افغانستان کا انسانی المیہ: اسلامی وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس

ـ56رکنی او آئی سی کے 22وزرائے خارجہ کی شرکت

اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی 17 ویں غیر معمولی کانفرنس اسلام آباد میں ہوئی۔ خلیجی تعاون کونسل کے سیکرٹری جنرل نائف الہجراف سمیت پاکستان کی دعوت پر 20 ممالک کے وزرائے خارجہ، دس نائب وزرائے خارجہ سمیت 70 وفود اس تاریخی اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس میں ترکی، ایران، سیرالیون، گیبون، صومالیہ، گینیابسا، ترکش ری پبلکن آف نارتھ قبرص، یو اے ای، تاجکستان، اردن اور فلسطین کے وزرائے خارجہ اور سیکرٹری جنرل او آئی سی شریک ہوئے۔ افغانستان کے نگران وزیر خارجہ امیر خان متقی ایک وفد کے ہمراہ اسلام آباد پہنچے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ ہاؤس میں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں مندوب وزرائے خارجہ اور دیگر مہمان وفود کا خیر مقدم کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اجلاس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کیا۔ اگلے سال مارچ 2022ء میں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا48 واں اجلاس اسلام آباد میں

ہوگا اور ایک بار پھر پاکستان کو میزبانی ملے گی۔
اس کانفرنس کے انعقاد کا بنیادی مقصد افغانستان کی موجودہ صورت حال کی جانب بین الاقوامی برادری کی توجہ مبذول کرانا ہے، تاکہ طویل جنگ اور خانہ جنگی سے متاثرہ ملک میں انسانی بحران کو روکا جاسکے۔ عالمی برادری کا افغان عوام کے لیے سوچنا وقت کی ضرورت ہے، کیونکہ افغانستان کا معاشی انہدام سب کے لیے یکساں مضمرات کا باعث ہوگا۔ افغانستان چار عشروں سے زائد عرصے سے جنگ و جدل، دہشت گردی، معاشی بدحالی، بھوک اور افلاس سے دوچار ہے، پہلے روس اور اُس کے بعد امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے تقریباً چار کروڑ آبادی کے اِس غریب ملک کو تاراج کیا۔ امریکہ کھربوں ڈالر اور جنگی مشینری استعمال کرنے کے باوجود یہاں اپنی مرضی کے نتائج نہ لے سکا۔ مالی وسائل سے محروم اور طویل جنگ سے تباہ حال افغانستان اس وقت بہت بڑے انسانی المیے کے خطرے سے دوچار ہے۔ ان حالات میں پاکستان آگے آیا اور افغان عوام کی مدد کے لیے پوری دنیا میں مہم چلائی۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا غیرمعمولی اجلاس اسی سلسلے کی کڑی تھا جو تفصیلی اعلامیہ جاری کرنے کے ساتھ ختم ہوا۔ اعلامیے میں افغانستان کو بدحالی اور تباہی سے بچانے کے لیے متعدد اقدامات کی منظوری دی گئی ہے، ان میں سب سے اہم خوراک اور نقد امداد کی فراہمی کے لیے فوڈ سیکورٹی پروگرام اور ہیومنٹیرین ٹرسٹ فنڈ قائم کرنے پر اتفاقِ رائے ہے، ایک خصوصی نمائندہ بھی مقرر کردیا گیا ہے جو اجلاس کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی نگرانی کرے گا۔ اجلاس میں منظور کی جانے والی قراردادوں میں کہا گیا کہ غربت سے نمٹنے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور اپنے شہریوں کو ضروری خدمات خاص طور پر صاف پانی، معیاری تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی میں افغانستان کی مدد کرنا ہوگی۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ افغانستا ن کی 60فیصد آبادی کو بھوک کے بحران کا سامنا ہے جو روز بروز بڑھ رہا ہے۔ کانفرنس میں جن امور پر اتفاق کیا گیا اُن پر عمل درآمد سے افغان عوام کو بہت بڑا ریلیف ملے گا۔ اجلاس میں منظور کی جانے والی قراردادوں میں زندگی کے تمام شعبوں میں افغان خواتین کی شرکت، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق، توانائی، ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی شعبوں میں منصوبوں پر عمل درآمد پر زور دیا گیا اور افغان قیادت کا مؤقف بھی سنا گیا۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بتایا کہ افغانستان میں امن اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ ہمارے ساتھ اور مددگار ہیں، کسی اورکو بھی دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
افغانستان کی ترقی اور وہاں امن کے لیے اس خطے کے ممالک کا کردار بہت اہم ہے، اسی لیے بھارت کے منفی عزائم کو ناکام بنانا بھی بہت ضروری ہے، اُس نے امن کی کوشش سبوتاژ کرنے کے لیے دہلی میں کانفرنس بلائی اوروسط ایشیا کے چھ ملکوں نے اسلام آباد میں ہونے والی او آئی سی کانفرنس کے عین اسی لمحے ہمارے مشرقی ہمسائے میں ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ کانفرنس بھی افغانستان کے لیے ہوئی۔ اسلام آباد کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ افغانستان میں بھارت کے منفی عمل دخل کو کیسے روکا جائے؟ وسط ایشیا کے چھ ممالک کا وہاں جانا بھی ایک سوال ہے۔ او آئی سی کو ضرور اس پر غور کرنا چاہیے۔ اجلاس کا دوسرا کمزور پہلو یہ بھی ہے کہ 56 رکنی او آئی سی کے صرف 22 وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ یہ تعداد نصف سے بھی کم ہے۔ اوآئی سی اسلام آباد اجلاس کیا افغانستان کو امکانی تباہی سے بچا سکے گا؟ کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان کو ممکنہ تباہی سے بچانے کے لیے او آئی سی کی جانب سے اچھی تجاویز آئی ہیں، ان تجاویز پر عمل ہوجائے تو افغانستان یقینی طور پر مسائل کی دلدل سے نکل آئے گا۔ تمام تر خدشات کے باوجود چالیس سال تک جنگ کے شعلوں میں جھلسنے والے برادر مسلم ملک افغانستان کو درپیش سنگین انسانی مسائل اور معاشی مشکلات کے حوالے سے دنیا کے 57ملکوں پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کا انعقاد ایک احسن اقدام ہے۔ امید ہے کہ سعودی عرب کی تجویز پر اور پاکستان کی میزبانی میں اسلام آباد میں ہونے والے اس اجلاس میں افغانستان کو موجودہ بحرانی صورت حال سے نکالنے کے لیے جو ٹھوس عملی اقدامات طے کیے گئے وہ جلد از جلد روبہ عمل لائے جائیں گے۔ اسی لیے شاید اقوام متحدہ، عالمی مالیاتی اداروں، نیز امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، روس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور یورپی یونین کے نمائندوں سمیت متعدد غیر رکن ممالک کو بھی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تاکہ اس کی ہمہ گیری اور وسعت بڑھ جائے۔ اس موقع پر تنظیم کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ نے اپنے ایک خصوصی پیغام میں کہاکہ او آئی سی کا اہم رکن ہونے کے ناتے افغانستان تنظیم کے رکن ممالک کی طرف سے مکمل حمایت اور یکجہتی کا پوری طرح حق دار ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی بات اس لیے نہیں کی کہ یہ مرحلہ ابھی بہت دور ہے، عالمی سطح پر ابھی انہیں تسلیم کرنے کی بات ہو ہی نہیںرہی، عالمی برادری چاہتی ہے کہ طالبان حکومت اقلیتوں اورخواتین کے حقوق کی پاس داری کرے اور عمل سے یقین دلائے۔ یہ ایک عجیب منطق ہے۔ امریکہ نے انہی طالبان سے انخلا کا معاہدہ کیا جو ابھی حکومت میں بھی نہیں آئے تھے، مگر اب امریکہ اماراتِ اسلامی افغانستان کی حیثیت سے تحریک طالبان سے معاہدہ کرکے عملاً افغانستان میں حکومت سازی کو اس کا حق تسلیم کرچکا ہے، اور طالبان بھی خواتین اور اقلیتوں سے متعلق عالمی برادری کے تحفظات دور کرنے پر آمادہ ہیں تو پھر ان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں کون سی رکاوٹ ہے؟ تجزیہ یہی ہے کہ افغان حکومت کو ابھی بہت سے امتحانوں سے گزرنا ہوگا۔ ابھی افغانستان کے کھنڈرات اور وہاں بسنے والوں کے لیے دستِ سوال اور کشکول کی بات طویل سفر کی متقاضی ہے۔ فی الحال طالبان حکومت تسلیم کیے جانے اور افغان معیشت کی مکمل بحالی کا امکان نہیں ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی 17 ویں غیر معمولی کانفرنس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوئی جس میں افغانستان کی صورت حال پر غور کیا گیا۔ وزرائے خارجہ کانفرنس سے وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، او آئی سی کے سیکرٹری جنرل، سعودی وزیر خارجہ اور دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ نے خطاب کیا۔ اسلامی ترقیاتی بینک کے سربراہ سمیت 70 دیگر وفود شریک ہوئے اور افغان بحران کا حل تلاش کرنے پر اتفاق ہوا۔ کانفرنس میں اقوام متحدہ کی مختلف تنظیموں، بین الاقوامی مالیاتی اداروں، پی فائیو، یورپی یونین اور دیگر اداروں کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ او آئی سی ممالک کی وزرائے خارجہ کانفرنس افغانستان کے 3.8 کروڑ لوگوں… جن میں ایک شدید انسانی بحران میں مبتلا بوڑھے، بچے، خواتین شامل ہیں… کے لیے ایک امید خیال کی جارہی تھی، مگر کانفرنس میں طالبان حکومت کو تسلیم کیے بغیر وہاں کے عوام کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر خوراک اور ادویہ کی فراہمی کا طے شدہ ہدف حاصل کرلیا گیا، سعودی عرب کی جانب سی ایک بلین ریال کی امداد اسلامی ترقیاتی بینک میں جمع کرائی جائے گی، جس کے لیے ایک الگ کھاتہ کھولا جائے گا، اور یہ کھاتہ ایک نگران آفیسر کی نگرانی میں ہی چلایا جائے گا۔ انسانی بنیادوں پر افغانوں کی امداد ایک اچھی پیش رفت ہے، تاہم یہ کانفرنس امریکہ سے افغان حکومت کے منجمد اثاثے بحال کرانے کا فیصلہ نہیں لے سکی۔ بلاشبہ غریب افغان شہری شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں اور قحط سالی کا سامنا کررہے ہیں۔ جو امیر گھرانے تھے انہیں کوئی فکر نہیں، ان میں سے بیشتر ملک چھوڑ کر یورپ یا خلیجی ممالک جا چکے ہیں۔ اس وقت افغانستان کے تقریباً دو کروڑ 30 لاکھ شہری ہیں جنہیں شدید بھوک اور غربت کا سامنا ہے۔ یہ آبادی کُل آبادی کا 55 فی صد ہے۔ اقوام متحدہ کی اپنی رپورٹ کے مطابق 90 لاکھ لوگ قحط کا شکار ہوسکتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ وہاں بے روزگاری اور بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور بڑی تعداد میں افغان بے گھر ہورہے ہیں، مگر کانفرنس مستقل حل تلاش کرنے کے بجائے امداد کی’’ گولی‘‘ دے کر ختم ہوگئی، اور جب یہ امداد ختم ہوجائے گی تو پھر کیا ایک اور کانفرنس بلانا ہوگی؟ نہ جانے یہ کانفرنس امریکہ سے افغان حکومت کے منجمد اثاثے بحال کرانے کا فیصلہ کیوں نہیں لے سکی! اس کانفرنس کی کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ اگر اسی نسبت سے طے کیا جائے تو یہ کانفرنس کامیاب ہے یا ناکام اس کا فیصلہ ہم آنے والے دنوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ کانفرنس کی کامیابی اور ناکامی ہی آج کا سب سے اہم سوال ہے۔ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ دو ممالک روس اور امریکہ، جنہوں نے افغانستان کو تباہ حالی تک پہنچایا وہی آج اس کی تعمیر کی کوششوں میں صفِ اوّل میں شمار کیے جارہے ہیں، جب کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تخریب کبھی تعمیر نہیں کہلا سکتی۔

پاکستان ہی افغانستان کے بحران سے براہِ راست متاثر ہونے والا واحد اسلامی ملک ہے، اور پاکستان چالیس سال سے افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ مشکلات برداشت کرنے اور اپنی معیشت کو شدید دبائو میں لانے کے باوجود امریکہ کی نظروں میں پاکستان ہی ’’افغان مسائل کا ذمے دار ملک‘‘ ٹھیرایا جارہا ہے۔ امریکہ کی یہ سوچ عالمی منصفوں اور امن کے دعویداروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ اس سب الزام تراشی کے باوجود امریکہ اسلام آباد سے درخواست کرتا رہا کہ اسے واپسی کے لیے محفوظ راستہ دلایا جائے۔ امریکہ خود تو محفوظ راستہ پاکر نکل گیا مگر افغانستان کو مسائل کی گہری کھائی میں دھکیل گیا۔ انھی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے اسلام آباد میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ جمع ہوئے۔ مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کا یہ خصوصی اجلاس سعودی عرب نے طلب کیا تھا اور پاکستان کو میزبان ملک بنایا گیا۔ او آئی سی کے اس خصوصی اجلاس کا براہِ راست جائزہ لینے کے لیے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جاپان جیسے ممالک کو بھی مدعو کیا گیا۔ تمام اہم بین الاقوامی ادارے جو افغانستان کے انسانی بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں جن میںاقوام متحدہ، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک بھی شامل ہیں، انہیں بھی پاکستان نے کانفرنس میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ یوں مجموعی طور پر اس اجلاس میں 437 غیرملکی مندوبین شریک ہوئے۔ اس طرح وہ تمام ممالک اور ادارے جو افغانستان کی معاشی ناکہ بندی کی وجہ ہیں یا اس کے خلاف ایک آواز اٹھائے ہوئے ہیں، اس اجلاس میں بالواسطہ اور کسی حد تک براہِ راست شریک ہوئے۔

مسلم دنیا کو ایسی کانفرنس کے لیے اگست سے توجہ دلائی گئی تھی، تاہم نومبر میں اقوام متحدہ کی افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی ڈیبرا لیون نے افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ اس کے بعد 11 امریکی جرنیلوں اور سفیروں نے جو افغانستان میں رہ چکے تھے، امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کے اقتصادی بحران کو ختم کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے کیوں کہ یہ امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر کیمرون منٹر بھی اسلام آباد آئے تھے اور انہوں نے کانفرنس سے دو روز قبل یہاں اہم سفارتی حلقوں سے ملاقات بھی کی تھی۔ یورپ میں بھی یہ رائے پائی جاتی ہے کہ امریکی پابندیاں بین الاقوامی قانون کے تحت انسانی حقوق کی پامالی نہیں کرسکتیں اور یہ کہ دنیا افغان عوام کی بگڑتی ہوئی حالتِ زار سے ہرگز کنارہ کشی نہیں کرسکتی۔

کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان کے خطاب کا کلیدی نکتہ یہ تھا: ’’اقوام عالم افغانستان کی طالبان حکومت اور افغان عوام کو الگ الگ سانچے میں دیکھیں، طالبان پر چاہے کچھ بھی پابندیاں عائد کی جائیں اور انہیں تسلیم نہ کیا جائے تاہم وہاں افغانستان کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے اہم انسانی اور اقتصادی فیصلے بھی کیے جائیں، طالبان پر اس نوعیت کا دباؤ نہ ڈالا جائے جس کے نتیجے میں افغانستان کا معاشی بحران اس سطح تک پہنچ جائے کہ افغانستان بحیثیت ایک ملک کے شدید بحران کا شکار ہو اور وہاں کے لوگ ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوں، یا ملک کے اندر لاچاری کا سامنا کریں اور ان حالات میں دہشت گردی کو بڑھاوا ملے۔‘‘

اس وقت امریکہ اور اُس کے بہت سے مغربی حامی ملکوں نے طالبان کی حکومت پر اَن گنت پابندیاں لگائی ہوئی ہیں، آئی ایم ایف نے افغانستان کو ساڑھے چار سو ملین ڈالر کی ادائیگی روک دی ہے اور امریکہ نے افغان حکومت کے 9 ارب ڈالر سے زیادہ امریکی بینکوں میں منجمد کردیئے ہیں۔ اس سب کے نتیجے میں افغانستان کا بینکاری نظام معطل ہوگیا اور جو اربوں ڈالر سالانہ امریکہ سمیت مغربی ممالک اپنی پسندیدہ افغان حکومت کو دے رہے تھے، وہ بھی سب روک دیئے گئے ہیں۔ اب اگست کے بعد افغان حکومت کے تمام ملازمین جن کا تعلق تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں سے ہے، سب بغیر تنخواہ کے کام کررہے ہیں۔ معاشی بدحالی کا یہ بگاڑ ایک گہرا انسانی بحران پیدا کررہا ہے، اس کے نتیجے میں افغانستان میں بھوک، بیماری، لاچاری اور موت کا راج ہوسکتا ہے۔ اس خرابی کو دور کرنے کی ذمے داری امریکہ پر ہے، کیوں کہ تمام عالمی ادارے اُس کے کنٹرول میں ہیں۔ کچھ روز پہلے امریکہ کی اجازت سے جزوی طور پر کچھ نجی بینک اپنا کام شروع کرسکے ہیں۔

کانفرنس میں شرکت کے لیے افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی اسلام آباد پہنچے، تاہم انہیں کھل کر بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اہم مندوبین سے اُن کی ملاقاتیں ہوئیں لیکن اِن ملاقاتوں کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ ان اہم ملاقاتوں میں ایک ملاقات امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی ٹام ویسٹ سے تھی۔ اسلامی تعاون تنظیم اگرچہ طالبان حکومت کو تسلیم کرانے کا فیصلہ نہیں لے سکی تاہم انسانی بحران میں الجھے ہوئے ملک کے لیے ایک مثبت کردار ادا کرنا خوش آئند ہے، اورنئی افغان حکومت کو بھی او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اقتصادی اور سفارتی سطح پر یقینی فائدہ ہوگا۔ ویسے تو شرمندگی کا باعث یہ بات بھی ہے کہ مسلمان ممالک اپنے وسائل کے باوجود اقتصادی بحران کے حل کے لیے مغربی ممالک سے مدد کی توقع رکھتے ہیں۔ امید یہی تھی کہ اسلام آباد میں ایک نئی روایت قائم کی جائے گی، مگر مسلم ملکوں نے خود ہی یہ ثابت کردیا ہے کہ امریکہ کی سوئی ہلائے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے خطاب میں افغان معیشت کے لیے بینکنگ نظام فعال بنانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ افغانستان کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، پاکستان نے جذبہ خیرسگالی کے تحت 5 ارب کی امداد کا اعلان کیا تھا، ہم نے افغانستان کے لیے خوراک، ادویہ بشمول پچاس ہزار میٹرک ٹن گندم کی صورت میں انسانی امداد کی فراہمی کے انتظامات مکمل کرلیے ہیں، ہماری ٹیم افغانستان میں پاکستان کی معاونت سے چلنے والے تین اسپتالوں کے دورے کے لیے جلد کابل پہنچے گی، افغانستان میں ابھرتے ہوئے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے اثرات ہمسایہ ممالک، خطے اور دنیا بھر کے لیے مضر ہوسکتے ہیں۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حوالے سے او آئی سی کی مسلسل اور غیر متزلزل حمایت پر اُس کے شکر گزار ہیں۔ ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش اولو نے افغانستان میں کسی بھی انسانی المیے اور بحران کو روکنے کے لیے بھرپور کوششوں کی ضرورت پر زور دیاکہ اسلامی تعاون تنظیم کو اس ضمن میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم افغانستان کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں جو اِس وقت مشکل حالات سے دوچار ہیں، افغانستان کے 23 ملین عوام کو بھوک کا سامنا ہے، افغانستان میں انسانی بحران کو روکنے کے لیے پاکستان، او آئی سی اور اسلامی ترقیاتی بینک کے مشترکہ اقدامات ناگزیر ہیں، او آئی سی کو یو این ایچ سی آر اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کرنا چاہیے تاکہ افغانستان میں انسانی ہمدردی کے تحت امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، افغانستان کی موجودہ صورت حال میں طالبان کے ساتھ بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے افغانستان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان، ازبکستان، انڈونیشیا اور دیگر ایشیائی ملکوں کے مثبت کردار کو سراہا۔ او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 17 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عالمی رہنمائوں نے افغانستان میں امن و استحکام کے لیے علاقائی اور عالمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا اور پاکستان کی جانب سے اس کانفرنس کی میزبانی کا خیرمقدم کیا۔ افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل او آئی سی ابراہیم حسین طہٰ نے سعودی عرب کی تجویز اور پاکستا ن کی میزبانی کی تعریف کی اور کہا کہ یہ اجلاس افغان بحران کے حل میں مددگار ثابت ہوگا۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ او آئی سی اجلاس کے انعقاد کے لیے پاکستان نے کم ترین وقت میں بہت قابلِ تعریف کام کیا۔ سعودی عرب افغانستان کے مسائل کو سمجھتا ہے۔سعودی وزیرخارجہ فیصل بن فرحان نے او آئی سی کے اجلاس میں افغانستان کے لیے ایک ارب ریال امداد دینے کا اعلان کیا۔ ریجنل عرب گروپ کی طرف سے اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے خطاب کیا اورکہا کہ او آئی سی کااجلاس بلانے کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں، افغانستان کے عوام خورا ک کی قلت کا شکار ہیں،افغانستان انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے، افغان عوام کی سلامتی کے لیے اقدامات کرنا ہو ں گے، اردن افغان عوام کی مدد کے لیے تیار ہے، افغانستان کی مدد کے لیے اقدامات ضروری ہیں۔ او آئی سی افریقن گروپ کی طرف سے نائیجر کے وزیر خارجہ یوسف محمد نے خطاب کیا اورکہا کہ افغانستان کے عوام کی ہر ممکن مدد کی جانی چاہیے۔ اسلامی ترقیاتی بینک کے چیئرمین ڈاکٹر محمد سلمان الجاسر نے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان کوآ ج بہت سارے چیلنجز کا سامناہے، افغانستان کو انسانی بنیاد پر امداد فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے، پہلی ترجیح خوراک اور تعلیم کے لیے امداد فراہم کرنا ہے، تعمیر نو کے ذریعے افغانستان کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے، افغانستان کے دیہی علاقوں کو زرعی شعبے کے لیے سہولیات دیں گے، تنہا کوئی بھی ملک افغانستان کا مسئلہ حل نہیں کر سکتا۔ اقوام متحدہ کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری برائے انسانی حقوق مائیکل گرفتھ نے خطاب میں کہا کہ لاکھوں بچے افغانستان میں تعلیم سے محروم ہیں، افغانستان میں اساتذہ تنخواہوں سے محروم ہیں، افغانستان میں بینکنگ کے نظام کو بحال کرنا ہوگا، افغانستان کی معیشت بحران کا شکار ہے، افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے سب جمع ہوئے ہیں، اقوام متحدہ افغان مسئلے پر او آئی سی کی کوششوں کاساتھ دے گا۔