اندھے پن سے بچائو اور بچوں میں وٹامن اے کا استعمال

”سر! دھوپ میں نکلتے ہی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتا ہے، کہتا ہے چبھن ہورہی ہے۔“
”رات کو اسے دیکھنے میں تکلیف ہوتی ہے، کہتی ہے دھندلا نظر آتا ہے، آنکھوں کے ڈاکٹر نے کہا وٹامن A کی کمی کا مسئلہ ہے، بچوں کے ڈاکٹر کو دکھائیں“۔
صحت توازن کا نام ہے۔
وٹامنز وہ اجزاء ہیں جو غذا کے ذریعے بچوں کو حاصل ہوتے ہیں، ان کو مائیکرو نیوٹرینٹ (Micronutrients) کہا جاتا ہے۔ مختلف وٹامنز انسانی جسم میں مختلف کردار ادا کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں، ان کی کمی بیشی بیماری کا باعث بنتی ہے، ان کا بے تحاشا استعمال بھی نقصان دہ ہے اور کمی بھی۔ وٹامن A بینائی، سیل گروتھ، امیون سسٹم، پری ٹرم بے بی گروتھ، تولیدی ہارمونز وغیرہ وغیرہ میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
انسانی آنکھ میں بہتر بینائی کی بنیاد وٹامن A ہے۔ اگر یہ وٹامن کم ہو تو ابتدائی طور پر بچے کی آنکھوں میں خشکی، روشنی کا چبھنا، یا روشنی سے آنکھوں میں تکلیف… اور اگر بہت زیادہ کمی ہوجائے تو رات کو اندھیرے میں نابینا پن (Night Blindness) کی شکایت ہوتی ہے۔ اسی طرح کمی جسم میں کمزوری اور سیل کی تقسیم میں خرابی کا باعث بنتی ہے، خاص طور پر قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں (Preterm babies) کے پھیپڑوں ، سانس کی نالیوں اور غذائی نالیوں کے علاوہ جہاں جہاں رطوبت پیدا کرنے والے سیل(Mucus membrane) موجود ہیں وہاں وٹامن اے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اُن ممالک میں جہاں عام طور پر غربت کی وجہ سے غذا میں وٹامن A کی کمی ہوتی ہے وہاں ضرورت کے تحت یہ وٹامن بچوں کو ضرور دیا جائے، جیسا کے خسرہ جن ممالک میں زیادہ عام ہے وہاں پر سالانہ بنیادوں پر وٹامن کی خوراک بچوں کو پلائی جاتی ہے۔ تحقیق کرنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ وٹامن A کی مناسب مقدار بچوں میں انفیکشنز کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے خاص طور پر اُن ممالک میں جہاں ڈائریا اور بچوں کے پیٹ کے امراض عام ہیں۔ پاکستان میں بھی چونکہ بچوں میں وائرل ڈائریا اور خسرہ بہت عام ہے اور حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے پینے کا صاف پانی آبادی کے بیشتر حصے کو میسر نہیں، اور حفاظتی ٹیکوں کا استعمال بھی سازشی تھیوریز کی وجہ سے کم ہے، اس لیے پاکستان جیسے ملک میں وٹامنA کا بچوں میں استعمال بہت ضروری ہے۔ اگرچہ ابھی تک بالکل نیوبورن، یا یوں کہیے کہ نیوبورن سے پانچ ماہ تک کے بچوں میں وٹامن A کو لازمی قرار نہیں دیا گیا جیسا کہ وٹامن D کو لازمی کیا گیا ہے۔ مگر پاکستان کے خاص تناظر میں جہاں مائیں خود شدید غذائی قلت کا شکار ہیں وہاں بطور نیوبورن ڈاکٹر کے، میرے خیال میں وٹامن A کی کچھ مقدار ماں اور بچے دونوں کو ملنی چاہیے۔
سب سے بہترین وٹامن A حیوانی ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کا بہترین ذریعہ کلیجی کا استعمال ہے جسے ہفتے میں ایک مرتبہ حاملہ خاتون بھی استعمال کرسکتی ہے۔ سب سے بہتر گائے، پھر بکرے اور چکن کی کلیجی ہے۔ پنیر میں بھی اچھا وٹامن A ہوتا ہے، اس کے بعد پھر تمام ہری سبزیاں خاص طور پر پالک، اس کے علاؤہ گاجر، شملہ مرچ، شکرقند اور پھلوں میں پپیتا، خربوزے کی مختلف اقسام اور پھلوں کے بادشاہ آم وغیرہ۔
ایک قسم کا وٹامنA جو کہ حیوانی ذرائع سے حاصل ہوتا ہے … اور دوسری قسم جو پھلوں اور سبزیوں سے حاصل ہوتی ہے، انسانی جسم میں بہتر صورت میں تبدیل ہوسکتی ہے- اگر دیکھا جائے تو سبزیوں اور پھلوں والے وٹامن A اگر زیادہ مقدار میں بھی استعمال کرلیں تو نقصان دہ نہیں۔ جس طرح ہر وٹامن کی کمی کسی بیماری کا سبب بنتی ہے اور جسم میں ہونے والے مختلف کیمیائی عمل کو سست کرسکتی ہے اسی طرح زیادتی کے بھی خراب اثرات ہوتے ہیں۔ وٹامن A کی مجموعی زیادتی سے سردرد، چڑچڑاہٹ، ابکائی، بخار اور دیگر مسائل ہوجاتے ہیں، اس لیے وٹامنز کا استعمال بھی سوچ سمجھ کر ڈاکٹر کے مشورے سے ہی ہونا چاہیے۔