ سے چین پاکستان معاشی راہداری کا تصور قائم اور وابستہ ہے۔ گوادر کی قلیل آبادی ایک جدید شہر میں منتقل ہوجانی چاہیے تھی۔ تاسف کا مقام ہے کہ گوادر کے لوگ حکومت سے بنیادی حقوق کے لیے چیخ و پکار کررہے ہیں۔ اگرچہ اس طویل احتجاج نے بالآخر وزیراعظم عمران خان کو جھنجھوڑا، ملک کی سیاسی جماعتوں کو حمایت پر مجبور کیا، جس کے نتیجے میں تحریری معاہدہ ہوا۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ تادیر معاہدے پر قائم نہ رہیں گے۔
بہرکیف فی الوقت 16دسمبر 2021ء کو تسلیم کیے گئے معاہدے پر وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور ’’حق دو گوادر کو‘‘ تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان دستخط کرچکے ہیں۔ سردست مولانا ہدایت الرحمان کا نام فورتھ شیڈول سے نکالنے کا مراسلہ جاری ہوا۔ معاہدے کے مطابق ’’آئندہ اگر کوئی ٹرالر ساحل کے قریب پایا گیا تو اس حدود کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماہی گیری کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ مانیٹرنگ، اور ٹرالنگ کی روک تھام کے لیے جوائنٹ پیٹرولنگ کی جائے گی، جس میں انتظامیہ اور ماہی گیر شامل ہوں گے۔ باقاعدہ ماہی گیر نمائندگان کو فشریز کے آفس میں ڈیسک دیا جا ئے گا۔ فشنگ کے لیے 12 ناٹیکل میل کو 30 ناٹیکل میل میں تبدیل کرنے کی تجویز متعلقہ فورم کو بھیجی جائے گی۔ ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کی آزادی ہوگی۔ سرحدی امور سے متعلق معاہدے میں طے پایا کہ ٹریڈ یونینز/ کمیٹی کے خاتمے کا آرڈر کیا جائے گا۔ سرحدی کاروبار ضلعی انتظامیہ کے مرتب کردہ ضابطہ کار کے مطابق بحال کیا جائے گا۔ سرحدی تجارت ایف سی سے ضلعی انتظامیہ کے حوالے کی جائے گی اور تمام اختیارات دیے جائیں گے۔ ٹوکن، ای ٹیگ، میسج، لسٹنگ وغیرہ کا خاتمہ کیا جائے گا۔ اس پر بھی اتفاق ہوا کہ ضلع گوادر، کیچ اور پنجگور میں غیر ضروری چیک پوسٹس کے خاتمے کے لیے مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو سروے رپورٹ مرتب کرے گی اور غیر ضروری چوکیوں کے خاتمے کی سفارشات پیش کرے گی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ضلع گوادر کے ماہی گیروں کی امداد کے لیے مخصوص پیکیج کا اعلان کریں گے۔ ایکسپریس وے کے متاثرین کا دوبارہ سروے کرکے جلد معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ حق دو تحریک کے کارکنان پر تمام مقدمات فوری ختم کیے جائیں گے۔ قائد (مولانا ہدایت الرحمان )کا نام فورتھ شیڈول سے فوری طور پر خارج کیا جائے گا۔ سمندری طوفان سے متاثرہ ماہی گیروں کی امداد کے لیے ڈی سی آفس سے رابطہ کرکے لائحہ عمل طے کیا جائے گا
وفاقی، صوبائی محکموں میں معذور افراد کے کوٹے پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ مکران ڈویژن کے رہائشی علاقوں میں چادر اور چار دیواری کا احترام کیا جائے گا۔ دھرنے کے بعد ’’حق دو گوادر کو‘‘ تحریک کے کسی بھی کارکن کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ کوسٹ گارڈز اور کسٹم کے پاس جتنی بھی بوٹس، کشتیاں، لانچیں اور گاڑیاں موجود ہیں ان کو ریلیز کرنے کے لیے صوبائی حکومت ہر قسم کا تعاون کرے گی‘‘۔
گوادر کے عوام سے غلطی ہوئی، انہیں صوبائی وزیر ماہی گیری اکبر آسکانی سے قلمدان لینے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ اکبر آسکانی غیر قانونی ٹرالنگ کی بدعنوانی کی گنگا میں سر سے پیر تک ڈوبے ہوئے تھے۔ جام کمال سے ناراض بھی اسی بنا پر ہوئے تھے۔ چناں چہ عبدالقدوس بزنجو نے حمایت کا صلہ پھر سے محکمہ ماہی گیری کی وزارت کی صورت میں دے دیا۔ ان سے محکمہ لیا جاتا تو یہ کابینہ کے دوسرے اراکین کے لیے بھی سبق ہوتا۔ مولانا ہدایت الرحمان لاپتا افراد کے مسئلے پر کوئٹہ میں دھرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ معاملہ بہت گمبھیر ہے۔ مسئلہ عسکریت پسندی، عدلیہ، پولیس اور لیویز نظام کے نقائص،کمزوریوں اور حکومت کی نااہلی و عدم دلچسپی سے جڑا ہے۔ یعنی صوبے کے اندر ریاست کے خلاف مسلح کارروائیوں کے ہوتے ہوئے اس صورت حال سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ چناں چہ ضروری ہے کہ معروضی حقائق مدنظر ہوں اور سرِدست صوبے میں امن کی فضا کے لیے سیاسی محاذ بنایا جائے۔ ملک کے نامور اور نیک نام سیاسی رہنمائوں پر مشتمل جرگہ کی ضرورت ہے، جو بیرونِ ملک بلوچ رہنمائوں سے بات چیت کا آغاز کرے۔ گویا اس تناظر میں صوبے کے آئینی، قانونی حقوق کی جدوجہد ہر سطح پر ہو۔