رسائل و مجلات کی اہمیت

ایک دوست کی پوسٹ پر کہ ہمارے مفتی صاحب کا جواب آیاہے کہ : ((رسالوں كي جگه كوئي تفسير جلالين، روح المعاني، المظهري ،ابن كثير ،كشاف، فتح الباري، عمدة القاري، ہدایہ ،فتح القدير، يا كافية، الفية و غيره كا مطالعه بہت ہی مفید ہوگا)) مفتی صاحب ہمارے محترم ہیں، آپ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جو پانچ دس بنیادی کتابوں اور مراجع کو دانتوں میں دبائے رکھتی ہے، اس میں شک نہیں کہ مفتی صاحب دین کا بڑا گہرا علم رکھتے ہیں، اور جو مذکورہ بالا بلند معیار کتابوں کو سینے سے لگائے رکھے، اور روز وشب ان کی ورق گردانی کرتا رہے، اسکے علم کی گہرائی میں کیا شک ہوسکتا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علم میں گہرائی اور ایک حد تک معلومات میں وسعت دونوں مطلوب ہیں ، جہاں علم کے گہرے کنویں میں غوطہ زنوں کی ضرورت ہے، وہیں معلومات کے وسیع سمندر میں تیراکی جاننے والے بھی مطلوب ہیں،اور تفسیر وحدیث وفقہ کی باریکیوں کو جاننے والوں کے ساتھ جدید دور کے تقاضوں اور نئے اٹھنے والے فتنوں کی جانکار ی ، اور ان کا توڑ جاننا بھی ضروری ہے، یہ کام صرف قدیم کتابوں کا دامن تھامنے سے پورا نہیں ہوسکتا ۔پرانی کتابوں میں کسی مسئلہ کے حل کی بنیادیں تو مل سکتی ہیں، نئے رونما ہونے والے مسائل پر چاروں طرف سے روشنی پڑنا بھی مشکل ہوتا ہے، اور حالات بھی کبھی ایسا رخ اختیار کرتے ہیں، کہ علماء وفقہاء کی کاوشیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں،سلطنت عثمانیہ کے دور میں سولھویں صدی کے دوران فقہاء کا دعوی سامنے آیا تھا کہ ہم نے فقہی مسائل پر اتنی دماغ پاشی کی ہے کہ آئندہ چھ سو سال تک آنے والے مسائل کے حل کے لئے ہماری کتابیں کافی ہوں گی، نئے اجتہادات کی ضرورت نہیں ہوگی، اور واقعی ہمارے فقہاء نے اتنی محنت اس پر کی تھی، لیکن ہوا کیا، جس دور میں یہ کتابیں تصنیف کی گئی تھیں وہ نظریاتی دور تھا،سائنس کی ایجادات ابھی شروع نہیں ہوئی تھیں، لیکن جیسے ہی دنیا سائنس کے دور میں داخل ہوئی، اور نئی نئی ایجادات تیزی سے سامنے آنے لگیں، اور دنیا نظریاتی سے سائنس کے تجرباتی دور میں داخل ہوگئی، تو ہماری فقہ کی کتابیں اس تیز رفتار تبدیلی کاساتھ نہ دے سکیں، یہ سلسلہ ابتک جاری ہے ، سائنسی ، اقتصادی ، طبی، وغیرہ ایسے نت نئے مسائل سامنے آرہے ہیں ، جن کا اطمئنان بخش حل سامنے نہیں آرہا ہے۔دوسال قبل جب کورونا کی وبا عام ہوئی تھی، تو سائنس دانوں نے کہا تھا، کہ ہر بیماری کا علاج قدرت کے یہاں موجود ہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی وبا آتی ہے تو اس کا علاج تلاش کرتے کرتے چھ ماہ گزر جاتے ہیں، جب دو ا ایجاد ہوتی ہے تو پھر اس کا تجربہ کرنے میں مزید چھ ماہ لگ جاتے ہیں ، جب دوا کامیاب ہوکر مارکیٹ میں آتی ہے، اس وقت تک پرانا وائرس ختم ہوکر نیا وائرس میدان میں آجاتا ہے، اور یہ دوا بےکار ہوکر ، نئے وائرس سے بچاؤ کی کوششوں میں لگنا پڑتا ہے کچھ یہی صورت حال عصر حاضر میں اٹھنے والے جدید مسائل ، رجحانات، اور چیلنجوں کی ہے، ایک تو ہمارے دینی مدارس اور دارالعلوموں کی مشکل یہ ہے کہ ان میں کتب خانوں میں کتابیں محفوظ تو رہتی ہیں، لیکن ان تک رسائی عموما ممکن نہیں ہوپاتی،جس کی وجہ سے طلبہ میں مطالعہ اور کتب بینی کا شوق پیدا نہیں ہوتا، اور اساتذہ کا بھی یہ حال ہوتا ہے کہ چونکہ وہ بھی طالب علمی کے اسی ماحول کے پروردہ ہوتے ہیں، اور ان کی مصروفیات بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں تو زیادہ تر کو کتابوں کے اس بحر بے کراں سے استفادہ کی فرصت ہی نہیں ملتی ، نہ وہ طالب علمی کے دور سے پڑی ہوئی عادتوں کو بدل پاتے ہیں، جو عادتیں طالب علمی میں پڑتی ہیں، وہی آخرعمر تک رہتی ہیں، طالب علمی میں درسیات اور چند مراجع تک طالب علم محدود رہے، تو تدریس کے دوران بھی اس ریکھا کو پار کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ سے ہمارے علماء وفارغین کی بڑی اکثریت جدید معاشروں میں نکّو بن کر رہ جاتی ہے، جو مسائل پر ہماری سوسائیٹیوں میں گفتگو کا محور ہوتے ہے، ان سے یہ نابلد ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے علماء وفارغین کو جدید دور اور اس کے مسائل سےناواقف سمجھا جاتا ہے، او ر انہیں صرف بزرگ اور اللہ والے کی حیثیت دے کر برکت کے لئے کونے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ایک عالم دین کو معاشرے میں اپنی دعوتی اور علمی ذمہ داری نبھانے کے لئے مجلات سے مندرجہ ذیل طریقہ سے مدد ملتی ہے۔۱۔ علمی اور دقیق کتابوں کے مطالعہ کے لئے مخصوص بیٹھک ، اور سکون کی ضرورت ہوتی ہے، آج کے دور میں طباعت کے اعلی معیار ، اور بھاری کاغذ کے استعمال نے ان کتابوں کو کافی وزنی بنادیا ہے، اب کتاب کی کسی جلد کو دس پندرہ منٹ تک ہاتھ میں اٹھا کر پڑھنا ممکن نہیں رہا ہے۔ اور پھر اس کے لئے یکسوئی کہاں سے لائی جائے،لہذا علمی و دقیق کتابوں کو ہی پڑھتے رہنے کی ترغیب ایک وعظ شیریں تو ہوسکتا ہے، لیکن اسے عملی شکل دینا ایسا آسان نہیں ہے۔ لہذا ہلکی پھلکی اور چھوٹے وزن کی کتابوں اور مجلات کا مطالعہ ، نہایت ضروری ہے۔ اسی چیز کو خیال میں رکھ کر کینڈل کمپنی نے اپنے ای بک ریڈر کا حجم ایک ہتھیلی اور دو سوگرام سے زیادہ بڑھنے نہیں دیا ہے۔۲۔ ایک عالم دین اور داعی کو اپنا فرض منصبی ادا کرنے کے لئے جدید اسالیب سخن اور موثر انداز تخاطب سے واقفیت بے حد ضروری ہے، مجلات اس ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔۳۔ جب نئے مسائل اور فکری اور نظریاتی چیلنج رونما ہوتے ہیں، تو ان کی تحقیق کرکے کوئی کتاب نکلتی ہے تو اس وقت تک کورونا وائرس کے علاج کی طرح ، اس کتاب کے لکھتے، طباعت کے مرحلوں سے گذرتے، اور بازار میں آتے آتے سال بھر گزر جاتا ہے، لیکن مجلات چونکہ ہفتہ وار یا ماہانہ نکلتے ہیں تو پھر کتابیں آنے کا انتظار کئے بغیر جلد ہی مطلوبہ معلومات ان میں دستیا ب ہوجاتی ہیں۔۴۔ رسائل میں نئی کتابوں کی معلومات اور تبصرہ، اور شخصیات اور وفیات کے تذکرے شائع ہوتے ہیں، جو کتابوں میں دستیاب نہیں ہوتے، اور عموما ایسا ہوتا ہے کہ جو قیمتی مضامین مجلات میں شائع ہوتے ہیں، ان میں سے بہ مشکل ایک تہائی یا چوتھائی ہی دوبارہ چھپ پاتے ہیں، ورنہ یہ زیادہ تر تاریخ کے غبار میں چھپ جاتے ہیں۔ ان مجلات میں ایسی نادر معلومات ہواکرتی ہیں جو کہیں اور نہیں ملا کرتی ،اس کی اہمیت دیکھنا ہو تو، وفیات ماجدی، تبصرات ماجدی، مولانا ماہر القادری کے تبصرے، وفیات معارف، وفیات برہان ، دیکھ لیں، جن لوگوں نے محمد خیر رمضان یوسف کی تکملۃ الاعلام دیکھی ہے وہ کہیں گے کہ یہ مجموعہ تو سار ے کا سارا البعث الاسلامی لکھنو، اور الفیصل ریاض کا چربہ ہے۔۴۔ مجلات بایزید بسطامی کے دسترخوان کی طرح ہوتے ہیں، جن میں ہر کوئی اپنے رجحان کے مطابق معلومات کا پیٹ بھر لیتا ہے، جب مجلات چھپتے ہیں تو ان کی قدر وقیمت کا اندازہ نہیں ہوتا، لیکن جب ان کے اشارئے آتے ہیں، تو محسوس ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض مجلات نے ایک ایسے بڑے دائرہ معارف کی شکل اختیار کی ہے جن کے سامنے بڑے بڑے انسائیکلوپیڈیائی قسم کی کتابیں ہیچ ہیں۔ اور معلومات کی ندرت اور خود ان مجلات کی نایابی کی وجہ سے جن کتب خانوں یا شخصیات کے پاس یہ محفوظ رہتی ہیں ان کی حیثیت بہت بڑھ جاتی ہے، اسی اہمیت کے پیش نظر عالمی معیاری جامعات نے ڈاکٹریٹ کے اور تحقیقی مقالات میں مجلات سے استفادہ کو لازمی قرار دیا ہے۔ جن لوگوں نے احمد حسن الزیات کے عربی زبان کے مایہ ناز ہفت روزہ الرسالہ مصر کی بیس سالہ فائلیں اور علامہ رشید رضا مصری کے مجلۃ المنار کی پینتیس سالہ فائلیں اور ان کے اشارئے دیکھے ہیں ، وہ اش اش کراٹھیں گے، یہ مجلات معلومات کا انسائیکلوپیڈیا بننے کے ساتھ ساتھ بیسویں صدی کے آغاز میں اٹھنے والی عالم عرب کی ادبی علمی ودینی وسیاسی تحریکات کی ڈائریاں بن گئی ہیں، اردو زبان کے مجلات بھی ان سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ بعض تو ان سے بھی آگے ہیں، معارف اعظم گڑھ نے ایک سو سال پورے کرلئے، اسی طرح برہان دہلی اور ترجمان القرآن لاہور ، اور سچ ، صدق اور صدق جدید ہیں ، جہاں ان کی فائلیں اور اشارئے موجود ہیں، ان سے پوچھئے کہ کیا کچھ علمی وادبی وتاریخی انمول خزانے ان میں پوشیدہ ہیں۔ اور ان کا کھلنے والا ایک ایک ورق ہل من مزید کی دعوت دیتا ہے۔الحمد للہ اس ناچیز کو کتابوں سے تعلق کا جو بھی ذوق پیدا ہوا، اس میں ان مجلات کا بڑا ہاتھ رہاہے، مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمی مرحوم کے یہاں، القاسم دیوبند ، الابقاء تھانہ بھون ، دارالعلوم دیوبند،نور الاسلام (فرید وجدی کی ادارت میں مجلۃ الازہر کی پہلی پانچ جلدیں۔ اور الازہر کی ابتدائی جلدیں) ، البعث الاسلامی لکھنو کی ابتدائی جلدیں۔ سچ لکھنو کی پانچ فائلیں ، شامل تھیں، غریب خانہ میں مدیر مسئول البلاغ بمبئی کو تبادلہ میں ، برہان دہلی، صدق جدید لکھنو، اہل حدیث دہلی، تعمیر حیات لکھنو، ندائے ملت لکھنو، معرفت حق الہ آباد، رہنمائے صحت کلکتہ، الفرقان لکھنو، اور نہ جانے کیسےکیسےمجلات آتے تھے، اسی طرح صدیق لائبریری بھٹکل کا وسیع ذخیرہ بھی دسترس میں تھا، جس کا تفصیلی تذکرہ ایک مستقل مضمون میں ہم نے کیا ہے، جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں آنے والے مجلات کی فہرست اس سے جدا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارا وقت مجلات کی خواندگی میں گزرتا تھا، کسی مجلہ میں ایک دو دلچسپی کے مضامین مل جائیں تو قیمت وصول ہوجاتی ہے۔اس وقت اردو مجلات کی کثرت ہے اور ان کا معیار بہت گھٹ گیا ہے، بڑے بڑے دارالعلوموں کی اپنے مجلات کے معیار کی بلندی پر توجہ نہیں ہے،جس کی وجہ سے پڑھنے والوں کی دلچسپی ان میں کم ہوگئی ہے، لیکن اس گئے گذرے دور میں بھی چند جگنو ٹمٹما رہے ہیں، ان کی روشنی جب آنکھوں میں پڑتی ہے تو پھر امید کی ایک کرن ابھر تی ہے، کہ ماضی کے بجائے ، حال میں ، اور مستقبل کے لئے جینے والے اب بھی چند لوگ زندہ ہیں، جو علم وفکر کی شمع جلائے ہوئے ہیں، گھپ اندھیرے میں روشنی دینے والی ان چند شمعوں کی پھیلنے والی شعاعوں کا انتظار رہتا ہے، اور غیر معیاری اور اشتہاری قسم کے مجلات کی بھیڑ بھاڑ میں، ان چند معیاری مجلات کا انتظار علم وکتاب کی اس بزم کے چند دیوانوں کو ہمیشہ رہتا ہے۔