مادھو نے یہ کینٹین ٹھیک ایک سو سال پہلے 1921ء میں شروع کی۔ یہ وہی سال ہے جب ڈھاکہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ 1905ء کی تقسیمِ بنگال، قیامِ پاکستان کی طرف ایک بڑا قدم تھا۔ مشرقی بنگال اور آسام کو، جہاں مسلم اکثریت تھی، الگ صوبہ قرار دیا گیا۔ ڈھاکہ اس صوبے کا صدر مقام تھا۔ یہ تقسیم مسلمانوں کے مفاد میں تھی۔ انہیں ترقی کے مواقع ملنے تھے۔ مگر کانگریس اور دیگر ہندو لیڈروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ انہوں نے تقسیم کے خلاف ایک منظم مہم چلائی اور بالآخر 1911ء میں انگریز سرکار نے یہ تقسیم منسوخ کردی۔ تاہم مسلمانوں کی علیحدگی کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ نواب سر سلیم اللہ کی قیادت میں مسلمانوں کے وفد نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کیا۔ یہ وہی نواب سلیم اللہ ہیں جنہوں نے1906ء میں مسلم لیگ کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ نواب صاحب نے اپنی جائداد سے چھ سو ایکڑ ڈھاکہ یونیورسٹی کے لیے وقف کیے۔ مغربی بنگال کے ہندو طنز سے ڈھاکہ یونیورسٹی کو مکہ یونیورسٹی کہتے تھے۔
مادھو نے یونیورسٹی حکام کی اجازت سے یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے کھانے پینے کا بندوبست شروع کیا، اور پھر مادھو کی کینٹین، یونیورسٹی کی ضرورت بن گئی۔ سیاست ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے ہمیشہ آکسیجن کی طرح رہی ہے۔ لامحالہ طلبہ تنظیموں کے نمائندے بھی کینٹین میں آکر بیٹھتے تھے۔ یوں کینٹین ہمیشہ سے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہی۔ اس کالم نگار نے بھی یونیورسٹی میں قیام کے دوران اس کینٹین سے ڈھائی برس تک، دوستوں کی معیت میں، چائے پی اور سموسے کھائے۔ مادھو کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اگر طلبہ کینٹین میں بیٹھ کر سیاسی بحثیں کرتے تھے تو وہ کیا کرسکتا تھا! مگر طاقت نے کبھی منطق دیکھی نہ انصاف کیا۔ 25 مارچ 1971ء کو ایکشن شروع ہوا۔ اگلے دن مادھو کی بیوی، بیٹا اور بہو موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ پھر مادھو بھی مار دیا گیا۔ مگر طاقت سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ مادھو کی کینٹین آج بھی چل رہی ہے۔ بنگلہ دیش خاصی ترقی کرچکا ہے۔ اس کا شمار تائیوان، جنوبی کوریا اور سنگاپور جیسے ایشین ٹائیگرز کے ساتھ ہونے جارہا ہے۔ تب مشرقی پاکستان کی آبادی، مغربی پاکستان سے کہیں زیادہ تھی۔ وہاں کی آبادی آج ساڑھے سولہ کروڑ ہے اور موجودہ پاکستان بائیس کروڑ کے ہندسے کو چھو رہا ہے۔
کالم نگار کو وہ شام کبھی نہیں بھولتی جب وہ ڈھاکہ یونیورسٹی لائبریری میں اپنے بنگالی کلاس فیلو کے ساتھ بیٹھا تھا۔ باہر شام کے سائے لمبے ہورہے تھے۔ لیچی اور املی کے درختوں کے پتے سینہ کوبی کررہے تھے۔ اندر پنکھے تیزی سے چل رہے تھے۔ ملک کی حکمرانی جنرل ایوب خان سے جنرل یحییٰ خان کو منتقل ہوچکی تھی۔ کلاس فیلو کا ایک ہی سوال تھا: ”گیارہ برس ایک جرنیل کی حکومت رہی۔ اب دوسرا آگیا ہے۔ ہماری باری کبھی آسکتی ہے؟“
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سولہ دسمبر آج پچاسویں بار آیا ہے۔ نصف صدی بیت چکی ہے مگر ہم پاکستانیوں کی اکثریت آج بھی حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پچاس برس سے بھاری اکثریت کا بیانیہ وہی چلا آرہا ہے کہ بنگالیوں پر ہندوؤں کا اثر تھا۔ یہ کہ وہ کم تہذیب یافتہ تھے۔ یہ کہ یہ غلط ہے کہ اُن کا استحصال ہوا۔ یہ کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک سازش تھی۔ یہ کہ اس میں غیر ملکی ہاتھ ملوث تھا۔ حقائق سے عدم واقفیت، یا تعصب، یا ذہنی انجماد تاریخ میں قابلِ دست اندازیٔ پولیس کبھی نہیں رہے۔ مولوی صاحب لوگوں کو سمجھا رہے تھے کہ گاؤں کے باہر جو گندا جوہڑ ہے اس کے پانی سے وضو نہیں ہوتا۔ ایک کسان اٹھا، کہنے لگا: مولانا! میں تو ہر روز اسی کے پانی سے وضو کرتا ہوں! میرا تو ہوجاتا ہے۔ ہمارے بیانیے سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ بہت سے لکھاری سابق مشرقی پاکستان کی سیاسی حرکیات کی الف بے بھی نہیں جانتے، نہ انہیں وہاں کی سماجی بُنت کا علم ہے۔ انہیں کون بتائے کہ جب وہاں دکان دار سے کسی شے کا بھاؤ پوچھا جاتا تو فرض کیجیے وہ آٹھ آنے بتاتا تو پوچھنے والا اسے تھپڑ رسید کرتا اور چار آنے دے کر شے لے جاتا۔ انہیں کون بتائے کہ اُس وقت کے معتبر (سرکاری) اخبار پاکستان ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا کہ مشرقی پاکستان کے وسائل مغربی پاکستان پر خرچ ہوئے۔ سوال یہ نہیں کہ آرمی نے کیا کیا اور مکتی باہنی نے کیا کیا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے چوبیس سال کیا ہوتا رہا؟ کیوں ہوتا رہا؟ مشرقی پاکستان کی عددی برتری کو جھٹلانے کے لیے ون یونٹ کیوں بنایا گیا؟ کوئٹہ، کراچی، پشاور، گلگت جیسے دورافتادہ مقامات کے لوگوں کو اپنے کاموں کے لیے لاہور آنے پر کیوں مجبور کیا جاتا رہا؟ صرف اس لیے کہ مشرقی پاکستان کے نمائندوں کی تعداد کو مصنوعی طور پر کم کیا جائے؟ اکثریت کی زبان کو، جو دوسری زبانوں کی نسبت زیادہ پرانی، زیادہ ترقی یافتہ تھی، کیوں نظرانداز کیا گیا؟ ملک کا بے تحاشا نقصان ہونے کے بعد زبان کے معاملے میں جو اقدام بعد میں کیا گیا، پہلے کیوں نہ کیا گیا؟ حیرت ہے کہ آج بھی کہا جاتا ہے کہ عوامی لیگ کے چھ نکات سے ملک عملاً ٹوٹ جاتا! تو چھ نکات نہ مان کر کیا آپ نے ملک کو بچا لیا؟ اللہ کے بندو! کنفیڈریشن کے سوا اکٹھا رہنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ مجیب الرحمان شامی صاحب نے ایک انٹرویو میں اس مسئلے پر اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ ہاں! میں نہ مانوں کا علاج بقراط کے پاس بھی نہیں۔ شامی صاحب کہتے ہیں ”آج پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ جب مشرقی پاکستان پر ملٹری ایکشن ہوا تھا اور اُس وقت وہاں جو تحریک چل رہی تھی صوبائی خودمختاری کی، اور شیخ مجیب کا جو نقطہ نظر تھا میں اس کا کماحقہ ادراک نہیں کرسکا… زمینی حقائق کا تقاضا یہ تھا کہ دونوں کے درمیان ایک کنفیڈریشن ہوتی اور دونوں حصوں کو یکساں حقوق دیے جاتے، حتیٰ کہ اگر علیحدہ علیحدہ ملک بننے کی بھی صورت ہوتی تو دونوں حصے پُرامن مذاکرات کے ذریعے الگ الگ ہوجاتے تو یہ باہمی فساد کے مقابلے میں کہیں بہتر ہوتا۔“
ایک موقف یہ ہے کہ غلطیاں دونوں طرف سے ہوئیں۔ یہ بھی عجیب ہی موقف ہے! اختیارات یہاں زیادہ استعمال کیے جاتے تھے۔ وہاں تو بیوروکریسی بھی یہاں سے بھیجی جاتی تھی۔ تو دونوں کی غلطیاں برابر کیسے ہوگئیں؟ یہ ماننے میں کیا حرج ہے کہ الیکشن کے نتیجے میں جو حق انہیں ملنا چاہیے تھا وہ انہیں نہیں دیا گیا۔ ستم در ستم یہ کہ باقی ماندہ پاکستان میں پھر وہی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں۔ دور افتادہ مقامات کو لاہور، پشاور، کوئٹہ اور کراچی کے ساتھ باندھ کر رکھا جارہا ہے۔ ملک کی بقا ارتکاز میں نہیں، تنوّع میں ہے۔ نئے صوبے بنائیے یا ضلعی حکومتوں کو اختیارات دیجیے! انتظامی اختیارات اور اس سے بھی زیادہ ضروری مالی اختیارات! دنیا کہاں پہنچ گئی ہے اور آپ کہاں ہیں!
کلیاں نوکِ سناں سے چٹکیں، غنچے کٹ کے شگفتہ ہوئے
کاش یہ فصلِ خونِ بہاراں اور نہ کھینچے طول یہاں
(اظہارالحق،دنیا،16دسمبر2021ء)