حالیہ مزاحمت کے مختلف ادوار میں جامع مسجد کئی ماہ تک تالا بندی کا شکار رہی
وادیِ کشمیر اگر ریاست جموں وکشمیر کا دل ہے، تو اس وادی کا دل سری نگر ہے، اور سری نگر کا دل ڈائون ٹائون میں روایتی طرزِ تعمیر کا شاہکار جامع مسجدہے۔ یہ 6 سوسال سے کشمیر میں ایک تہذیب کے عروج و زوال کی گواہ بھی ہے، حملہ آوروں کے جور وستم کی شاہد بھی، اور کشمیریوں کے عجز و انکسار کی امین بھی۔ یہ صرف کشمیریوں کی روحانی اور مذہبی تسکین کا مقام نہیں، بلکہ ان کی سیاسی تربیت اور راہِ عمل کا مرکز بھی ہے۔ مغربی دنیا کو اس کی اہمیت سمجھانے کے لیے شاید یہی کافی ہوگا کہ اسے ویٹی کن سٹی کے ساتھ تشبیہ دی جائے۔ جامع مسجد ایک ہمہ وقت متصادم اور غلبے کے لیے تڑپنے والی مگر مغلوب تہذیب کا مرکز ہے۔ یہاں سے جاری ہونے والا خطبہ کشمیریوں کی سیاسی و سماجی زندگی کے مسائل اور مشکلات کا احاطہ کیے ہوتا ہے، اور شاید ہر دور کے ظالم کے لیے یہی خطرے کی گھنٹی رہی ہے۔ کشمیر کی حالیہ سیاسی اور مزاحمتی تحریک میں اس مرکز کا نمایاں کردار رہا ہے۔ میرواعظ مولوی محمد یوسف شاہ کشمیریوں کی سیاسی مزاحمت کا ایک کردار رہے، اور اس کشمکش میں انہیں ہجرت کرنا پڑی۔ میرواعظ مولوی محمد فاروق کشمیریوں کی مسلح مزاحمت کے اوائل میں گولیوں کا شکار ہوئے اور ان کی شہادت نے ایک مسلح مزاحمت کو مہمیز دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب میرواعظ عمر فاروق جامع مسجد کی نگرانی کے ساتھ ساتھ کشمیر کی سیاسی مزاحمت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ وہ اپنے ہر خطبے میں کشمیر کے مسئلے کے سیاسی پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہیں، اور لوگ پُرشور نعروں سے مزاحمت کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ حالیہ مزاحمت کے مختلف ادوار میں جامع مسجد کئی ماہ تک تالا بندی کا شکار رہی۔ 5 اگست 2019ء کے بعد تو جامع مسجد کو مستقل طور پر خاردار تاروں کے پیچھے چھپا دیاگیا ہے۔ میرواعظ عمرفاروق اُس وقت سے مسلسل نظربندی کا سامنا کررہے ہیں۔
بھارت کشمیر کی بہت سی تہذیبی علامتوں کی طرح جامع مسجد کے انقلابی کردار کو بدلنا چاہتا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ جامع مسجد کشمیریوں کی سیاسی راہنمائی کی روایت چھوڑ دے اور نماز، روزے اور ذکر اذکار تک محدود ہوجائے۔ میرواعظ عمرفاروق کو خطبے میں سیاسی امور پر لب کشائی سے گریز پر آمادہ کرنے کی کوششیں کی جا چکی ہیں، لیکن کشمیریوں کا اجتماعی ضمیر جامع مسجد کے کردار کو محدود کرنے کی اس کوشش کو تسلیم نہیں کرتا، یہی وجہ ہے کہ جامع مسجد خاردار تاروں اور فوجی محاصرے کا شکار ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نےMosque closure in Kashmir contradicts India ,s religious freedom claim. کے عنوان سے لکھی رپورٹ میں جامع مسجد کی تالا بندی اور محاصرے کی اس دکھ بھری داستان کو بہت صراحت سے بیان کیا ہے۔ اے پی نے جامع مسجد کی موجودہ دل خراش کہانی کا آغاز یوں کیا ہے:
’’بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر کی عظیم الشان جامع مسجد اپنے وسیع مرکزی دروازے اور میناروں کے باعث علاقے میں نمایاں طور پر پُرکشش منظر پیش کرتی ہے۔ اس تاریخی مسجد میں 33 ہزار نمازی عبادت کرسکتے ہیں، اور عیدین جیسے خاص تہواروں پر یہاں لاکھوں مسلمان جمع ہوتے ہیں۔ بھارتی حکام اس مسجد کو مسائل پیدا کرنے والی جگہ کے طور پر دیکھتے ہیں، جہاں احتجاج اور جھڑپوں کا سلسلہ متنازع کشمیر پر بھارت کی خودمختاری کو چیلنج کرتا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے لیے یہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کا ایک مقدس مقام ہے، جہاں وہ اپنے سیاسی حقوق کے لیے آواز اُٹھا سکتے ہیں‘‘۔
اے پی کے رپورٹر آگے چل کر یوں رقم طراز ہیں:
’’بھارتی فورسز اور کشمیریوں کے درمیان تلخ تنازعے کے دوران یہ مسجد دوسال سے تالا بند رہی ہے۔ مسجد کے امام کو اُس وقت سے ہی نظربند رکھا گیا ہے اور جمعہ کے دن مسجد کے صدر دروازے کو تالے لگا کر ٹین کی چادروں سے بند کیا جاتا ہے۔ مسجد کی بندش نے کشمیریوں کے غم وغصے کو مزید ہوا دی ہے‘‘۔
اس کے بعد اے پی کے رپورٹر نے مسجد کی بندش کے حوالے سے مقامی نمازیوں کے تاثرات بیان کیے ہیں۔کسی کے لیے یہ آبا و اجداد کی روایتوں کی امین عبادت گاہ کی بندش ہے، تو کوئی اسے روح پر پابندی کہہ رہا ہے۔ کشمیر کے معروف شاعر اور دانشور ظریف احمد ظریف کا تبصرہ کچھ یوں ہے: ’’جامع مسجد کشمیریوں کے عقیدے کی روح کی نمائندگی کرتی ہے، تقریباً چھے صدیاں قبل اس کی بنیاد کے بعد سے یہ سماجی اور سیاسی حقوق کے مطالبات کا مرکز رہی ہے، اس کی بندش ہمارے ایمان پر کاری ضرب ہے۔‘‘
اے پی کے نامعلوم رپورٹر کے مطابق ایک طرف امرناتھ یاترا دو ماہ تک جاری رہتی ہے اور لاکھوں ہندو بھارت بھر سے یہاں پوجا کرنے آتے ہیں، تو دوسری طرف مسلمانوں کا سب سے بڑا مذہبی اور تہذیبی مرکز دوسال سے بند ہے اور کشمیری اسے مذہبی آزادی پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ رپورٹ کا اختتام ان الفاظ پر کیا گیا ہے:
’’ویران جامع مسجد کے قریب بھارتی سیاح خاردار تاروں سے گھرے اس کے مقفل دروازے کے پس منظر میں سیلفیاں لینے میں مصروف ہیں اور کشمیری انہیں خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘
امریکی خبر رساں ادارے کی یہ رپورٹ ماضیِ قریب میں عالمی ذرائع ابلاغ میں کشمیرکی حقیقی صورتِ حال کی عکاسی کرنے والی چند رپورٹس میں نمایاں اور بھرپور ہے، جس میں کشمیر میں بھارت کے اقدامات کو ہندوتوا مائنڈ سیٹ کے تناظر میں دیکھا گیا ہے، یعنی ایک طرف ہندوئوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی میں بھرپور مدد دی جارہی ہے، تو دوسری طرف مسلمان آبادی کے مذہبی شعائر کو یوں ویران، بے رونق اور اُداس رکھ کر ان کی بیگانگی اور ناراضی کو بڑھایا جارہا ہے۔ یہ امریکی حکومت اور اُن اداروں کے لیے بھی کسی تازیانے سے کم نہیں جو چین کے اویغور مسلمانوں کے غم میں گھل رہے ہیں، لیکن جنہیں بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناانصافیاں نظر نہیں آتیں۔