میں نے 1976ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں بی اے (عربی) آنرز میں داخلہ لیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گریجویشن میں ہر طالب علم کو تین مضامین 1۔ اسلامیات، 2۔ ہندوستانی مذاہب اور کلچر، اور 3۔ ہندو مذہب کا مطالعہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا لازمی ہوتا ہے۔ غور و فکر کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ اسلامیات اور ہندوستانی مذاہب اور کلچر جیسے موضوعات پر میرا مطالعہ بہتر ہے، البتہ ہندو مذہب سے متعلق معلومات کی کمی کا احساس تھا، اس لیے میں نے ’ہندو مذہب کا مطالعہ‘ مضمون کا انتخاب کیا۔ اس مضمون کے انتخاب کی دو وجوہات اور تھیں، وہ یہ کہ اس طرح ہندی زبان سے میرا رابطہ مستحکم ہوگا اور دوسرے اس سے غیر مسلم طلبہ میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے گا۔
اسلامیات میں مسلمان طلبہ داخلہ لیتے، ہندوستانی مذاہب اور کلچر میں ہندو مسلمان مشترک طلبہ داخلہ لیتے، لیکن اسلامیات کی مانند مضمون ’ہندو مذہب کا مطالعہ‘ صرف ہندو طلبہ ہی اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اس مضمون کو اختیار کرنے والا میں پہلا مسلمان طالب علم تھا۔
آں جہانی حکم چند شاستری ’ہندو مذہب کا مطالعہ‘ مضمون کے استاد تھے۔ ہریانہ سے تعلق رکھنے والے حکم چند شاستری جاٹ فیملی سے تعلق رکھتے اور آریہ سماجی نقطۂ نظر کے ماننے والے تھے۔ بھاری بھرکم، بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ خوش اخلاقی، حق گوئی اور غلطی کا اقرار اُن کی نمایاں خوبیاں تھیں، لیکن جب انہیں میرے بارے میں اپنے ساتھی اساتذہ سے معلوم ہوا کہ میں عالم و فاضل ہوں اور ایک مشہور عالمِ دین (سید حامد علیؒ مترجم فی ظلال القرآن) کا فرزند ہوں تو شاید انہیں میرے بارے میں غلط فہمی پیدا ہوئی کہ میں نے کسی ’کارِ مخصوص‘ کی انجام دہی کے لیے اس مضمون کو اختیار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تقریباً پندرہ روز کلاس میں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے خاصا زہر اگلا۔ غالباً ان کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ وہ کلاس میں مناظرہ بازی اور فرقہ پرستی کا ماحول پیدا کردیں اور طلبہ اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں منفی رجحانات کے حامل ہوجائیں، یا میں ہی اس مضمون کو ترک کرکے کوئی دوسرا مضمون اختیار کرلوں، اور اس طرح اُن کے سر پر منڈلاتا ہوا خطرہ دور ہوجائے۔
میں نے ان دنوں اپنے آپ کو ایسا بنا لیا گویا کہ میں بہرا اور گونگا ہوں، ان کی تمام زہرافشانیاں میرے سر کے اوپر سے گزر گئیں اور میں نے کسی منفی ردعمل کا اظہار نہ کیا، تو میں اور بالآخر وہ کورس کی طرف متوجہ ہوئے اور باضابطہ کلاس لینے لگے۔
میں نے اُن کے ساتھ انتہائی درجے کا ادب و احترام کا رویہ برقرار رکھا، اور پھر اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں انہوں نے بھی جو غلط اعتراضات کیے تھے، ان سب کے بارے میں مَیں نے اُن سے کلاس میں سب کے سامنے منوا لیا کہ اسلام کا نقطۂ نظر صحیح ہے۔ اتنا ہی نہیں، پھر تو مجھے خالد بیٹے کہتے اور اپنے ساتھی اساتذہ میں میرا نام بتاکر اس طرح تعارف کراتے کہ یہ ایک آئیڈیل مسلم ہیں۔
شاستری جی کورس کے مطابق اپنے طلبہ کو عالمی مذاہب کے بارے میں بتانے کے بعد اسلام کے بارے میں اظہارِ خیال کررہے تھے، مجھے لگا کہ شاید اسلام پر کسی غیر مسلم کی لکھی ہوئی کتاب کا مطالعہ کرکے شاستری صاحب لیکچر دیتے ہیں،کیونکہ اس میں بعض باتیں غلط ہی نہیں بلکہ بالکل بے بنیاد تھیں، چنانچہ میں نے کلاس کے خاتمے کے بعد شاستری جی سے گفتگو کی کہ مجھے ہندو مذہب کے بارے میں واقفیت حاصل کرنا تھی، اس کے دو راستے تھے، پہلا یہ کہ میں ہندو مذہب پر کسی مسلمان کی لکھی ہوئی کتاب کا مطالعہ کرتا، جس میں غلطی کے امکانات بھی ہوتے اور جا بہ جا چٹکیاں بھی لیتا جاتا، دوسرا راستہ وہ ہے جو میں نے اختیار کیا کہ ہندو اسکالروں کی لکھی ہوئی کتابوں کو آپ سے پڑھا اور سمجھا جائے، اس میں کون سا راستہ صحیح ہے؟ ظاہر ہے کہ شاستری جی نے میرے اختیار کیے ہوئے راستے کو صحیح بتایا۔
میں نے شاستری جی سے کہا کہ یہی معاملہ اسلام اور دوسرے مذاہب کے ساتھ ہونا چاہیے۔ آپ نے جو آج لیکچر دیا ہے، اُس میں کئی باتیں صحیح نہیں ہیں، اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں کسی مسلم اسکالر کی اسلام پر لکھی ہوئی کتاب آپ کو لادوں، تاکہ آپ کو لیکچر دینے میں آسانی ہو۔ اس پر انہوں نے تائید کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔
میں نے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریر کردہ انتہائی مشہور و مقبول کتاب ’رسالہ دینیات‘ کا ہندی ایڈیشن ’اسلام پردیشکا‘ لاکر دے دی۔ وہ روزانہ اسے پڑھ کر آتے اور لیکچر کے بعدکلاس ہی میں مجھ سے پوچھ لیتے کہ لیکچر میں کوئی غلط بات تو نہیں کہی گئی ہے۔
اسلام پر لیکچر ختم ہوگیا تو شاستری جی نے بتایا کہ کتاب کچھ دن بعد مجھے واپس کی جائے گی، کیوں کہ پبلک اسکول میں ٹیچر ان کا فرزند اس کا مطالعہ کررہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ میرے لیے مزید خوشی کی بات تھی۔
ایک دن شاستری جی کلاس میں تشریف لائے، حاضری لینے کے بعد انہوں نے اپنے بیگ سے کتاب ’اسلام پردیشکا‘ (رسالہ دینیات) نکالی، میز پر ایک زور دار ہاتھ مارا، کتاب کے ٹائٹل کو مجھ سمیت تمام طلبہ کی طرف کرتے ہوئے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ٹھیرے ہوئے لہجے میں یوں بہ آوازِ بلند مخاطب ہوئے:
’’خالد بیٹے! اگر اسلام دھرم یہی ہے جو اس پستک (کتاب) میں لکھا ہے، تو یہی میرا دھرم ہے، لیکن خالد بیٹے! جب تم لوگ نئے نئے عرب سے آئے تھے، اُس وقت مؤحد تھے لیکن بعد میں یہاں رہ کر مشرک ہوگئے‘‘۔ میں نے کہا: ’’شاستری جی! آپ صحیح کہتے ہیں، ہم کوشش کررہے ہیں کہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو شرک سے بچاتے ہوئے توحید پر گامزن رہیں۔‘‘
(بشکریہ چشم بیدار- ڈاکٹر خالد حامدی فلاحی (بھارت)
مجلس اقبال
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
علامہ بسااوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں تو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اُس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔