امریکہ، روس اور چین ایک عرصے سے ایک دوسرے کے اعصاب بلکہ گردنوں پر سوار ہیں
ادھر کچھ عرصے سے بڑی طاقتوں کے مابین ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک ان بیٹھکوں کی نوعیت رسمی اور بظاہر خیرسگالی کا اظہار نظر آرہی ہے، لیکن سیاسیات کے علما، عالمی صف بندی میں تجدید کے ایک نئے رجحان کا امکان ظاہر کررہے ہیں۔
15 نومبر کو امریکی صدر جوبائیڈن اور چینی صدر ژی جی پنگ کے مابین سمعی و بصری رابطے پر مجازی یا virtual ملاقات ہوئی۔ بات چیت کے بارے میں قصر مرمریں (وہائٹ ہائوس) نے بتایا کہ دونوں رہنمائوں نے اُن تمام امور پر گفتگو کی جن میں ان ملکوں کے مفادات مشترک ہیں، اور اسی کے ساتھ ان معاملات پر بھی کھل کر بات کی گئی جہاں ہمارے مفادات، اقدار اور نقطہ نظر مختلف یا متوازی ہیں۔ صحافتی حلقوں کے مطابق اویغور مسلمانوں کی نسل کُشی کے حوالے سے صدر بائیڈن کے سخت رویّے پر دونوں رہنمائوں کے درمیان تیزوتند جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
اس ضمن میں آزاد بین الاقوامی ٹریبونل کا حالیہ فیصلہ قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔ اس آزاد ٹریبونل کو کسی حکومت کی مدد یا سرپرستی حاصل نہیں، اور اسے ستمبر 2020ء میں NGO Coalition for Genocide Response نے قائم کیا تھا۔ آزاد ٹریبونل کی تشکیل اس لیے ضروری سمجھی گئی کہ عالمی عدالت یا ICCنے یہ کہہ کر اس معاملے کی تحقیق سے انکار کردیا تھا کہ چین ICC کا رکن نہیں۔
تحقیقات کے دوران اویغور متاثرین سمیت 30 گواہ پیش ہوئے جن میں عالمی شہرت یافتہ وکلا اور دانشور شامل ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے بیانات کے حق میں ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کیے۔ ٹریبونل نے چینی حکومت کو سنکیانگ کے اویغور مسلمانوں اور دوسری لسانی اقلیتوں کی نسل کُشی، بہیمانہ تشدد اور بدسلوکی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ ٹریبونل کے سربراہ سر جیفری نائس نے 9 دسمبر کو لندن میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ چینی حکومت اویغوروں کی آبادی کم کرنے کے لیے جبری بانجھ پن کے گھنائونے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ سر نائس کا کہنا تھا کہ استغاثہ کی جانب سے موصول ہونے والے تمام شواہد مستند اور ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ظلم و ستم کی یہ کارروائی وفاقی حکومت کی ایما اور حکم پر ہورہی ہے۔ چینی حکومت نے ان تحقیقات میں تعاون سے انکار کرتے ہوئے سر نائس سمیت ٹریبونل کے ارکان پر سفری پابندیاں عائد کردی ہیں۔ چینی حکومت کا کہنا ہے کہ ٹریبونل چین کے خلاف سفید جھوٹ کا پرچار کررہا ہے۔
ٹریبونل کے فیصلے کی مختصر روداد کے بعد ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ اویغور مسلمانوں کی حالتِ زار کے علاوہ صدر بائیڈن اور ان کے چینی ہم منصب نے باہمی تجارت کے امور، تائیوان، ہانگ کانگ، شمالی کوریا کے جوہری پروگرام، مشرق وسطیٰ اور افغانستان کے معاملے پر گفتگو کی اور اکثر معاملات پر We agree to disagree کہہ کر، بات چیت جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ دوسرے موضوع پر تبادلہ خیال شروع ہوگیا۔
چینی صدر سے دو دو ہاتھ کے تین ہفتے بعد صدر بائیڈن نے 7 دسمبر کو اپنے روسی ہم منصب سے آن لائن ملاقات کی جسے واشنگٹن کے سفارتی حلقے ”؎دھواں دھار“ گفتگو قرار دے رہے ہیں۔ دو گھنٹے جاری رہنے والی ملاقات کا ایک نکاتی ایجنڈا یوکرین تھا۔ صدربائیڈن نے روسی صدر کو ڈرایا کہ اگر یوکرین پر حملہ کیا تو بہت برا ہوگا۔ پیوٹن صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں لیکن اگر نیٹو نے رکنیت کا دائرہ یوکرین تک بڑھایا تو آپ کی بھی خیر نہیں۔ آپ نیٹو کو ہماری سرحدوں سے دور رکھیے، ہم یوکرین سے دور رہیں گے۔
یہ تو تھا ذکر ”دشمنوں“ سے گفت و شنید کا۔ اسی دوران چچا سام نے اپنے حلیفوں، دوستوں اور نیازمندوں کو بھی شرفِ ملاقات بخشا۔ 9 اور 10 دسمبر کو چوٹی کانفرنس برائے جمہوریت منعقد ہوئی جس کی تفصیل ہم اس سے پہلے بیان کرچکے ہیں۔ اس کانفرنس کی دعوت نہ ملنے پر سوڈان کے وزیراعظم عبداللہ حمدوک، مصر کے جنرل السیسی، بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد اور تیونس کے صدر قیس سعید مغموم بلکہ ناراض ہیں۔
امریکہ کے سخت رویّے اور جمہوریت کانفرنس کے نام پر حلیفوں کی طلبی کے جواب میں روس اور چین میں بھی تزویراتی (Strategic) نوعیت کی بات چیت شروع ہوئی اور 15 دسمبر کو روس اور چین کے سربراہوں نے بائیڈن کی جمہوریت کانفرنس کی طرح سمعی اور بصری رابطے پر مجازی سربراہ کانفرنس کا اہتمام کیا۔
اس گفتگو کا سب سے اہم نکتہ یوکرین تھا جہاں متوقع اور مبینہ مداخلت پر یورپ اور روس کے درمیان دھمکیوں کا تبادلہ جاری ہے۔ یوکرین نے سوویت یونین کے قیام اور تحلیل دونوں میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ دسمبر 1991ء میں یوکرین سوویت ری پبلک، بلارس سوویت ری پبلک اور رشین سوویت ری پبلک کا اجلاس صدر بورس یلسن کی صدارت میں ہوا جس میں سوویت یونین کی بطور ریاست تحلیل کا رسمی اعلان کیا گیا تھا۔
آزادی کے وقت سے ہی روس اور یوکرین کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یوکرین کا بحر اسود سے جڑا جزیرہ نمائے کریمیا ہے۔ دس ہزار مربع میل رقبے پر مشتمل یہ جزیرہ نما، بحر اسود اور بحر ازاق سے گھرا ہوا ہے اور تین میل لمبی ایک تنگ سی خشک پٹی اسے یوکرین سے ملاتی ہے۔ ابتدا میں کریمیا عثمانی سلطنت کا حصہ تھا۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد اسے یوکرین میں ضم کردیا گیا۔ یہ خطہ کریمیائی تاتار اور ترک نژاد تاتاروں کا مسکن ہے۔ تاتار، منگولوں کے اس لشکر کا ہراول دستہ تھے جنھوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ لیکن بغداد کے مرکزی کتب خانے، جدید ترین اسپتالوں، لائبریریوں اور دمشق کے عالی شان مدرسوں کو نذرِ آتش کرنے والے یہ وحشی بہت دنوں تک اسلام دشمنی پر قائم نہ رہ سکے اور خود غارت گرِ اعظم ہلاکو کا بیٹا مسلمان ہوگیا، اور بعدمیں یہی تاتاری عظیم الشان عثمانی سلطنت کے معمار ثابت ہوئے۔ ”جوانانِ تتاری کس قدر صاحب ِنظر نکلے“(اقبال)۔
دہائیوں بلکہ ایک صدی سے زیادہ طویل روس تاتار کشکمش اُس وقت عروج پر پہنچی جب مارچ 2014ء میں روسی فوج نے کریمیا پر قبضہ کرلیا اور لاکھوں تاتاروں کو قازقستان کی طرف ہانک دیا گیا۔ یورپ کو تاتاروں سے تو بہت زیادہ دلچسپی نہیں لیکن کریمیا پر قبضے کے بعد بحر اسود پر روسی بحریہ کی گرفت خاصی مضبوط ہوگئی ہے۔ یورپ کو یہ بھی ڈر ہے کہ انگلی پکڑتے پکڑتے اگر روسیوں نے پورا ہاتھ پکڑلیا تو کریملن کی مشرقی سرحدیں پولینڈ، سلاواکیہ، ہنگری اور رومانیہ سے جا ملیں گی۔ اس موضوع پر ہمارے مضمون ”کریمیا کے بعد مشرقی یوکرین… مسلمان تاتاروں کا تعاقب“ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 مئی 2014ء میں مزید تفصیلات موجود ہیں۔
صدر پیوٹن نے یوکرین کا ذکر کرتے ہوئے اس حوالے سے مغربی یورپ، نیٹو اور امریکہ کے تمام تحفظات کو ”روس فوبیا“ کا شاخسانہ قرار دیا۔ روسی رہنما کا کہنا تھا کہ مغربی یورپ اپنی جارحیت پر پردہ ڈالنے کے لیے کریملن پر جھوٹے الزامات لگا رہا ہے۔ صدر پیوٹن نے کہا کہ روس یوکرین سمیت اپنے کسی پڑوسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا، لیکن یورپ کے جنگجو یوکرین کو نیٹو کی رکنیت دے کر اُسے روس سے لڑانا چاہتے ہیں۔ صدر ژی پنگ نے یوکرین کے معاملے پر روسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا پر جبر اور مرضی مسلط کرنے والے اپنے مقاصد کے لیے چھوٹے ملکوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چین روس اور یوکرین دونوں کی دوستی پر فخر کرتا ہے۔
چین اور روس کی اس چوٹی ملاقات سے تین دن پہلے لیورپول، برطانیہ میں G-7 کی وزرائے خارجہ کانفرنس ہوئی۔ جی 7 دنیا کی سات بڑی معیشتوں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جاپان، کینیڈا، اٹلی اور جرمنی پر مشتمل ہے۔ ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیے میں روس کو متنبہ کیا گیا کہ وہ یوکرین کے خلاف مہم جوئی سے باز رہے۔ کریملن نے اس دھمکی کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ جی 7 اپنے کام سے کام رکھے۔ روس اور یوکرین رابطے میں ہیں اور تنازعات کے حل کے لیے ہمیں مفت مشوروں کی ضرورت نہیں۔
امریکہ، روس اور چین ایک عرصے سے ایک دوسرے کے اعصاب بلکہ گردنوں پر سوار ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوران عالمی صف بندی میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔ آج کی نشست میں ہم الفت کی ان نئی پیش بندیوں کا ذکر اپنے ”محلّے“ یعنی برصغیر تک محدود رکھیں گے۔
پاکستان اور ہندوستان کے باہمی تعلقات آزادی کے پہلے روز سے صرف کشیدہ ہی نہیں بلکہ یہ دونوں ملک عملاً حالتِ جنگ میں ہیں۔ چنانچہ بڑی طاقتوں سے تعلقات استوار کرتے وقت یہ دونوں ان ممکنات کا جائزہ بھی لیتے ہیں کہ اگر کسی وقت کشیدگی خونریز جنگ میں تبدیل ہوگئی تو یہ ”طاقتور دوست“ پڑوسی کی گوشمالی یا اُس کے ”شر“ سے محفوظ رکھنے میں کیا مدد فراہم کرسکتے ہیں۔
اس تناظر میں اگر ہم پاکستان اور ہندوستان کے امریکہ، روس اور چین سے تعلقات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آزادی کے فوراً بعد ہی پاکستان امریکہ کا ”جگری دوست“ بن گیا۔ اس سیاسی، سفارتی اور سماجی قربت نے پاکستان کو عسکری معاہدوں SEATO اور معاہدئہ بغداد المعروف CENTO سے وابستہ کردیا۔ دوسری طرف ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے روس سے ”نظریاتی“ ہم آہنگی برقرار رکھتے ہوئے غیر وابستگی کی راہ اپنائی۔ گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں غیر جانب دار تحریک یا NAM ایک مضبوط قوت بن کر ابھری اور 120ملکوں نے ”نام“ کی رکنیت اختیار کرلی۔ بھارت کے نہرو، اندونیشیا کے صدر سوئیکارنو، مصر کے جمال عبدالناصر اور یوگوسلاواکیہ کے مارشل ٹیٹو ”نام“ کے روحِ رواں تھے۔ سیٹو، سینٹو کی رکنیت اختیار کرکے پاکستان نے روس سے دشمنی مول لے لی۔ چین کے تعلقات چونکہ بھارت سے کشیدہ تھے اس لیے امریکہ سے عہد و پیمان کے باوجود ”دشمن کا دشمن دوست“ کے اصول پر چین اور پاکستان کے باہمی تعلقات میں کوئی فرق نہ آیا۔
سیٹو، سینٹو معاہدوں کا پہلا امتحان 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ہوا جب اسلام آباد کی توقع کے برخلاف امریکہ نے جنگ میں پاکستان کی مدد نہ کی، جبکہ بھارت مخالفت میں چین نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔ امریکہ کی ”بے وفائی“ پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے 1968ء میں پاکستان نے امریکہ سے پشاور کے مضافاتی علاقے بڈھ بیر میں قائم فوجی اڈہ خالی کرالیا۔ تین سال بعد 1971ء کی جنگ ہوئی۔ اِس بار پاکستان کی مدد کے لیے چھٹے امریکی بحری بیڑے کی آمد کا شور ہوا لیکن معاملہ مشغلہِ زبان سے آگے نہ بڑھا۔ اس تمام عرصے میں ہندوستان نے ”نام“ کے ساتھ روس اور اُس کے مشرقی یورپی حلیفوں سے قریبی تعلقات بحال رکھے۔
مشرقی بازو کی علیحدگی کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں سردمہری پیدا ہوگئی۔ جب1977ء میں SEATO اور اس کے دوسال بعد CENTO معاہدے تحلیل ہوگئے تو امریکہ سے رہی سہی عسکری وابستگی بھی ختم ہوگئی، لیکن اسی دوران روس افغانستان پر چڑھ دوڑا اور 1981ء میں صدر رونالڈ ریگن کے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان نے کمیونزم کے خلاف دفاعی لائن کا علَم اٹھالیا۔ دوسری طرف ہندوستان نے افغانستان پر روس کے حملے کی حمایت تو نہیں کی لیکن بھرپور مخالفت سے نہ صرف پرہیز کیا بلکہ امریکہ کی قیادت میں ہونے والے1980ء کے ماسکو اولمپک بائیکاٹ میں بھی شریک نہ ہوا، جبکہ افغانستان تنازعے نے روس پاکستان کشیدگی کو مزید بڑھا دیا۔
افغانستان سے روس کی پسپائی پر حسبِ روایت و توقع امریکہ ایک بار پھر پاکستان سے بیگانہ ہوگیا اور جوہری ہتھیاروں کے معاملے پر پاکستان کو امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نائن الیون سانحے کے بعد پاکستان کی عسکری قیادت نے دامے، درمے، قدمے، سخنے افغانستان پر امریکی حملے کی حمایت کی۔ تاہم امریکہ کے تحقیر آمیز رویّے سے یہ بات بہت واضح ہوگئی کہ دوستی دھمکی و جبر کا نتیجہ تھی۔ صدر بائیڈن نے جو اُس وقت ملک کے نائب صدر تھے، ببانگِ دہل پاکستان کو دوغلا اور ناقابلِ اعتماد اتحادی قراردیا۔
مختصر یہ کہ امریکہ اور پاکستان کبھی ایک دوسرے کے دوست نہیں رہے۔
ان ممالک کے تعلقات ہندوپاک کی اُن شادیوں کی طرح ہیں جہاں دونوں فریق ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہیں مگر بچوں کے مستقبل اور خاندان کی عزت کے لیے بادلِ ناخواستہ نباہ کیا جاتا ہے۔ ہلیری کلنٹن صاحبہ کے دورئہ اسلام آباد میں ایک پاکستانی خاتون نے پاک امریکہ تعلقات کو ساس بہو کے روایتی رشتے سے تشبیہ دی تھی جہاں نٹ کھٹ ساس کسی طور اپنی بہو سے راضی نہیں۔ گزشتہ 74 سال کے دوران بڑی طاقتوں سے اسلام آباد کے جس نوعیت کے تعلقات رہے ہیں اس پس منظر میں روس، چین بمقابلہ امریکہ نئی عالمی صف بندی میں پاکستان کا کوئی کلیدی کردار نظر نہیں آتا۔ اپنے محلِ وقوع اور علاقے کی ایک مضبوط جوہری قوت کی حیثیت سے پاکستان ایک اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن خارجہ پالیسی کے باب میں اسلام آباد کا سیاسی عزم غیر واضح ہے۔
اب اگر اسی پہلو کا دِلّی میں بیٹھ کر نظارہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ ہندوستانی قیادت نے اب تک اپنے پتُے بہت مہارت سے کھیلے ہیں۔ ہندوستان اپنی ضرورت کا ستُر فیصد اسلحہ روس سے خریدتا ہے۔ دوسری طرف اس وقت ہندوستان کا سب سے مضبوط مخالف چین ہے۔ چین کے گھیرائو کے لیے امریکہ نے اتحاد اربعہ یا QUAD کے نام سے جو عسکری اتحاد تشکیل دیا ہے ہندوستان نہ صرف اس کا سرگرم رکن ہے بلکہ بحر جنوبی چین کی نگرانی کے لیے آبنائے ملاکا کے بحرہند کی طرف کھلنے والے دہانے کی نگرانی بھی ہندنائو سینا (بحریہ) کے ذمے ہے۔
کیا امریکہ مخالف اتحاد مؤثر بنانے کے لیے چین روس کو ہندوستان سے اپنے تعلقات پر نظرثانی کو کہے گا؟ تو اس کا جواب پیوٹن مودی حالیہ ملاقات میں مل چکا ہے جب روسی صدر نے صاف صاف کہہ دیا کہ روس بھارت اور روس چین دوستی ایک دوسرے پر اثرانداز نہیں ہوگی۔ بھارت چین تنازعات میں روس اپنی غیر جانب دار حیثیت برقرار رکھتے ہوئے بھارت کو ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھے گا۔ پچھلے کچھ سالوں میں روس پاکستان تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے جس پر بظاہر دلی کو کوئی اعتراض نہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ روسی اسلحہ کی خریداری کے باوجود بھارت کے تزویراتی مراسم امریکہ کے ساتھ ہیں اور بحرالکاہل یا جنوب ایشیا میں امریکہ اور روس کے مابین مفادات کا براہِ راست کوئی ٹکرائو نہیں۔ اس تناظر میں کریملن دہلی گرمجوشی امریکہ کے حق میں ہے، کہ اس طرح مخالف فریق سے بالواسطہ بات چیت کا راستہ کھلا رہے گا۔
…………..
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔