ایک مؤقر تعلیمی ادارے کی سالانہ تقریب ہورہی تھی۔ ہم بھی تھے مہمان گئے۔ مہمان سے پہلے میزبان مقررین کا تانتا بندھ گیا۔ مقررین میں نہ صرف طلبہ و طالبات بلکہ معلّمین و معلّمات کی بھی اچھی تعداد تھی۔کچھ مختصر دورانیے کے تمثیلی تماشے بھی بیچ بیچ میں بھیس بدل بدل کر دکھائے جاتے رہے۔ تقریب چوں کہ عشا بعد شروع ہوئی تھی، چناں چہ منہ سے جھاگ برساتی تقریروں اورآنکھیں نم کردینے والے تماشوں سے رات بھیگنے لگی۔ انشاؔ جی والا ڈر ہمیں بھی لگنے لگا کہ
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا؟
جب لوگ جگر تھام کے بیٹھ گئے، تب ہماری باری آئی۔ اُس وقت تک مقررین کی ’’بربریت‘‘ سے خود ہمارا بُرا حال ہوچکا تھا۔ مذکورہ تعلیمی ادارے میں سالانہ تقریبات کا ہفتہ منایا جا رہا تھا۔ اُس تقریبِ شب کا موضوع اقبالؔ کا کلام اور پیغامِ اقبالؔ تھا۔ یقین کیجیے کہ مقررین کی تقریباً پچہتر فیصد تعداد نے، جن میں طلبہ و طالبات اور معلمین و معلمات سب ہی شامل تھے، اپنی تقریروں میں تکرار کے ساتھ ’’بربریت‘‘کا خوب، خوب استعمال کیا۔ اپنی باری پر ہم نے طلبہ و اساتذہ دونوں سے سوال کیا کہ
’’کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ دنیا میں سب سے پہلی بربریت کس نے برپا کی تھی؟‘‘
تو کیا اُستاد اور کیا طالب علم، سب ایک دوسرے کا منہ تاکنے لگے۔
عرض کیا: ’’اے عزیزو! ابھی ابھی جو آپ کے باصلاحیت طلبہ نے اقبالؔ کی نظم ’’طارق کی دُعا‘‘کا نہایت دلچسپ اور پُراثر تمثیلی خاکہ پیش کیا ہے، یہیں سے تو ’بربریت‘ کی ابتدا ہوئی تھی‘‘۔
ہماری بات سُن کر سب حیران رہ گئے۔ منتظمین بھی پریشان ہوہوکر ایک دوجے کو دیکھنے لگے کہ یہ ہم نے کس بے وقوف کو بُلا لیا۔
ہم نے طلبہ و طالبات کو مخاطب کرکے بتانا شروع کیا: یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ کے جنوب مغربی گوشے ’ ہسپانیہ‘ میں کوہِ پیرنیز کے پار انتہائی وحشی قبائل رہا کرتے تھے۔ یہ قبائل ’قوطیہ‘ یا Goth’ ‘ قبائل کہے جاتے تھے۔ اگرچہ یہ لوگ سلطنتِ روما کے مطیع تھے، مگر رومن بھی انھیں اپنی سرحدوں سے دور دھکیلتے رہتے تھے۔ پہلی صدی ہجری کی آخری دہائیوں میں جب یہاں ظلم، تشدد، درندگی، بہیمیت اور وحشت بہت بڑھ گئی تھی اور لوگ وہاں کے حکمرانوں کی حیوانیت سے تنگ آکر بغاوت پر آمادہ ہوگئے تھے تو ساحلی شہروں کے ایک نواب جولیاں نے شمالی افریقا کے مسلمانوں سے مدد مانگی۔ شمالی افریقا کے مسلمانوں کا تعلق ’’بربر قبیلے‘‘ سے تھا۔ اُس وقت شمالی افریقا کے گورنر موسیٰ بن نُصَیر تھے۔ پہلے موسیٰ بن نُصیر اور بعد میں اُن کے بربر سپہ سالار طارق بن زیاد نے ان مظلوموں کی پُکار پر لبیک کہتے ہوئے ظالم حکمرانوں اور اُن کے لشکریوں کی، طلبہ کی زبان میں، ایسی ’’کُٹ‘‘ لگائی کہ اہلِ یورپ آج تک اُس مار کو “Barbarism” کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اسی لفظ کو ہمارے مغرب پسندوں نے بغیر پس منظر جانے، بے سوچے سمجھے اور آنکھیں موندکر اُردو میں ’’بربریت‘‘ کا جامہ پہنا دیا۔
ان کالموں کا موضوع تاریخ نہیں، ورنہ مذکورہ تعلیمی ادارے کے طلبہ و طالبات اور معلمین و معلمات کی طرح ہم اپنے قارئین و قاریات کو بھی اُس زمانے کی کچھ جھلکیاں دکھاتے۔ ان جھلکیوں سے اندازہ ہوجاتا کہ ظلم، تشدد، درندگی، بہیمیت، وحشت، جہالت،کفر اور شرک کی گھٹاٹوپ تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے یورپ کو ’بربر‘ مسلمانوں نے کس طرح امن، انصاف، علوم، فنون، تہذیب، تمدّن اور ایمان و اسلام کے نور سے جگمگا کر رکھ دیا۔ مسدسِ حالیؔ میں مولانا حالیؔفرماتے ہیں:
بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے
یہ سب پود اُنھیں کی لگائی ہوئی ہے
’بربریت‘ سے تعلق رکھنے والوں میں فقط طارق بن زیاد اور یوسف بن تاشفین جیسے جرنیل اورحکمران نہ تھے، امام غزالی اور ابن خلدون بھی ’بربر‘ تھے۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ کی عطا کی ہوئی جغرافیائی اور سیاحتی معلومات کو بھی ’بربریت‘ میں شمار کیجیے۔ ابن بطوطہ کی ’بربریت‘ کا ذکرتو مولانا الطاف حسین حالیؔ بھی کیے بغیر نہ رہ سکے۔ مسلمانوں کی تحریکِ اِحیائے علوم کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں:
سدا اُن کو مرغوب سیر و سفر تھا
ہر اِک براعظم میں اُن کا گزر تھا
تمام اُن کا چھانا ہوا بحر و بر تھا
جو لنکا میں ڈیرا تو بربر میں گھر تھا
اہلِ علم و ادب کی زبان سے سُن کرہی نہیں، جدید لغات میں ’بربریت‘ کے معانی پڑھ کر بھی مزید ملال اورسخت صدمہ ہوتا ہے کہ ہمارے کن کن اکابر سے کیا چیز منسوب کی جارہی ہے۔ شان الحق حقی کی مرتب کردہ اور مقتدرہ قومی زبان کی شائع کردہ ’’فرہنگ ِ تلفظ‘‘ میں بھی، نہ ’’بربر‘‘ کے معنی دیے گئے ہیں نہ ’’بربری‘‘ کے۔ مگر ’’بربریت‘‘ کے معانی ’وحشت، جنگلی پن، زور اور ظلم‘ ضرور دیے گئے ہیں۔ جب کہ قدیم لغات میں ہمیں ’بربریت‘ کا لفظ ہی نہیں ملتا۔
الفاظ کے معنوی اور اصطلاحی پس منظر پر بھلا اہلِ لغت سے زیادہ تحقیق کون کرتا ہوگا؟ اہلِ مغرب نے مسلمانوں سے عناد کے اظہار کے لیے اور اپنی عسکری ہزیمت پر کھسیاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ‘Barbarism’ کی اصطلاح کو خلافِ انسانیت اعمال و افعال کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس انگریزی اصطلاح کے اُردو متبادل کے طور پر ’بربریت‘ کو ظلم و تشدد کے معنوں میں استعمال کرنے والے اپنے دانشوروں سے توقع تھی کہ وہ اس مغربی عناد اور بدنیتی کو سمجھ گئے ہوں گے۔ مگر مغرب کی اندھا دھند تقلید کی عادت نے نگاہوں، دلوں اور دماغوں پر دبیز پردے ڈال رکھے ہیں۔ طارق بن زیاد، یوسف بن تاشفین، ابوحامد محمد الغزالی، عبدالرحمٰن ابن خلدون اور ابوعبداللہ محمد ابن بطوطہ جیسے بربروں کے کارناموں کی روشنی میں تو حریتِ انسانی، علم، اخلاق، تہذیب، فلسفہ، تاریخ نگاری، سیر و سیاحت اور سفرنامہ نگاری کو ’بربریت‘ کہنا چاہیے۔ ظلم اور تشدد کے معنوں میں ’بربریت‘ کا لفظ استعمال کرنا خود ظلم ہے اُن اکابر کے ساتھ جنھوں نے یورپ کے مظلوم مسیحیوں کو نہ صرف آزادی و حریت سے ہم کنار کیا بلکہ علم، اخلاق، تہذیب اور تمدن سے بھی آشنا کیا۔ ان احسانات کے بدلے میں ظلم کو ’بربریت‘ قرار دینا ظلم ہی نہیں ’تشدد‘ بھی ہے، یعنی اُس شدّت پسندی کی تقلید ہے جو اہلِ مغرب مسلمانوں کے خلاف روا رکھتے ہیں۔ ورنہ غیر انسانی اعمال و افعال کے لیے ہم جتنی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں ان کا کوئی نہ کوئی معنوی پس منظر ہے۔ ’درندگی‘ کا پس منظر یہ ہے کہ درندے اپنے شکار کو بے رحمی سے چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔کسی کو ’وحشی‘ کہا جائے یاکسی کی حرکتوں کو ’وحشیانہ‘ قرار دیا جائے تو اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ’وحش‘ جنگلی جانور کو کہتے ہیں، جس کی جمع ’وحوش‘ ہے۔ ’بہیمیت‘ کا لفظ دیکھیے تو اس کی اصل ’بہیمہ‘ ہے یعنی حیوان اور اس کی جمع ’بہائم‘ہے۔ ’بہیمیت‘ سے مراد ’حیوانیت‘ ہے جو آج کل ہر طرف دکھائی جارہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ظلم وستم، جوروجبر، زور، زبردستی، تعذیب و تشدد، درندگی وبہیمیت، وحشت وسنگ دلی اور جنگلی پن یا حیوانیت جیسے بامعنی الفاظ کی بکثرت موجودگی میں آپ کو کیا مار آئی ہوئی ہے کہ کسی کے جال میں پھنس کر، کسی کی چال میں آکر ’بربروں‘ کو بدنام کرتے پھریں؟