اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا 17 واں غیر معمولی اجلاس پاکستان کی میزبانی میں 19 دسمبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں 20 رکن ممالک کے وزرائے خارجہ، 10 کے نائب وزرائے خارجہ اور دیگر ممالک کے وفود نے شرکت کی۔ ان کے علاوہ امریکہ، روس، برطانیہ، چین، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے بھی اپنے علامتی سفارتی وفود اجلاس میں بھجوائے۔ اجلاس کے ایجنڈے کا مرکزی نکتہ افغانستان کی صورتِ حال پر غور، وہاں کسی بھی انسانی المیے اور بحران کے وقوع پذیر ہونے کی روک تھام کے لیے ممکنہ اقدامات کا جائزہ، اور عالمی برادری پر اس ضمن میں بھرپور تعاون کے لیے زور دینا تھا۔ افغانستان چالیس برس سے زائد عرصے سے دنیا کی بڑی طاقتوں کی مسلط کردہ جنگ کا میدان رہا ہے، پہلے سوویت یونین نے اپنی فوجیں یہاں اتارکر قبضہ کرنا چاہا، مگر غیور افغان عوام نے زبردست مزاحمت کے ذریعے نہ صرف اس کوشش کو ناکامی سے دوچار کیا بلکہ ایسا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا کہ دنیا کی دوسری سپر پاور ہونے کے دعوے دار سوویت یونین کا وجود صفحۂ ہستی سے نابود ہوگیا، پھر یک محوری دنیا کی واحد قوت ہونے کے زعم میں مبتلا امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت افغان سرزمین پر حملہ آور ہوا، مگر مسلسل بیس برس تک افغانستان کی چٹانوں سے سر ٹکرانے اور ہر طرح کا جدید ترین اسلحہ آزمانے کے باوجود کوئی کامیابی حاصل کرنے یا غیرت مند افغانوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے میں ناکام رہا، اور آخر اِسی سال کے وسط میں ہزیمت کا داغ پیشانی پر سجائے پسپائی پر مجبور ہوا۔ تاہم گزشتہ بیس برس میں اُس نے اور اُس سے قبل سوویت یونین نے جس تباہی و بربادی سے افغانستان کو دوچار کیا، اور اب اپنی دھونس جماتے ہوئے امریکہ نے افغان قوم کے بیرونی بینکوں میں جمع شدہ اثاثوں کو منجمد کردیا جس کے سبب آج کل بھوک، افلاس اور فاقہ کشی سے برسرپیکار افغانستان کسی انسانی المیے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس بحرانی کیفیت میں افغان عوام کی مدد کرنے اور اُن کے اپنے اثاثے واگزار کرنے کے بجائے مغربی دنیا کو افغان خواتین کے ’’حقوق‘‘ اور ان کی ’’آزادیوں‘‘کے تحفظ کی فکر ستائے جارہی ہے، اور طالبان پر مسلسل اس معاملے میں دبائو بڑھایا جارہا ہے۔ تعلیم و تہذیب کے ان مغربی دعوے داروں کو کون احساس دلائے کہ افغان خواتین اور بچوں کا سب سے اہم اور پہلا حق زندہ رہنا ہے، دوسرے حقوق خواہ وہ کتنے بھی اہم ہوں، کی بات تب ہی کی جا سکے گی اگر پہلے ان کی زندگی کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، جب کہ خود عالمی اداروں کی رپورٹیں یہ انتباہ کررہی ہیں کہ افغانستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی کی زندگی بھوک کے باعث خطرات میں گھری ہوئی ہے۔ ان حالات میں پاکستان نے ایک ذمہ دار ہمسایہ کی حیثیت سے اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس بلا کر دنیا کو افغانستان کی نازک صورتِ حال سے آگاہ کرنے کی ایک مثبت اور قابلِ قدر کوشش کی ہے۔ یہ امر بھی باعثِ اطمینان ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک نے اپنا دینی فریضہ ادا کرتے ہوئے افغان عوام کی خاطر خواہ مدد اور تعاون کے لیے اہم فیصلے کیے ہیں۔ اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کی گئی ایک قرارداد کے ذریعے اس بات پر زور دیا گیا کہ افغانستان میں معاشی بدحالی بڑے پیمانے پر مہاجرین کے انخلا، انتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم استحکام کے فروغ کا باعث بنے گی جس کے سنگین نتائج عالمی امن اور علاقائی استحکام پر مرتب ہوں گے، اس لیے بین الاقوامی برادری افغانستان کو تنہا نہ چھوڑے۔ اجلاس میں اسلامی ترقیاتی بینک کے زیر اہتمام اسلامک ٹرسٹ فنڈ کے قیام، فوڈ سیکورٹی کے پروگرام اور اسلامی کانفرنس کے نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان کے تقرر پر بھی اتفاق کیا گیا۔ سعودی عرب نے اسلامک فنڈ میں ایک ارب ریال دینے کا اعلان کیا ہے۔ یوں کانفرنس میں کیے گئے فیصلے افغانستان کے حالات کی بہتری کے لیے خوش آئند اور حوصلہ افزا ہیں۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ بین الاقوامی برادری خصوصاً مسلمان ممالک افغان طالبان سے متعلق مثبت رویہ اپنائیں، انہیں آزاد فضا میں بیرونی دبائو کے بغیر مستقل حکومت سازی کا موقع دیا جائے۔ ان کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کی جانب پیش رفت بھی وقت کا تقاضا ہے تاکہ افغان عوام بین الاقوامی دھارے کا مؤثر حصہ بن کر آگے بڑھ سکیں۔
اسلامی تعاون تنظیم کے اس غیر معمولی اجلاس کے نتیجے میں پاکستان سے عالمِ اسلام کی ایک جان دار آواز دنیا بھر میں سنی گئی ہے۔ تنظیم جو ایک مُردہ گھوڑے کی حیثیت اختیار کرچکی تھی اُس کے تنِ مُردہ میں نئی زندگی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس طرح یہ کانفرنس امتِ مسلمہ کے لیے امید کی ایک کرن اور نئی صبح کے طلوع کی نوید ثابت ہوسکتی ہے۔ تنظیم کے اس اجلاس کا ایک ضمنی اور اضافی فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کے خواب دیکھنے والوں کے عزائم بھی مایوسی اور ناامیدی سے دوچار ہوگئے ہیں۔
(حامد ریاض ڈوگر)