مجلہ
:
ششماہی تحصیل کراچی
شمارہ مسلسل 8
مدیر
:
ڈاکٹر معین الدین عقیل
نائب مدیر
:
ڈاکٹر جاوید احمد خورشید، ڈاکٹر خالد امین
صفحات
:
186 قیمت:600 روپے
ناشر
:
ادارہ معارفِ اسلامی، کراچی۔ ڈی 35، بلاک5، فیڈرل بی ایریا، کراچی 75950
فون
:
92-021-36349840
برقی پتا
:
tehseel.irak@gmail.com
ویب گاہ
:
www.tehseel.com
ششماہی ’’تحصیل‘‘ ہمارے کراچی سے شائع ہونے والا علمی و تحقیقی مجلہ ہے۔ یہ جنوری۔ جون 2021ء کا شمارہ ہے جس میں گراں قدر علمی و تحقیقی مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ مجلے کے اداریے میں نہایت ضروری مسئلے کو اٹھایا گیا ہے:
’’تحقیقی مطالعاتِ زبان و ادب: قومی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت
مطالعاتِ زبان و ادب کے زمرے میں تاحال قومی پالیسی برائے تحقیق کی ضرورت کو بھی دیگر مضامین کی طرح محسوس نہیں کیا گیا ہے۔ ویسے اردو زبان و ادب کے چند اداروں نے اپنے لیے کچھ تحقیقی اہداف مقرر کیے ہیں، لیکن اُن کا دائرۂ کار محدود یا تخصیص پر مبنی ہے جو تحقیقی طور پر قومی پالیسی کی ضرورتوں سے کسی طرح بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس زمرے میں قومی پالیسی کے ہدف کو زیادہ ہمہ گیر ہونا چاہیے۔ مطالعاتِ زبان و ادب کی سمت میں ایک ایسی وسیع پالیسی تشکیل دیے جانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو جمود کا شکار نہ ہو، اسے مسلسل نظرثانی کے عمل سے گزارا جائے تاکہ مستقل موضوعات کے ساتھ ساتھ ہنگامی موضوعات بھی شامل ہوتے رہیں۔
٭اس لیے تحقیقی مطالعاتِ زبان و ادب کی سمت میں ایک ایسی مفصل دستاویز ترتیب دینے کی ضرورت محسوس کی ہے جس میں اجتماعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے بنیادی اور مستقل موضوعات کا تعین کیا جائے۔
٭ اس دستاویز کا مقصد زبان و ادب کے حوالے سے ضروری موضوعات کی جانب راہ نمائی ہو۔ اس راہ نمائی کا انداز قطعی طور پر حکمیہ نہیں بلکہ رہ نمائی پر مبنی ہونا چاہیے، تاکہ اس کے ذریعے اُن ضروری موضوعات کی جانب نتیجہ خیز پیش رفت کی جائے جن پر گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی کے عرصے میں یعنی اردو زبان و تحقیق کے آغاز سے کم توجہ دی گئی، یا بالکل توجہ نہیں دی گئی ہے، یا اگر دی گئی ہے تو مطلوب اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے ہیں۔
٭ پالیسی کی تشکیل کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ ایک منظم اور مربوط حکمت عملی کے طور پر مطالعاتِ زبان و ادب کے زمرے میں تاریخی، سماجی، نصابی، لسانی، اصناف وار دیگر ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے۔
٭قومی پالیسی برائے تحقیقی مطالعاتِ زبان و ادب میں اُن غیر ضروری موضوعات، یا اُن کے غیر متعلق اندازِ تحقیق و غیر معیاری پیش کش کی بھی نشان دہی کی جائے۔
قومی پالیسی برائے تحقیق مطالعات کی عدم دستیابی کے باعث ایسے ایسے غیر ضروری موضوعات پر مقالات تحریر کیے جارہے ہیں جن کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ اس طرح قومی وسائل کا زیاں ہورہا ہے۔ بے مصرف اور سہل موضوعات کی سمت مقالہ نگاروں کا ایک جم غفیر ہے جو پیش رفت کا خواہش مند ہے۔ اردو کے معروف رسائل کی لسانی و ادبی خدمات پر مقالات کا ڈھیر ہے جو بالکل بھی مطلوب نہیں۔ ایسے موضوعات کا انتخاب عام طور پر مقالہ نگار اس لیے کرتے ہیں کہ ایک جانب تو وہ کسی ضروری موضوع کو سوچنے کی استعداد سے عاری ہوتے ہیں، دوسری جانب کسی ادبی رسالے کا اشاریہ اٹھایا اور اس میں سے کچھ عنوانات کا سرسری مطالعہ کرنے کے بعد ابواب بندی کردی اور دو یا تین سو صفحات گھسیٹ دیئے۔ ایسے عنوانات پر مشتمل مطالعات کو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ تحقیقی مجلات میں بھی اشاعت کے لیے بآسانی جگہ مل جاتی ہے۔ نوآموز مقالہ نگاروں کا ایک آسان ہدف تیسرے درجے کے شعرا بھی ہیں۔ ایسے شعرا کی تعداد کثیر ہے جو مقالہ نگاروں سے ایسے مطالعات کے لیے بالمشافہ درخواست کرتے ہیں جن میں اُن کی شخصیت اور شاعری کو موضوع بنایا جائے۔ موضوعات کے انتخاب، نگرانی اور تنقیح پر مامور صاحبانِ علم و فضل کی تائید بھی انہیں حاصل ہوجاتی ہے جو خود بالعموم علمیت اور عقل و شعور اور تجربے سے بے نیاز رہتے ہیں، چنانچہ آسان اور سرسری و سطحی موضوعات کی تلاش میں ایسے لکھنے والوں کو بھی تحقیق کا موضوع بنایا جاتا ہے جنہوں نے صرف دو چار یا اس سے زائد کتابیں تحریر کیں۔ اس ضمن میں اس سوال کو بالکل اہمیت نہیں دی جاتی کہ اس شخصیت پر تحقیقی مقالہ لکھا جائے یا مونوگراف؟ بس ہر دو چار کتابوں کا مصنف تحقیق کا موضوع بن جاتا ہے۔ عدم توازن کی ایک صورت اور ملاحظہ کیجیے کہ ایسے بے خبر مقالہ نگار بھی موجود ہیں جو کسی ایسے بھاری بھرکم تحقیقی موضوع کا انتخاب کرلیتے ہیں جس کا بوجھ اٹھانا اُن کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
اس صورتِ حال میں تحقیقی مطالعاتِ زبان و ادب پر مشتمل قومی پالیسی درج ذیل حوالوں سے معاون ہوسکے گی:
٭مذکورہ مطالعات کو بے سمتی سے بچایا جاسکتا ہے اور قومی سطح پر مطالعات کی سمت میں ایک زیادہ بامعنی انداز میں پیش رفت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
٭مطالعات کے ضمن میں ٹھوس اور فکر انگیز موضوعات کو اساسی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے اس جانب متعلقہ اداروں اور افراد کی درست راہ نمائی کی جاسکتی ہے، جس سے قومی وسائل کے زیاں کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔
٭قومی پالیسی کی تشکیل کے بعد یہ بھی پتا چلایا جاسکتا ہے کہ زبان و ادب کی سمت میں کن کن عنوانات کے ذیل میں تاحال مطالعات کی ضرورت ہے، اور
٭ زبان و ادب کے کلاسیکی و جدید سرمائے کو شعوری طور پر سماجی استفادے کی سمت میں زیادہ موزوں انداز میں تشکیل دیا جاسکتا ہے۔
قومی پالیسی کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس سے تحقیقی اداروں میں شخصی من مانیاں ختم ہوجائیں گی، اور ان اصول و ضوابط کے رہتے ہوئے ہم بہ حیثیت قوم نتیجہ خیز، قومی ضرورتوں سے ہم آہنگ، مستقبل بینی پر مبنی موضوعات پر علمی و تحقیقی کاموں کو زیادہ آسانی سے انجام دے سکتے ہیں، علاوہ ازیں تحقیقی اور علمی حوالوں سے جاری رہنے والی بے سمتی کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے‘‘۔
اس شمارے میں جو 6مقالات شامل کیے گئے ہیں ان کا مختصر تعارف مناسب رہے گا: ’’1857ء سے قبل جرمنی میں اردو اور فارسی اخبارات‘‘ پہلے مقالے کا عنوان ہے، اور یہ تحقیق ہے محمد اکرام چغتائی صاحب کی۔ برلن جرمنی کے مرکزی کتاب خانے میں الوئس اسپرنگر کے کاغذات میں محفوظ اردو اور فارسی رسائل کا تعارف چغتائی صاحب نے کروایا ہے۔ دوسرا مقالہ ہے ’’مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان کے پچاس سال‘‘۔ اس میں ڈاکٹر عارف نوشاہی نے پچاس سال کی روداد تفصیل سے تحریر کردی ہے۔ ڈاکٹر اسلم انصاری نے علامہ محمد مارما ڈیوک پکھتال کے ترجمۂ قرآنِ حکیم کا تعارف کروایا ہے۔
اگلا مقالہ لیلیٰ عبدی خجستہ کے قلم سے ہے، عنوان ہے ’’انیسویں صدی کی اردو لغات: غیر معیاری اسالیب ِزبان‘‘۔ ’’رشید حسن خاں کی فارسی دانی: برعظیم کے کلاسیکی سرمایہ فارسی ادب سے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ‘‘، اس کے مصنف ہیں ٹی۔آر۔ رینا۔ آخری مقالہ ظفر حسین حجازی صاحب کا ہے ’’علامہ اقبال اور مغربی تہذیب کی فکری بنیادیں‘‘
انگریزی حصے میں درج ذیل مقالات درج ہیں:
1. Turkish Weekly Sebilurresad:S.M Tevfik`s article about 1913 Karachi. Syed Tanvir Wasti.
2.Assessment of Urdu Babarnamas by Uzbak Researcher. Hasan Beg.
3. Udaas Naslain: A Theoretical Analysis of Translation of Abdullah Hussein`s Urdu Novel. Muhammad Asad Habib- Muhammad Asif.
مجلہ سفید کاغذ پر طبع ہوا ہے، بعض مقالات کی حروف چینی احتیاط سے نہیں ہوئی۔ اس طرف توجہ دینی چاہیے۔