معروف محقق بلکہ عصرِ حاضر کے ’’ضیاء المحققین‘‘ جناب ضیاء الدین لاہوری، تحقیق کا منفرد اسلوب اہلِ تحقیق کو دے کر 27 ستمبر 2021ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔ مرحوم کے بڑے بیٹے خالد اعجاز مفتی صحافت سے تعلق رکھنے کے باوجود غم و اندوہ کے باعث اس سانحے کے بارے میں ابلاغ کے کسی بھی ذریعے سے لاہوری صاحب سے مستفید ہونے والوں کو بروقت آگاہ نہ کرسکے۔ پھر بھی زندگی کے ہر شعبے کی نمائندہ شخصیات سمیت لوگوں کی بڑی تعداد نمازِ جنازہ میں شریک ہوئی۔ ضیاء الدین لاہوری کے دوسرے بیٹے جناب امجد علی نے نمازِ جنازہ کی امامت کی۔ موصوف کو استاذ القراء قاری غلام رسول کے شاگردِ رشید ہونے کا شرف حاصل ہے۔
لاہوری مرحوم مختلف ادوار میں بچوں کے ادیب، شاعر، مترجم، طنز و مزاح نگار، کالم نویس اور مدرس رہے۔ تحقیق کے میدان میں آئے تو برعظیم پاک و ہند کے مشہور مفکر، محقق، مؤرخ، ادیب، ماہر تعلیم، مفسر، مترجم بلکہ ہشت صفت رہنما سرسید احمد خاں کی شخصیت اور مشن کے بارے میں سات کتابیں لکھ کر سرسید شناسی کے سلسلے میں مسلمہ اتھارٹی کی حیثیت سے متعارف ہوئے۔ انہوں نے سرسید کی مخالفت میں قلم و قرطاس سے کام نہیں لیا، جیسا کہ بظاہر ان کی تالیفات و تصانیف کی سرسری ورق گردانی کے نتیجے میں عام طور پر مشہور ہے، بلکہ نقد و نظر کو بروئے کار لائے۔ تنقید و مخالفت ایک نہیں دو اسالیبِ فکر ہیں۔ کسی بھی شخصیت کے غلط اور صحیح رخ کو بیک وقت سامنے لانا تنقید ہے، اور نقاد کو زیربحث شخصیت کا مداح یا مخالف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لاہوری صاحب نے کمال یہ کیا کہ سرسید احمد خاں کے کردار اور افکار کو سرسید ہی کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ کسی بھی شخصیت کا اس کے الفاظ میں تذکرہ خاکے، مضمون اور مختصر تالیف کی صورت میں بعض دوسرے اصحابِ علم نے بھی کیا ہے، لیکن کسی ایک فرد کی شخصیت اور فکر کو اُس کی زبان و قلم سے نکلنے والے الفاظ سے سات سو سے زائد صفحات میں مرتب کرنا منفرد تجربہ تھا جو لاہوری صاحب کی ابتدائی تین تالیفات ’’سرسید کی کہانی ان کی اپنی زبانی‘‘، ’’خود نوشت حیات سرسید‘‘ اور ’’خود نوشت افکار سرسید‘‘ کی صورت میں منظرعام پر آیا۔ ان کی اس فنی مہارت اور محنت کی قریباً سب مبصرین نے داد دی اور قرار دیا کہ ان کتب کے معتبر و مستند ہونے میں شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا۔
اسی قسم کا تاثر ان کا بھی ہے جنہیں یہ تالیفات پسند نہیں۔ ریاض الرحمٰن شروانی نے ’’کانفرنس گزٹ علی گڑھ‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ’’ضیاء الدین صاحب کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا بلکہ سرسید کے ارشادات مختلف کتابوں سے جمع کیے ہیں… ہم جتنا دیکھ سکے ضیاء الدین صاحب اپنے اس دعوے میں صادق محسوس ہوتے ہیں‘‘۔ اس اعتراف کے بعد اعتراض یہ نوکِ قلم آیا کہ ’’سرسید کے تئیں ان کا رویہ ہمدردانہ نہیں، معترضانہ ہے، اور معترضانہ بھی ہم نے قلم روک کر لکھا ہے، ورنہ لکھنا معاندانہ چاہ رہے تھے‘‘۔ شروانی صاحب لاہوری صاحب کے ’’معاندانہ رویہ‘‘ کے انکشاف کے بعد ان کی ’’نیک نیتی کی تصدیق سے بھی قاصر ہیں‘‘۔ اسی پر بس نہیں بلکہ یہ بھی رقم فرمایا کہ ’’ضیاء الدین صاحب… ’’اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں جس سے ان کی نیت کا کھوٹ واضح ہوجاتا ہے‘‘۔ شروانی صاحب نے مؤلف کے رویّے اور نیت تک کو زیر بحث لانے سے پہلے پھر یہ اعتراف کیا کہ ’’ضیاء الدین صاحب نے یہ ضرور ثابت کردیا ہے کہ یہ الفاظ سرسید ہی کے ہیں‘‘۔ کیا اس کے بعد بھی ان مبصر صاحب کی رائے اور نیت کو زیربحث لانے کی کاوش کی کوئی اہمیت رہ جاتی ہے! ایک اور معترض محمد اسماعیل آزاد نے کراچی میں ایک محاضرے میں لاہوری صاحب سے شکایت کی کہ ’’یہ بددیانتی ہے کہ کسی ایک شخص کی اچھائیوں کو دبا دیا جائے اور اس کی برائیوں کو بار بار اس کے الفاظ میں دہرایا جائے‘‘۔ تو محقق لاہوری کا جواب یہ تھا کہ سرسید کی ایسی کون سی اچھی بات ہے جو ان کی مؤلفہ کتب میں شامل نہیں؟ تو ایسی کسی بات کی نشاندہی نہیں کی گئی۔
ضیاء الدین لاہوری نے سرسید شناسی کے حوالے سے چار اور کتب ’’نقش سر سید‘‘، ’’آثار سرسید‘‘، سرسید اور ان کی تحریک نقد و نظر کی میزان میں‘‘ اور ’’کتابیاتِ سرسید‘‘ لکھی ہیں۔ پہلی دو کتابوں میں انہوں نے سرسید کے اپنے الفاظ کے برعکس تصورات سرسید سے منسوب کرنے والوں کا محاسبہ کیا اور اس سلسلے میں وہ کسی بھی شخصیت کی حیثیت، مرتبے اور شہرت سے مرعوب نہیں ہوئے۔ ان تصانیف میں فاضل مصنف نے دراصل اپنی ابتدائی تین تالیفات کا مواد نئے انداز میں پیش کردیا ہے۔ یہ انداز اختیار کرنے پر انہیں ذہنی اذیت کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ بعض اشاعتی ادارے ’’دروغ گوئی پر مبنی مضامین تو بڑے اہتمام سے شائع کرتے ہیں لیکن… خود ساختہ نام نہاد اشاعتی پالیسی کی بنیاد پر سنجیدہ لہجے میں دیے گئے جوابات بھی روک لیے جاتے ہیں، اور یہ کہ ان کا کوئی ایک مضمون شائع ہوا تو دوسرا اس لیے اشاعت پذیر نہیں ہوسکا کہ متعلقہ ادارے کے مطابق ان کا پہلا مضمون ہی قارئین نے پسند نہیں کیا، لیکن کسی بھی قاری نے نفسِ مضمون پر کہیں کوئی انگلی نہیں رکھی۔ نئے معترض بھی حقیقت کا اعتراف کرکے بس یہ اعتراض کرتے ملے کہ ’’فاضل مقالہ نگار… نے جتنے حوالے دیئے ہیں انہیں جھٹلانا آسان نہیں‘‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بے ضرورت اور بے مقصد حقیقت بیان کرنا ضروری ہے؟‘‘
فاضل لاہوری کی تیسری کتاب جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، سرسید احمد خاں کی تحریک پر تنقید پر مشتمل ہے، لیکن یہ کتاب تالیف ہے، تصنیف نہیں۔ لاہوری صاحب اپنی طرف سے کچھ لکھنے کے بجائے 166 کتب اور 60 سے زائد اخبارات و جرائد میں شائع ہونے والی قدیم و جدید مصنفین کی آراء کا ایک انتخاب منظرعام پر لے آئے۔ کتابیاتِ سرسید کا موضوع نام سے واضح ہے لیکن یہ ایک ایسا کام ہے جس کی ستائش علی گڑھ یونیورسٹی کی طرف سے بھی ہوئی۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ انڈیا نے سرسید احمد خاں کی دوسو ویں سالگرہ کے حوالے سے ’’سرسید اور علی گڑھ تحریک دو صدی جشن پیدائش، ببلیو گرافی‘‘ کی دو جلدیں شائع کیں۔ پہلی جلد کا انتساب ملاحظہ فرمائیں:
’’ہم اپنی یہ حقیر تالیف، کتابیاتِ سرسید کے جلیل القدر مؤلف، ادبی دنیا کی معروف ہستی، ہمارے محترم مخدومی ضیاء الدین لاہوری کے نام انتساب کرنے کا شرف حاصل کررہے ہیں۔ ہماری کتاب کے اس مجلد اوّل میں جو بھی خوبی ہے وہ ہمارے محترم ضیاء الدین لاہوری صاحب کی دین ہے۔ (جو خامی، کمی رہ گئی، ہم سے منسوب کیجیے)۔ علی گڑھ سے دور، دیارِ غیر میں بیٹھ کر ہمارے مرشد پر انہوں نے اتنا اچھا کام کر ڈالا جس پر ہم لوگ یہاں فخر کرسکتے ہیں۔ مالک ان کی صحت اچھی رکھے اور عمر دراز کرے، اور ہمیں ان کے قلم سے سرسید پر مزید بہت سی اچھی تحریریں ملتی رہیں۔‘‘
محقق لاہوری کی عظمت و دیانت اور نیک نیتی کا عالم دیکھیے کہ مذکورہ بالا خصوصی اشاعت کی مرتب ڈاکٹر شائستہ خاں نے سرسید شناسی کے سلسلے میں مراسلت اور مذکورہ بالا کتاب کے انگریزی حصے میں ضیاء الدین لاہوری کا تذکرہ ’’ڈاکٹر‘‘ جیسے سابقہ سے کیا تو وضاحت کی کہ اگرچہ مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھاتی رہی ہوں لیکن ڈاکٹریٹ کا اعزاز مجھے حاصل نہیں۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی سرسید کی سالگرہ سے متعلق خصوصی اشاعت میں لاہوری صاحب کی تالیف ’’کتابیاتِ سرسید‘‘ سے صفحات کے صفحات عکس کی صورت میں شامل کیے گئے ہیں، اور اس ضمن میں تحسین وتشکر کے جذبات کااظہار تحریری صورت میں سامنے آیا، لیکن انہی صفحات کے عکسی نمونے جب پاکستان کے سرکاری ادارے کے ادبی جریدے سہ ماہی’’ صحیفہ‘‘ لاہور کے سرسید نمبر کی زینت بنے تو کتابیاتِ سرسید اور لاہوری صاحب کا تذکرہ خورد بین سے تلاش کرنے والے کو بھی نہیں مل سکا۔ البتہ اس نمبر میں فاضل لاہوری صاحب پر روایتی اعتراض کا اعادہ اس صورت میں ہوا کہ ’’ضیاء الدین لاہوری اپنے مخصوص نقطہ نظر کے سبب معروف ہیں۔ اس لیے سرسیداحمد خاں کے بارے میں ان کی تحریروں میں ان کے جانب دارانہ نقطہ نظر کو نمایاں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے خیالات پر انحصار علمی اعتبار سے یک رخا اور تحریفانہ سمجھنا کچھ غلط بھی نہیں‘‘۔ (ص 343)
یہ نتیجہ فکر ہے ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کا، جنہوں نے ان سطور کی تمہید میں دس سطریں لکھیں۔ لیکن سوا دس صفحے کے اپنے مضمون میں لاہوری صاحب کے مخصوص نقطہ نظر کا انکشاف کیا، نہ یک رخا اور تحریفانہ مثال کوئی پیش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ محقق لاہوری نے تالیف و تصنیف میں سرسید کا تذکرہ انہی کے الفاظ میں کیا ہے۔ ان کا زاویہ نظر یہی ہے کہ سر سید نے اپنے بارے میں جو فرمایا وہ اس سے زیادہ مستند، معتبر اور فائق ہے جو دوسرے سرسید سے متعلق ارشاد فرما رہے ہیں۔ اس نکتہ نظر سے اختلاف ممکن نہیں، اس لیے معترض حضرات لاہوری صاحب کے کسی حوالے کو غلط ثابت کرنے کے بجائے ان کی نیت اور دیانت زیربحث لے آئے اور صرف جذباتیت اور لفاظی کے مظاہرے سے محقق اور حقیقت کو جھٹلانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔
ضیاء الدین لاہوری 12 جولائی 1935ء کو لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں پیدا ہوئے۔ جب ساتویں جماعت کے طالب علم تھے بارہ سال سے بھی کم عمر میں تحریکِ پاکستان کے جلسوں اور جلوسوں میں شریک ہوئے۔ میٹرک کے بعد گھریلو معاشی حالات کے باعث مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ معاش کے معمولی ذرائع پر چار سال تک انحصار کیا، پھر ریلوے میں ملازمت کی۔ اسی دوران پرائیویٹ طور پر تعلیمی امتحانات دیئے۔ 1964ء میں بی اے کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے ادارۂ تعلیم و تحقیق میں داخلہ لیا اور ایم اے کے پہلے سال محکمہ سے رخصت لے لی۔ گھریلو معاشی ذمے داری پوری کرنے کے لیے دوسرے سال ملازمت پر واپس آئے تو ساتھیوں کے تعاون سے رات کی ڈیوٹی کرالی اور صبح ریلوے اسٹیشن شاہدرہ سے سائیکل پر جامعہ پنجاب آتے۔ ایم اے کا نتیجہ جس دن نکلا اسی دن رخصت لی اور پھر استعفیٰ دے دیا۔ دو سال مسلم ہا ئی اسکول ایمپریس روڈ لاہور، ایک سال پنجاب یونیورسٹی کے ادارۂ تعلیم و تحقیق اور تین سال مختلف اوقات میں حمایت اسلام پبلک اسکول سے وابستہ رہے۔ 1970ء میں برطانوی محکمہ تعلیم و سائنس کی طرف سے تدریس کے لیے برطانیہ میں مستقل سکونت کے حقوق مل گئے۔ لیکن زادِراہ کے پہلے مرحلے کرائے کی رقم 1735 روپے بھی پس انداز نہیں تھی۔ کویت میں ملازمت سے یہ رقم حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ وہاں جانے کے لیے بھی گھر کی چند اشیاء فروخت کرنا پڑیں، لیکن کویت پہنچنے اور واپس آنے میں مصائب کا سامناکرنے کے سوا کچھ نہ ملا، تو قرض لے کر لندن پہنچ گئے، وہاں تدریس کے بجائے ملازمت کو ترجیح دی کہ اس سے وہ برطانوی قانون کے مطابق دو سال پاکستان رہ کر بھی ویزے کے بغیر واپس لندن آسکتے تھے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے پیش نظر چند ماہ خوب محنت کرتے اور دو سال وطن میں قیام کرتے۔ اس طرح ستائیس میں سے ساڑھے دس برس برطانیہ اور ساڑھے سولہ سال پاکستان میں رہنے کا موقع ملا۔ لاہوری صاحب تلاشِ معاش کے لیے برطانیہ گئے لیکن برطانیہ میں ملازمت کے بعد فارغ وقت اور بے روزگاری کے دنوں میں بے روزگاری الائونس کے سہارے ان کا سارا دن برٹش میوزیم لائبریری، انڈیا آفس لائبریری اور لندن یونیورسٹی کے ادارے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کی لائبریری میں سے کسی ایک ادارے کی نذر ہوتا، جہاں وہ تحقیقی کام میں مصروف رہتے۔ وہ ان علمی اداروں میں جب بھی جاتے شلوار قمیص میں ملبوس ہوتے۔ ان کی اس ادا کی موخرالذکر ادارے کے پروفیسر رالف رسل نے جو اردو کے مصنف اوراستاذ کے طور پر بھی مشہور ہیں، تعریف کی۔ برطانیہ میں ساڑھے دس برس کے قیام کے دوران معاشی مشقت کے ساتھ ساتھ علمی شغف سے مسلسل ربط نے انہیں ضیاء الدین لاہوری سے ’’ضیاء المحققین‘‘ بننے میں مدد دی۔
برطانیہ میں ذریعہ معاش میسر آنے کا جسے وقت ملے اُس کی معاشرتی زندگی کیسی ہوگی! بیرونِ ملک روزگار پانے والے پاکستانیوں کی رہائشی عمارتیں ان کی امارت کی عکاس ہیں۔ لیکن محقق لاہوری قرض لے کر برطانیہ گئے۔ واپسی پر لاہور میں کرائے کے مکان میں رہے۔ اپنی رہائش گاہ بنانے کا موقع ملا تو دیواروں کی اینٹیں مٹی کی لپائی سے چنی گئیں۔ آج بھی علامہ اقبال ٹائون کے آصف بلاک میں ان کی قیام گاہ ’’الحقائق‘‘ اور خاص طور پر ’’بیت الحقائق‘‘ کے در و دیوار اور چھت اس حال میں ہیں کہ وہاں قدم رکھنے والے کو ’’قدم رنجہ کیوں فرمایا‘‘ پر تشویش لاحق ہوجاتی ہے اور وہ ہر آنے والے لمحے باہر نکلنے میں عافیت محسوس کرتا ہے، جب کہ لاہوری صاحب پورے اطمینان سے اس کمرے میں انجام پانے والے تحقیقی کام سے آگاہ کرنے میں محو اور ان کا چہرہ کسی بھی قسم کے ملال کے بجائے طمانیت اور فرحت کا عکاس ہوتا ہے۔ استفادے اور مذاکرے کے لیے اُس دور کی بڑی شخصیات مولانا عبدالستار خان نیازی، علامہ طاہرالقادری، مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور (مدیر ’’برہان‘‘ دہلی) ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہان پوری، حکیم محمود احمد برکاتی، پروفیسر ڈاکٹر گرویپ کور (دہلی)، پروفیسر ڈاکٹر روپندر کور (امرتسر)، پروفیسر امجد علی شاکر اور پروفیسر تحسین فراقی کی اسی مکان میں آمد رہی۔ شاید اسی حوالے سے ملاقاتیوں کے لیے ایک کمرے کا اہتمام کیا گیا جو ڈرائنگ روم بھی ہے، دارالمطالعہ اور لائبریری بھی، جس میں سرسید احمد خاں کے بارے میں ایسی کتب موجود ہیں جو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی لائبریری میں بھی نہیں۔
محقق لاہوری کے معاشرت طیب ذرائع کے مطابق رکھنے ہی کے خیال بلکہ احتیاط کا نتیجہ ہے کہ ان کے بڑے بیٹے خالد اعجاز مفتی جو رویت ہلال کے امور میں لاہوری صاحب کے جانشین اور ’’رویت ہلال، مسئلہ اور حل‘‘ کے مصنف ہیں، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ذیلی محکمہ انکم ٹیکس میں ملازم ہونے کے باوجود اپنے ادارے میں کام کرنے کے بعد مختلف اخبارات میں کام کرتے رہے۔ لاہوری صاحب چاہتے تو اپنی تالیفات اور تصانیف کی رائلٹی ہی سے اپنا معیارِ زندگی
برطانیہ پلٹ افراد کی سطح پر لا سکتے تھے، کہ ان کی کتب کے ناشر ادارہ تصنیف و تحقیق کراچی، دارالفکر کراچی، فضلی سنز کراچی، پورب اکادمی اسلام آباد، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور، مجلس ترقی ادب لاہور، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، علم و عرفان پبلشرز لاہور، دارالکتاب لاہور، عاکف بک ڈپونئی دہلی، جمعیت پبلی کیشنز لاہور اور جنگ پبلشرز لاہور جیسے ادارے تھے، لیکن لاہوری صاحب کا کہنا تھا کہ وہ اپنے کام کو مشن سمجھ کر کرتے ہیں، اس لیے انہوں نے کبھی رائلٹی کا تقاضا نہیں کیا۔
ضیاء الدین لاہوری کو ’’سرسید شناسی‘‘ کے بعد رویت ہلال کے امور میں بھی متخصص کا مقام حاصل تھا۔ اس حوالے سے ’’رویت ہلال موجودہ دور میں‘‘ جیسی تصنیف منظرعام پر آئی جو لندن اور لاہور میں چھپی، جب کہ تقویم کے سلسلے میں جو ہر تقویم، مختصر سالانہ تقابلی تقویم اور chlis tiam Hijra and Christian calendars جیسی کتب تصنیف ہوئیں۔ لاہوری صاحب کی تحقیق کا ایک موضوع یہ رہا کہ پاکستان کا یوم آزادی 14 اگست نہیں 15 اگست ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے اپنے تحقیقی اسلوب کے مطابق قیام پاکستان کے بعد کے ابتدائی دور کے اخبارات و جرائد کے حوالےسے ایک کتابچے ’’پاکستان پندرہ اگست کو قائم ہوا‘‘ میں جمع کردیئے ہیں۔ ان کی دوسری کتب میں ’’مغلیہ دہلی کے آخری ایام‘‘، ’’1857ء کے چند اہم کردار‘‘ اور ’’بہادر شاہ ظفر کے شب و روز‘‘ شامل ہیں۔