ملک میں برسراقتدار رہنے والی جماعتوں نے قوم کو مایوس کیا اور ملک کو کرپشن کا گڑھ بنادیا جماعت اسلامی میں شامل ہو نے والے سندھ کی قدیم گدی کے سجادہ نشین حضرت پیر غلام مجدد سرہندی کی گفتگو
سندھ کے حق گو، پیر و مرشد خاندان کے چشم و چراغ، داعیِ اسلام اور سماجی و سیاسی رہنما پیر طریقت حضرت پیر غلام مجدد سرہندی 4 مارچ1967ء کو مٹیاری میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا شمار سلسلۂ نقش بندی مجدد الف ثانیؒ میں ہے، جبکہ ان کے آباو اجداد سید احمد شہید سے لے کر پیر صبغت اللہ شاہ راشدی (شہید پیر صاحب پگارا) اور علی برادران مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی کی تحریکوں کے روحِ رواں رہے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق موصوف کے دادا پیر غلام مجدد سرہندی کو سینٹرل جیل حیدرآباد میں پیر صاحب پگارا شہید کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل ہے جو خود بھی اُس وقت انگریزوں کے خلاف جہاد کے جرم میں پابندِ سلاسل تھے۔ وہ کُل ہند تحریک ِخلافت کمیٹی کے رکن اور سندھ میں تحریکِ خلافت کے کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ تحریکِ خلافت میں جن لوگوں کے خلاف خالق دینا ہال میں بغاوت کا مقدمہ درج ہوا اُن میں پیر آقا غلام مجدد بھی شامل تھے۔ انہیں 2سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ انگریزوں نے ان کی اراضی و جائداد بھی چھین لی تھی۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ سندھ کے نائب صدر اور ایک مرتبہ قائم مقام صدر بھی رہے ہیں۔ پیر حسام الدین راشدی اور دیگر مؤرخین نے بھی ان کی خدمات وقربانیوں اور سیاسی جدوجہد کا اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ ان کا انتقال 1958ء میں مٹیاری میں ہوا تھا۔
پیر غلام مجدد سرہندی کا اسم گرامی ان کے والد پیر سخی شاہ غلام رسول سرہندی نے اپنے والدِ محترم کے نام پر ہی رکھا ہے۔ یہی سبب ہے کہ موجودہ پیر غلام مجدد سرہندی کی شخصیت میں ایک بے چینی واضطراب ہے۔ وہ مسلمانوں کے لیے کچھ کرنے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھنے کی جستجو رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا اسے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد تیز تر کرنا ہوگی۔ اس سو چ کی تکمیل کے لیے ان کی نظر جماعت اسلامی پر پڑی۔ انہوں نے اس کا جائزہ لیا اور پوری شرحِ صدر کے ساتھ اس قافلۂ راہِ حق میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے رواں برس10ستمبر کو مٹیاری میں منعقدہ ایک بڑے جلسے میں امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق کی موجودگی میں جماعت اسلامی میں اپنی شمولیت کا اعلان کیا۔
خواہش تھی کہ حضرت پیر غلام مجدد سرہندی کے آستانے پر جاکر ان کا ایک انٹرویو کیا جائے، لیکن ان کی حیدرآباد آمد پر جماعت اسلامی حیدرآباد کے امیر ضلع عقیل احمد خان صاحب نے ان سے وقت لے کر یہ سہولت اکیڈمی فار اسلامک ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ حیدرآباد میں مہیاکردی۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کا خاندان پیر و مرشد کا خاندان کہلاتا ہے اور آپ ایک خاص اسلوب میں دین کا کام کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی کیا وجہ ہوئی کہ آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے؟
پیر غلام مجدد سرہندی: میں نے شمولیت کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ میں اس کا نصابِ رکنیت بھی پڑھ رہا ہوں، اور اب جماعت اسلامی کے پرچم تلے حق کی عملی جدوجہد کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی وہ واحد عالم گیر دینی تحریک ہے جو تبدیلی و انقلاب کے لیے مسلسل جدوجہد کررہی ہے، جہاں فرقہ واریت، لسانیت اور اونچ نیچ نہیں ہے، اس میں ہر مسلک کے لوگ شامل ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیر و مشائخِ عظام اور علمائے کرام کو اس دینی تحریک میں شامل ہونا چاہیے تاکہ پاکستان کے قیام کے حقیقی مقصد کو شرمندۂ تعبیر کیا جاسکے۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ کی جماعت اسلامی پر نظر کس طرح پڑی، کس نے تعارف کرایا؟
پیر غلام مجدد سرہندی: جماعت اسلامی کوئی غیر معروف جماعت تو نہیں ہے، لیکن اکثر احباب سے تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ میں اس سے قبل مسلم لیگ فنکشنل میں تھا اور پیپلز پارٹی میں بھی کام کیا ہے، اس کی سندھ کونسل کا رکن تھا، جبکہ مجھے خود دعوت دینے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مٹیاری آئے تھے، ہم نے ان کا جلسہ کرایا تھا اور انتخابات میں پی ٹی آئی کی حمایت ہی نہیں کی بلکہ اسے ووٹ بھی دلوائے تھے، لیکن پی ٹی آئی کا اصل تو سب پر جلد ہی واضح ہوگیا ہے اور برسرِاقتدار رہنے والی جماعتوں نے قوم کو بہت مایوس کیا ہے۔ انہوں نے کرپشن کے ریکارڈ قائم کیے اور پاکستان کو معاشی طور پر بدحال کردیا ہے۔ میری نگاہ جناب سراج الحق پر پڑی جو دو مرتبہ کے پی کے میں سینئر وزیر خزانہ اور سینیٹر بھی رہے ہیں، ان کے کردار پر کوئی داغ نہیں ہے، خود عدالتِ عظمیٰ انہیں صادق و امین کہہ چکی ہے۔ اسی طرح کراچی کے ناظم نعمت اللہ خان مرحوم کو دیکھا، انہوں نے کراچی کو کراچی بنادیا اور ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے۔ میرے مریدوں کی بہت بڑی تعداد ضلع عمر کوٹ وتھر میں بھی رہتی ہے۔ تھر کے مفلوک الحال اور مسائل سے دوچار دیہی علاقوں میں جماعت اسلامی نے خدمتِ خلق کے بہت اچھے کام کیے ہیں۔ نعمت اللہ خان نے وہاں کنویں کھدوائے۔ انہوں نے بغیر کسی سیاسی غرض کے تھر کے بعض علاقوں میں اتنے کام کرائے ہیں جو کوئی حکومت بھی نہیں کرا سکی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ والوں کی جماعت ہے، اسے اقتدار میں آنا چاہیے تاکہ ملک کی حالت بدل سکے۔ اسی لیے میں جماعت اسلامی میں شامل ہوا ہوں کہ اس جماعت کے ساتھ مل کر عملی سیاسی جدوجہد کی جائے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ سمجھتے ہیں کہ پیری مریدی اور گدی نشینی میں آپ جماعت اسلامی کا کام آسان انداز میں کرسکتے ہیں؟
پیر غلام مجدد سرہندی: ہر کام میں آسانیاں زیادہ نہیں ہوتی ہیں۔ ہمارے آبا و اجداد نے گدی نشینی کی، اور سیاسی جدوجہد میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے سلسلۂ نقشبندیہ کے بانی حضرت مجدد الف ثانیؒ نے وقت کے حکمرانوں کی اذیتیں برداشت کیں، انہوں نے ہی دو قومی نظریہ پیش کیا تھا، علامہ اقبال ؒ نے انہی کے افکار کو آگے بڑھایا۔ آپ دیکھیں برصغیر میں صوفیائے کرام مرجع خلائق بنے ہیں، انہوں نے دین کے پیغام کو عام کیا، لوگوں میں تقویٰ پیدا کیا اور اپنے لنگر خانوں سے لوگوں کی بھوک مٹائی۔ آپ دیکھیں گے کہ کسی پیر، ولی اللہ اور مرشد نے لوگوں کو اپنی طرف نہیں بلکہ قرآن وسنت کی طرف بلایا ہے۔ ہمارے خاندان کی بزرگ خاتون بی بی امت اللہ ایک بڑی روحانی شخصیت تھیں، مٹیاری میں ان کا مزار ’درگاہ والی بی بی‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح میرے دادا کی زندگی اس کا ایک واضح نمونہ ہے جنہوں نے تحریک ِ خلافت اورقیام ِ پاکستان کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جیل سے رہائی کے بعد سرکار نے انہیں حیدرآباد کی عامل کالونی میں ایک ہزار گز کا مکان دیا تھا۔ واپس مٹیاری رہنے کو آئے تو انہوں نے اس مکان پر قبضہ نہیں کیا بلکہ اُس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان کو واپس کردیا۔ وہ حق گو اور ایمان دار آدمی تھے جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ سورھیہ بادشاہ شہید کو جب سزائے موت ہوئی تو کہتے ہیں کہ سینٹرل جیل حیدرآباد میں انہوں نے ہی ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ وہ اُس وقت وہیں قید تھے۔ پھر انگریزوں نے پیر صبغت اللہ راشدی المعروف سورھیہ بادشاہ کی نعش غائب کرکے نامعلوم مقام پر دفن کردی۔ میرے دادا بھی سورھیہ بادشاہ کی انگریزوں کے خلاف جہادی تحریک ’وطن یا کفن‘ کے نعرے کے ساتھ منسلک اور ادنیٰ مجاہد تھے۔ ہمارے بڑوں نے انگریزوں کو سندھ سے نکالنے کی بے مثال جدوجہد کی ہے، قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں اب انگریز کے نظام کو ملک سے بے دخل کرنا ہے۔ پاکستان اس لیے نہیں بنا تھا کہ یہاں عالمی مالیاتی اداروں اور برطانیہ کے چھوڑے ہوئے نظام کی حکمرانی ہو۔ اب اگر پاکستان کو بچانا اور مضبوط بنانا ہے تو تمام ہی مسلکوں اور علما و مشائخ کو میدانِ عمل میں متحد ہوکر آنا ہوگا۔ ہم نے پاکستان بنایا تھا تو تحریکِ پاکستان کا قائد کوئی عالم نہیں تھا۔ میں تو قائداعظم ؒ کے مسلک کو بھی نہیں جانتا، لیکن ہر ایک کو معلوم تھا کہ یہ مخلص آدمی ہے اور اسلام کے لیے ہی پاکستان قائم کرنا چاہتا ہے، تو قوم ہر طرح کے امتیازات کو بھلا کر اُن کی قیادت پر متفق ہوگئی۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم ایک سچے، صادق و امین محترم سراج الحق کی قیادت میں متحد ہوجائے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ موجودہ منتشر عوام اور ملک میں جاری نظام اس طرح کی سوچ اور تحریک کو کامیاب ہونے دے گا جس کی توقع آپ کررہے ہیں؟
پیر غلام مجدد سرہندی: مشکلات تو ہیں لیکن کچھ تلخ حقائق بھی ہیں۔ ہمیں قوم بننے نہیں دیا گیا۔ ادارے اپنا کردار ادا نہیں کررہے ہیں، بلکہ یہ کہیے کہ وہ رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ ہر ادارہ اپنے دائرے میں کام کرے اور سیاست دانوں اور قوم کے مخلص رہنماؤں اور جماعتوں کے راستے میں روڑے نہ اٹکائے، عوام کے ہجوم کو قوم بننے دیا جائے۔ پاکستانی قوم بہادر اور باصلاحیت ہے۔ ریاست کے کسی ادارے کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ پارٹیاں بنائے اور انہیں اقتدار میں لانے اور نکالنے کا فریضہ انجام دے۔ اصلاحِ عوام اور اصلاحِ ملک کے لیے راستہ دیا جائے، اِن شاء اللہ جلد ہی نظامِ مصطفیؐ کے نفاذ میں ہم کامیاب ہوں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: کن بنیادوں اور نکات پر قوم کو متحدکریں گے، کچھ ذہن میں ہے؟
پیر غلام مجدد سرہندی: دیکھیں، جماعت اسلامی کا خدمتِ خلق کا ایک ملک گیر اور بڑا نیٹ ورک ’الخدمت‘ کے نام سے ہے، جو بلاامتیاز خدمت کرتا ہے۔ اسے عوامی نیٹ ورک بنایا جائے اور صرف خدمت ہی نہیں، لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا جائے، ان کے ایشوز یا مسائل پر بروقت اور بھرپور آواز اٹھائی جائے۔ جس طرح ابھی گوادر میں جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمٰن نے تاریخی و پُرامن دھرنا دے کر اپنی بات منوائی ہے، جس طرح کراچی میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن ’’حق دو کراچی کو‘‘ تحریک چلا رہے ہیں، یا حیدرآباد میں آواز اٹھائی جارہی ہے، ہم ہر سطح پر اہم اور سلگتے ہوئے مسائل کو حل کرانے کے لیے مؤثر آواز اٹھائیں۔ سندھ کے جو حقیقی مسائل ہیں ان پر آواز اٹھائیں اور آگے آئیں۔ بلدیاتی انتخابات میں اچھی حکمت عملی سے حصہ لیں اور عام انتخابات تک ایک پوری تحریک کھڑی کردی جائے۔ ملک میں تبدیلی کا حقیقی راستہ انتخابات ہیں۔ نظام مصطفیٰ ؐ کے نفاذ کے لیے ہم نے اس راستے کو اپنایا ہے۔ قوم کو بتایا جائے کہ اس کی بھلائی و کامیابی مغربی جمہوریت میں نہیں بلکہ نظام مصطفی ؐ میں ہے۔ یہی نظام کرپشن، بے روز گاری اور مہنگائی کا خاتمہ کرے گا۔ ہم میرٹ کو بنیاد بنائیں گے اور کسی کا حق نہیں مارا جائے گا۔
فرائیڈے اسپیشل :کیا سندھ میں آئندہ ہو نے والے بلدیاتی انتخابات میں کوئی تبدیلی دیکھ رہے ہیں ؟
پیر غلام مجدد سرہندی: مجھے سندھ سے بہت اچھی توقعات ہیں۔ دراصل سندھ کے نوجوانوں کو اُن کے اسلاف کی تعلیمات و قربانیوں سے دور رکھا گیا ہے۔ اب انہیں اپنے اصل کی طرف آنا چاہیے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ مثبت و تعمیری کام ہوں تو ایسی قوتوں کا ساتھ دیں۔ لیکن جہاں تک حکومت کا تعلق ہے وہ سندھ میں موجودہ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ان کا حق نہیں دینا چاہتی۔ ابھی جو بلدیاتی نظام گزرا ہے اُس سے عوام کے کون سے مسائل حل ہوگئے؟ ہر شہر، دیہات و گوٹھ میں فراہمی و نکاسیِ آب، صحت و صفائی کے مسائل ہیں۔ ناظمین کے نظام سے عوام کو بہت کچھ ملا تھا لیکن موجودہ حکمراں تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ دیہی و شہری وڈیرے نہیں چاہتے کہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر ہی حل ہوں۔ میرا خیال ہے کہ کچھ ترامیم و اضافوں کے ساتھ ناظمین طرز کا بلدیاتی نظام ہی عوام کی بھلائی میں ہے۔ بے اختیار بلدیاتی نظام کچھ نہیں دے سکے گا، اس لیے نظام کی اصلاح کے لیے آواز اٹھائی جائے اور عوام سے رابطے کی مہم کو تیزتر کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کے نمائندوں کو جہاں بھی اختیار ملے گا وہ ماضی کی طرح شاندار کارکردگی دکھائیں گے۔